کورونائی سازش اور، لوگوں کا غیر زمہ دارنہ رویہ
محمد علی انجم
کورونائی صورتحال کے ابتر دن تھے۔ لوگ بہت زیادہ محتاط تھے۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے لوگ گریزاں تھے۔ سماجی سرگرمیاں بھی معطل تھیں۔ خوف کا ایک عجب عالم تھا۔ بازاروں میں اور مارکیٹوں میں سناٹے کا عالم ہوتا تھا۔ لوگوں کا محتاط رویہ دیکھ کر وحشت سی ہوتی تھی۔ لگتا تھا کہ کورونا کی گرفت بہت زیادہ مضبوظ ہو گئی ہے، جس نے لوگوں کو پوری طرح وحشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ شاہد اسی وحشت کی وجہ سے کورونا بھی قابو میں تھا۔۔
ابتدائی دنوں میں کورونا کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے بھی ہم سب سے آگے تھے، لیکن کورونا مقامی سطع پر منتقل نہیں ہوا تھا۔ کارباری معاملات معطل تھے۔ پھر آہستہ آہستہ کارباری معاملات بحال ہوئے۔ تعلیمی معاملات تاحال معطل ہیں، لیکن سماجی معاملات بھی اب جزوی طور پر بحال ہو چکے ہیں۔ شادیوں کی تقاریب میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ ایس، او پیز کو یکسر نظر انداز کیا جا رہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ماسک لازمی تھا۔ اب ماسک پہننے کی روایت بھی دھیرے دھیرے ختم ہو چکی ہے۔ باقاعدہ ہاتھ دھونا، سینیاٹرز یا صابن سے ہاتھ دھونا تو لوگوں کو اب باقاعدہ بوجھ لگتا ہے۔ مریض بڑھ رہے ہیں۔ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ مقامی سطع پر وائرس کی منتقلی کے کیسز بھی آئے روز بڑھتے جارہے ہیں، لیکن مجا ل ہے کہ کوئی اس معاملے کو سیریس لے۔ کچھ لوگ تو باقاعدہ محاز کھول کر بیٹھے ہیں کہ کورونا ایک سازش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس وبا سے سبھی کو متاثر ہونا ہے، اس لئے احتیاط سے فرق نہیں پڑے گا۔ اور کچھ لوگ دوسروں کے رویوں سے تنگ آکر ایس، او پیز پر عمل کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ ۔کچھ لوگ سر عام چھنکتے اور کھانستے گھوم رہے ہیں۔ ہاتھ بھی ملا رہے ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ رہے ہیں۔اجتماعی غیر ذمہ دارانہ رویے سے ہم کورونا کی افزائش نشل میں متواتر اضافہ کر رہے ہیں۔
عجب مرض ہے کہ آپکی ایک چھنک کئی لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معمولی نوعیت کا مرض ہے۔ ہم ٹھیک ہو جائیں گے۔ ٹھیک ہے۔ آپ کی قوت مدافعت ٹھیک ہے۔ آپ اس مرض کو شکست دے سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی وجہ سے کسی کا یا آپ کا اپنا کوئی عزیز اس مرض سے نبرد آزما ہوتے زندگی کی بازی ہار گیا تو پھر کون ذمہ دار ہوگا؟ آپ کے غیر زمہ دارنہ رویے کی وجہ سے کسی کے گھر کی خوشیاں اگر چھن گئی اور خوشیوں کی جگہ غم نے لی تو تو زمہ دار کون ہو گا؟
کورونا ایک خاموش قاتل کی طرح ہمارے معاشرے میں جگہ بنا رہا ہے اور خوشحال گھرا نوں کو ویران کر رہا ہے ۔بقول ڈاکٹر آصف رضا، عبداللہ ہسپتال سکردو میں روزانہ انتہائی سیریس مریض آ رہے ہیں۔ اگر تناسب یہی رہا تو مستقبل قریب میں ہمارے پاس مریض رکھنے کی جگہ تک نہیں ہو گی۔
آکسیجن سیلنڈز کی شدید کمی ہے۔ خدا را احتیاط کریں۔ مذاق اور لاپرواہی میں اپنی زندگی کو اجیرن اور ویران مت کریں۔ خوشحالیوں کو ویرانیوں میں مت بدلیں۔ بس تھوڑی سی تو احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
زندگی بہت خوب صورت ہے۔ یقینا اس کا اندازہ اپنے پیاروں سے دور الگ تھلگ تہنائی میں اکھڑتی سانسوں کے ساتھ آکسیجن سلنڈر کے سہارے زندگی گزارنے والے کورونائی مریض ہی جانتے ہیں۔
کیا آپ بھی اکھڑتی سانوں کے ساتھ تنہائی کے لمحات میں اپنے پیاروں کے لیے ترسنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر احتیاط کریں۔ محکمہ صحت کی طرف سے دی گئی ایس او پیز پہ عمل کریں۔۔
ایک شخص کورونا کو مذاق سمجھتا تھا اور آئے روز محفل سجا کردوستوں کوکورونائی "سازشوں” کے بارے لیکچرز دیتا تھا۔ ایک، دن یوں ہوا کہ اُس کے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ وہ آئسولیشن وارڈ میں آکسیچن سیلنڈر کے سہارے مشکل سے سانسیں لے رہا تھا۔ ہر اکھڑتی سانس کے ساتھ پچھتاوا اُس کی آنکھیں نم کر دیتا، لیکن پھریوں ہوا کہ سانسوں نے کورونا کے ہاتھوں شکست کھا لی، اور بقول اُس کے کورونا کی سازش جیت گئی اوروہ زندگی ہار گیا۔ اُس کی زندگی میں کورونا کے خلاف تقاریر سننے والوں میں سے کوئی اس کے جنازے میں موجود نہیں تھا۔ تین بندے اُسے دفنا رہے تھے۔۔۔
کیا آپ بھی کورونا سے ہارنا چاہتے ہیں؟ نہیں، تو پھر خدارا احتیاط کیجیے۔ احتیاط ہی کورونا سے جیتنے کا واحد راستہ ہے۔