تحقیق اورپاکستانی معاشرہ
ازعافیت نظر
انگریز کون؟ ہر کوئی جن کی رنگت گوری ہو۔ چاہے وہ فرانسیسی بولتے ہوں یا جرمن، ہسپانوی بولتے ہوں یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چونکہ ان کی رنگت گوری ہیں لہذا وہ انگریز ہیں۔۔اورانگریز سارے مکّارہوتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ناخواندہ یا نیم خواندہ افراد کی جہاں بہتات ہوں وہاں ایسے ہی تصورات جنم لیتے ہیں ، حتٰی کہ
“اگر انگریز اسلام سے متعلق ریسرچ کرتے ہیں توبھی وہ اسلام کو غلط ثابت کرنے کے لیے کرتے ہیں”
یہ حیّرت انگیزانکشاف ایک اُستاد نے کئے۔ جس میں پر ہکابکا رہ گیا۔ میں نے اُستا د سے پوچھا:
“سرلگتا ہے آپ نے کافی تحقیقی مقالہ جات یا کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟”
جب کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے عرض کیا: یقیناً کوئی سو کے قریب ریسرچ والی کتابیں توآپ پڑھ ہی چکے ہونگے؟ جواب ندارد، میں نے مزید سوالات پوچھے، اورصرف ایک مقالہ کے بارے میں دریافت کیا۔تو اُستاد خاموش رہا۔ پھر میں نے ریسرچ کے بارے میں کچھ سوالات کیے تو اُستاد بے بسی کی تصویر بن گئی۔
میں نےالتجا کیا کہ چونکہ اُستاد کو معمار قوم کہا جاتا ہے اورمعاشرے کی تربیت میں ان کا کلیدی کردارہے۔ لہذا کیا یہ مناسب نہیں ہوتاکہ ان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے کسی فرد یا ادارے کی طرف سےانگریزوں کے اسلام سے متعلق ریسرچ پر تحقیق شدہ مقالہ پڑھنے کے بعد فیصلہ صادر کرتے؟ کیونکہ ایسا کیے بغیراگر ہم اپنے یا کسی کے خیالات کواس یقین کے اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ شئیر کرینگے توہم افواہ کو عام کرنے کے مرتکب ہونگے۔
ریسرچ چونکہ ایک وسیع وعریض شعبہ ہے اور شاذ ونادرایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص مختلف شعبوں میں مختلف مضوعات کے محقق ہوں ۔ لیکن جو لوگ جن شعبوں میں کام کرتے ہیں، ان سے توقع کی جاتی ہے کہ ان میں ان کے کام کا معیاراس شعبے کے کم سے کم قابل قبول کرائٹیریا، یا مینیمم سٹنڈرڈ کے مطابق ہوں۔خصوصاً یونیورسٹی کےاساتذہ کی گرفت اپنے متعلقہ شعبے کے حساب سے بہترین ہونا ضروری ہے۔لیکن شاید ہمارے یونیورسٹیوں میں اب بھی تدریس سے وابسطہ ایسے لوگ ہیں جن کی ریسرچ کے حوالے سے سمجھ بوجھ پرحیرانگی ہوتی ہے اورمجھے کچھ ایسےاساتذہ سے واسطہ بھی پڑا۔ ۔مثلاً ایک ڈاکٹرنے ریسرچ پڑاھائے بغیراپنے سٹوڈنٹس کو یہ ہدایات دئیے کہ وہ ٹیبل آف کانٹنٹ(فہرستِ مضامین) کے ساتھ اپنے ریسرچ ٹاپک پر ۱۵ پیج لکھ کر لائیں(خیال رہے کہ ٹیبل آف کانٹنٹ مقالہ لکھنے کے بعد سب سے آخرمیں بنایا جاتاہے)۔اپنے اسائمنٹ سے پریشان کچھ سٹوڈنٹس نے جب مجھ سے مدد کے لیے رابطہ کیاتو میں نے ان کے ریسرچ سے متعلق تصورات، تعریف وغیرہ کے بارے میں کچھ بنیادی سوالات پوچھا۔ پتہ چلا کہ یہ باتیں انہیں پڑھایا ہی نہیں گیا ہے۔ آخر میں جب مقالہ جمع کرنے کی باری آئی توانٹرنٹ سے مسروقہ مواد جن بچوں نے بھربھرکے مرتب کئے توایسے مواد نہ صرف قابلِ قبول ٹھہرے،بلکہ انھیں ڈگریوں سے بھی نوازا گیا۔
سرقہ بازی یاپلیجرازم (کسی اورکے کام کوخود سے منصوب کرنا) کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ میرے یونیورسٹی کے ایک اُستاد پروفیسر طاہر مسعود کے پورے پی۔ایچ ڈی کے مقالہ کی سرقہ بازی کی گئی۔ کچھ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز نے تو اپنے کئی طالب علموں کے کاموں پرباربارہاتھ صاف کیے۔ راقم کو بھی ایک ایسا تجربہ ہوا۔ جب میرے بی ایڈ کے دوران لکھے گئے ایک غیر معیاری کام کو ایک ڈاکٹر نے اپنے نام کرنے کی کوشش کیں جنھیں میں نے رنگے ہاتھوں پکڑلیا۔ میرے اُستاد مذکور نے توسرقہ باز کو معاف کردیا۔ لیکن یہ ایک ایسا کام ہے جوشاید ناقابل معافی ہیں۔ کیونکہ اس جرم کی سزا کا تعین ہائی ایجوکیشن کیمشن نے کیاہے۔ میں نےمیرے جو کام، میری اجازت کے بغیرطباعت کے قریب تھا اُس کی اشاعت روک دی،اوراُس ڈاکٹر کو میں نے تنبیع کی کہ وہ ایسے کام سے باز رہے۔ اس طرح کے کئی واقعات ہے جنھیں سپردقلم کیاجاسکتا ہے لیکن طوالت کے خوف سے احتراز کیا جارہا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے ہر یونیورسٹی میں اچھے پڑھانے والے نہیں یا یہ کہ سب تعلیمی اداروں کا معیار ایک جیسا ہے۔ یقیناً پاکستان کے کچھ یونیورسٹیز کا معیار دوسرے جامعات کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔کچھ رپورٹس کے مطابق بعض جامعات مخصوص شعبوں میں بین الاقوامی رینکنگ کے حساب سے کافی بہتر ہیں۔ لیکن اگر ہم بحیثیت مجموعی تحقیقی معیارات کی باتیں کریں تو پاکستان کی تصویر اچھی نہیں۔
ایسے میں جب اعلٰی تعلیمی اداروں میں تعلیم و تدریس سے وابسطہ افراد کے تحقیق سے متعلقہ سمجھ بوجھ ایسا ہوگا تو وہاں سے فارغ التحصیل طالب علم کے سوچ کا معیّار کیسا ہوگا؟ مزید برآن جب ایسے افراد معاشرہ میں مختلف شعبوں میں مختلف ذمہ داری والی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گےتوان کے کام کے انجام کیسے ہونگے؟
ایک اچھے اور پرامن معاشرے کی بنیاد بھی یقیناً تحقیق پر مبنی علم ہے، جس کی بدولت لوگ اپنے معاشرے کے دوسرے افراد، برادری، مسالک کے بارے میں رائے قاتم کرتے وقت بہت محتاط ہوتے ہیں۔اس طرح سے وہ بہت سے تعصبات سے اپنے آپ کو دور رکھ کرمعاشرے کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردارادا کرتے رہتے ہیں۔ایسے معاشروں میں ریاست اور ریاستی ادارے اپنے معاشرے کے افراد کی ترقی اور تربیت میں فراخ دلی کا مظاہر کرتے ہیں۔ نتیجۃً افراد اپنے ریاست کی ترقی اور تعمیرکے لیے دل وجان سے اپنا کردارادا کرتے رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی بھی دوسرے اقوام یا ثقافت سے وابستہ لوگوں کے بارے بغیر کسی تحقیق کے رائے قاتم کرنا سب سے آسان ہیں۔ مثلاً بلوچی ایسے لوگ ہیں، پٹھان بہت جذباتی ہیں، پنجابی بہت خراب ہیں۔ سندھی ویسے ہیں وغیرہ۔ پھر جب ہم اپنے علاقوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو پھر اپنے برادری، مسلک، گاٗوں وغیرہ کو کرۃ ارض کے سب سے اعلٰی درجے پر رکھنے میں اوردوسرے باقی لوگوں یاعلاقے کو کمتریا بےکار سمجھنے میں نہیں ہچکچاتے۔ مزیدبرآں انھیں تقسیم کو بنیاد بناکر دوسروں کے لیے بغض و عناد اور نفرتوں کو پالنے کا طویل سلسلہ بن جاتاہے۔ یقینآ اس سلسلے کے تانے بانے ہرمعاشرہ اورثقافت میں ملتے ہیں کہیں کم تو کہیں زیادہ۔لیکن تعلیمی اداروں میں ایسے دقیانوسی سوچ کو فروغ دینے والےاساتذہ یا دوسرے ذمہ دار لوگوں کی موجودگی باعث تشویش ہیں، جن سے معاشرے کے اندرغیرمتوازن طرز فکر جنم لیتی ہے۔ اورایسے اندازفکرکسی مخصوص طبقہ، برادری یا گروہ کی برتری اور دوسرے لوگوں کو پرلے درجے کے لوگ سمجھنے لگتے ہیں۔یقیناًایسی سوچ بیمارذہن کی پیداوار ہے اورایسی ذہنیت جہالت کے کوکھ سے پیدا ہوتی ہے۔نتیجۃًاس سوچ سے معاشرےمیں بہت سے خرابیان پیدا ہوتیں ہیں۔ ابن رُشد نے بجا طورپر کہا تھا:
“جہالت خوف کا باعث بنتا ہے، اورخوف سے نفرت جنم لیتی ہے، اور نفرت تشدد پر منتج ہوتی ہے”۔
اس لیے جہالت اورتعصابات کو معیاری تعلیم اور تحقیق کےذریعے دور کرنابہت ضروری ہے۔ جس سے معاشرے کی فضاءخوشگوار ہوں گے۔اوراس کی بدولت معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ لیکن معاشرے کا رخ نئے سمت کی جانب متعیّن کرنے کے لیے قومی ترجیحات کااز سرنوجائزہ لے کرمرّتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ معیاری تعلیم اورتحقیق دونوں کے لیے معاشی اورافرادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہیں۔پھران نئے ترجیحات کو اس کی صحیح روح کے مطابق اطلاق کیے بغیرملک کی ترقی کا خواب، خواب ہی رہے گا۔
اس آرٹیکل کی پہلے ہم سب میں اشاعت ہوئی ہے۔
https://www.humsub.com.pk/324173/aafiyat-nazar-2/