Uncategorized
ترقی کے سفر میں خواتین کا کردار
تحریر : راجہ حسین راجوا
قوم تب تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلیں۔ گھریلو معاملات سے لے کر ملکی ایوانوں تک زندگی کے شعبے میں عورت کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ جس معاشرے میں عورت کو حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے وہ معاشرہ کھبی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ انھوں نے خواتین کو تمام شعبہ ہاے زندگی میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا کیونکہ آگے بڑھنے کیلے مرد اور عورت کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔
اسلام نے بھی عورت کا مقام بلند رکھا ہے۔ ہمارے پیارے نبی سرور کونین کی آمد سے پہلے عرب میں عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بلکہ اپنی ننھی بچیوں کو "طعنہ” سے پچنے کیلے زندہ درگور کرنے کی روایت بھی موجود تھی۔ اس سفاک اور سنگ دل معاشرے میں جہاں عورتوں کو کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا اسلام نے عورت کے بلند مقام کو تسلیم کیا۔
تاہم، بد قسمتی سے آج بھی ہمارامعاشرہ دور جاہلیت کے فلسفے کو اپنا رہا ہے، اور عورتوں پر بیجا قدغنیں لگائی جارہی ہیں۔ عورت اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے۔ بلکہ مردوں سے اچھا بھی کر سکتی ہے۔ اگر کسی کے پاس کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت ہو تو اسے روکنا ظلم ہوگا۔ بطور معاشرہ ہمیں ان کو حوصلہ دینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہمارا ملک بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم اپنی کمزوری کو چھپانے کیلے دوسروں کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔
پاکستانی خواتین ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ میں یہاں ذکر کرونگا محترمہ بے نظیر بھٹو کا جس نے سیاست میں ایک مقام بنایا آج اس کے سیاسی مخالفین بھی ان کی تعریف کرتے ہیں اور پوری دنیا کی خواتین محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے لیے نمونہ قرار دیتی ہیں۔ آج پوری دنیا اسکی مدح سرائی کرتی ہے پاکستان میں ہزاروں کارکن انکے نام پہ جان دینے کیلے تیار ہیں یہ سب اسلیے کہ محترمہ ایک قابل اور جرات مند خاتوں تھیں اسلیے ملک دو دفعہ مملکت خداداد پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ اسی طرح ارفع کریم بارہ سال کی عمر میں مایئکروسافٹ انجنئیر بنی اور دنیاکی کم سن ترین سوفٹ وئیرانجنئیربننے کا اعزاز حاصل کیا۔ جنہیں بل گیٹ نے خود بلاکر ملاقات کی اور ایوارڈ سے نوازا اللہ کو شاید یہی منظور تھا وہ بہت دیر تک ہمارے درمیان نہیں رہی ورنہ پوری دنیا اس کو اپنا استاد مان لیتی اور انکے فارمولے سافٹ وئیر اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کرتے۔ آج ہم سب فخر سے کہتے ہیں کہ ارفع کریم پاکستانی تھیں, انکا جب بھی نام آتا ہے ہمارا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔ ملالہ یوسفزئی پہلی کمسن ترین لڑکی ہے جس نے امن کا نوبیل پرائز جیتا۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب کینیڈین وزیراعظم نے ملالہ کو اپنی کرسی پیش کی اور شہریت آفر کی۔ آج دنیا میں سفیر امن کے طور پر ملالہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے. ایسی بہت ساری مثالیں ہیں جو خواتین کی کارکردگی کو عیاں کرتی ہیں۔
اسی طرح ہمارے گلگت بلتستان کی بہنیں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ پہلے ہم اکثر سوچتے تھے کہ کوہ پیمائی میں مرد ہی آگے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ مضبوط ہوتا ہے اور اس کوہ پیمائی کے دوران پیش آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور سختیوں کو ایک مرد ہی سہ سکتا ہے ہماری بہن ثمینہ بیگ نے ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دنیا کے ہر براعظم میں واقع بلند ترین (سات) چوٹیاں سر کرکے اس سوچ کو بھی غلط ثابت کر دیا آج پوری دنیا کے لوگ انکو جانتے ہیں اور تمام لوکل انٹرنیشنل کوہ پیماؤں کیلے رول ماڈل بن چکی ہیں۔ آج گلگت بلتستان نگراں سیٹ اپ میں مشیر اطلاعات و ٹوریزم ہیں جو کہ قابل تحسین ہے یہی لوگ پاکستان کا چہرہ ہیں انھیں پروموٹ کرنا ضروری ہےتاکہ انکی حوصلہ افزائی ہو۔
بیوروکریسی میں ایسں پی ہنزہ میڈم طاہرہ قابل ذکر ہے۔ گلگت ںلتستان کی سیاست میں بھی خواتین کا کردار بہت اہم ہوچکا ہے۔ اہم سیاستدانوں میں سعدیہ دانش, ساجدہ صداقت, آمنہ انصاری, کلثوم مہدی, دلشاد بانو, سیدہ مغل , پروین غازی، ثروت صبا، ثوبیہ مقدم اور نیک پروین کے نام سر فہرست ہیں۔ انھوں نے جس ماحول میں سیاست کا آغاز کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے اس دور میں عورت کیلے سیاست کرنا تو درکنار گھر سے باہر نکلنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ تاہم انہوں نے ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرکے اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ ساجدہ صداقت صاحبہ مجھے ایک انٹرویو میں بتا رہی تھیں کہ جو لوگ مجھے طعنے اور باتیں کس رہے تھے آج میرے پیچھے گھومتے ہیں کوئی کہتا ہے میری بیٹی کی شفارش کرو سیاست کرنا چاہتی ہے کوئی بیٹے کی شفارش کرواتے ہیں اور انکی محنت کے بدولت آج بہت ساری خواتین سیاست کی طرف آرہی ہیں۔
ہم سب کو چاہیے کہ ان سب کو اپنی بہنیں سمجھیں اور ان کے بازو بن کر ان کی حوصلہ افزائی کرے اور ہر اچھے کام میں ان کی تقلید کریں، تاکہ پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کی ترقی میں ہماری یہ بہنیں اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔