جنسی تشدد کے واقعات میں کمی، سب کی مشترکہ ذمہ داری
ممتاز گوہر
سکردو میں ایک بچے سے اجتماعی جنسی زیادتی کی خبر تب سامنے آئی جب وہ پانچ ماہ تک بلیک میل اور تشدد کا شکار ہوتا رہا. بے چارہ غریب گھرانے سے تھا محنت مزدوری کرتا تھا. بقول والد خودکشی کی کوشش کی بچا لیا گیا.
یہاں اب بھی ایسے درجنوں بچے ہیں جو ایسے درندوں کے چنگل میں پھنسے ہیں. ایسے سینکڑوں واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے. یہ واقعات ہمارے ارد گرد، ہمارے گھروں اور محلوں میں ہی رونما ہوتے ہیں. اور اگر کوئی واقعہ خوش قسمتی رپورٹ ہو جائے تو سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اس سے متعلقہ اداروں اور افراد کو کوسا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا معصوم بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنا صرف ان لوگوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے؟؟
ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت ایسے مسائل کے حوالے سے مستعد رہے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے. وہ اپنے گھر، محلے، گاؤں، شہر کی سطح پر ایسے لوگوں پر کڑی نظر رکھے.
گلگت میں حسنین کا واقعہ ہو دیدار حسین کا، مسلم خان کا یا حالیہ جگلوٹ کے معصوم بچے کا. سب دردناک تھے. انصاف کے نظام پر بھی اور تفتیش کے نظام پر بھی ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں.
بدقسمتی سے ایسے واقعات میں ہمیشہ طاقت کا استعمال ہوتا ہے. اب سکردو کے واقعے میں بھی ان درندوں کو بچانے کے لیے طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال ہوگا.
گلگت میں مسلم خان کا واقعہ تو بہت ساروں کو یاد ہوگا. اس گینگ نے کیسے اس بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی. مسلم خان کو اپنی عزت جان سے عزیز تھی دریا میں کود گیا. اور اس گینگ نے اسی طرح طاقت کے ساتھ سیاسی و مذہبی پشت پناہی میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھا اور سزا کے بجائے اس گینگ کے تمام ممبران کو اہم سیاسی و سرکاری نوکریوں سے نوازا گیا.
اب سوال یہی ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ بچوں کو جنسی تشدد جیسے جرائم سے محفوظ رکھا جائے. تو اس حوالے سے چند اقدامات اور سفارشات پیش خدمت ہیں جو بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کچھ اداروں نے مل کر مرتب کئے ہیں.
1- اس مہم میں والدین اور اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ والدین گھر کا ماحول ایسا رکھیں کہ بچے کھل کر اپنے مسائل بتا سکیں۔ والدین بچوں سے بات کریں، ہچکچائیں نہیں۔
2-بچوں کے تیزی سے بدلتے رویئے، غصہ، چھوٹوں پر تشدد، بد تمیزی یا پھر ایک دم لوگوں سے چھپنا، الجھن کا شکار نظر آنا، گھبرانا اور ہکلانا ایسی علامات ہیں جن پر والدین اور گھر والوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ کسی خوف کا شکار تو نہیں۔ ان کی نفسیات پر بھی بات کی جائے۔
3-اساتذہ اپنے طلبہ و طالبات پر نظر رکھیں۔ ایک دم خراب نمبر آنا۔ کلاس میں متوجہ نہ ہونا۔ ہم جماعتوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا، برے رویوں کا اظہار کرنا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
4-والدین اپنے بچوں کو ‘نہیں’ کہنا سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ کوئی اپنا یا اجنبی ان کے کس حد تک نزدیک آ سکتا ہے۔ اور ان کے جسمانی اعضا والدین یا ڈاکٹر کے علاوہ کوئی نہیں چھو سکتا۔
5- ہمارے ہاں وقتی کام ہوتے ہیں پالیسیاں بنتی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں اپنے نصاب کو بہتر کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ تمام ٹیکسٹ بک بورڈ کو جنسی تشدد پر یکساں مگر مقامی زبان میں کتابچے مرتب کریں۔
6- انٹرنیٹ پر بہت سے چور دروازے کھل چکے ہیں۔ کچھ ذہنی بیمار آج بھی چائلڈ پورنوگرافی نہ صرف خود دیکھتے ہیں بلکہ آگے بھی بھیجتے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں سے سختی سے کرنا چاہیے۔
7۔ہمارے بچوں نے خون خرابہ دیکھا ہے۔ آج کی نسل کسی پر بھروسہ کرنے پر تیار نہیں۔ اوروہ الجھنوں اور اعتماد کی کمی کا شکار ہے۔ ان ہی پہلوں کا نتیجہ ہے کہ کچھ غصے کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ بچے اس طرح کی نفسیاتی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ پھر کسی مظلوم یا کمزور کے ساتھ اپنی فرسٹریشن نکالتے ہیں لہٰذا امن اور معاشی استحکام سب سے زیادہ ضروری ہے۔
8- اگر کسی کے ساتھ یہ سانحہ ہو جائے تو چپ نہ رہیں بلکہ جلد سے جلد پولیس میں رپورٹ کرائیں۔ تاکہ شواہد محفوظ کیے جا سکیں۔ اس طرح کے جرائم میں شواہد ہی کی بنیاد پر ملزم، مجرم بن سکتا ہے۔ جتنے مضبوط شواہد اتنی جلدی مجرم پکڑا جائے گا۔
9- ہمیں پولیس اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ساتھ ہی عام آدمی کو ایف آئی آر کے اندراج سے آگاہ کرنا ہو گا۔ بروقت انصاف اور مجرم کی سخت پکڑ ہی ان جرائم کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔
10-ہر مثبت قدم اور آواز کی اہمیت ہے۔ اس لیے آواز اٹھائیں۔ اور یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری انفرادی ذمہ داری بھی ہے۔ ہراسانی اور جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے ہر ایک شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
آئیں اپنے بچوں کو تعلیم دیں اور ان سے بات کریں کیونکہ تحفظ آگاہی سے جڑا ہوا ہے۔