کالمز
گلگت بلتستان کے ادب کا درخشاں ستارہ ڈوب گیا
تحریر: علی اقبال سالک
ایک رسالہ میں پہلی بار میری نظروں سے اس شخصیت کی تصویر اوجھل ہوئی،اس تصویر کے ساتھ کچھ اشعار لکھے ہوئے تھے٫ جس میں ازقلم پروفیسر حشمت کمال الہامی لکھا ہوا تھا، ان اشعار کو پڑھنے کے بعد میں اس شخصیت سے متاثر ہوا اور ان اشعار کو میں اپنی کاپی میں لکھ رہا تھا، میرے والد محترم نے دیکھتے ہوئے کہا یہ پروفیسر حشمت کمال الہامی صاحب ہیں اور یہ میرے اچھے دوست ہیں، ہم دونوں کسی مدرسے میں ساتھ رہتے تھے وہ اس زمانے میں بھی اسی طرح اشعار لکھا کرتے تھے، بڑے سادہ اور نفیس قسم کی شخصیت ہے، ہم دونوں فارغ اوقات میں مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، یہ شخصیت بہت بڑے ، کھلے دل اور شریف انسان ہے، ایک سال ہم ساتھ رہے، پروفیسر صاحب کو کبھی میں نے کسی کے خلاف سازش کا حصہ بنتے نہیں دیکھا، بس وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے ،اور بڑا اچھا بولتے بھی ہیں اور لکھتے ہیں، مگر ان میں کبھی غرور اور تکبر کا عنصر نہیں دیکھا، یہی وجہ ہے آج بھی میں ان کو اپنا بہترین دوست سمجھتا ہوں اور اسکردو جب بھی جاتا ہوں ان سے حادثاتی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ،اس دن سے میرے دل میں پروفیسر صاحب کیلئے عزت کا ایک رتبہ پیداہوا،حالانکہ میں نےاس کو دیکھا تک نہیں تھا،
خیر وقت گزرتا گیا ،ایک دن ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں مجھے کسی مشاعرہ میں جانے کا اتفاق ہوا ، جس کی میزبانی معروف شاعر ذیشان مہدی صاحب اور صحافی محمد علی انجم کر رہے تھے، اتنے میں سٹیج سے اعلان ہوا اب ہمارے درمیان پروفیسر حشمت کمال الہامی صاحب بھی موجود ہیں، میرا پہلے سے موجود تجسس اب بے چینی میں تبدیل ہوگیا ،میں انتظار کرنے لگا ، پروفیسر صاحب کی باری کب آئے گی اور میں اس کو سن سکوں ،یوں مشاعرہ چلتا رہا اور اس دوران اس وقت کے حاکم وقت وزیر اعلی سید مہدی شاہ بھی مشاعرے میں بڑے دھوم دھام سے داخل ہوئے، اتنے میں پروفیسر صاحب کی باری آ گئی، یوں محفل میں خاموشی طاری ہوگئی، وہ ایک مخصوص انداز میں مائیک پر آ ئے، مسکراہٹوں کو بکھیرتے ہوئے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنی نشست سنبھالی لی، اور اشعار کہنے لگے پوری محفل اس وقت جھوم اٹھی جب انہوں نے یہ اشعار کہا ،شاعری کو ہر گدھا چارا سمجھ کر چرنے لگا ،اور اس کے ساتھ حکومت کے ناکامیوں کے بارے میں بھی کچھ اشعار کہے جن کا خلاصہ کچھ یوں تھا ،چوری بھی اور اوپر سے سینہ زوری بھی، آخر میں سید مہدی شاہ نے ان اشعار پر اعتراض بھی کیا اور کہا جناب ہم نے کچھ کام اچھے بھی کیے ہیں اشعار کے ذریعے ان کی تعریف بھی ہونی چاہیے اور یوں یہ مشاعرہ ختم ہوگیا وہ شخصیات بھی وہاں سے غائب ہوگئیں ،اس کے بعد مجھے ڈگری کالج سکردو میں داخلہ لینے کا اتفاق ہوا،ایک دن سوشالوجی کے پروفیسر طاہر ربانی صاحب تشریف نہیں لائے تھے تو ہمیں کالج انتظامیہ نے بتایا ، ربانی صاحب کی جگہ کالج کے روح رواں پروفیسر حشمت کمال صاحب ہماری کلاس لیں گے، مجھے خوشی ہوئی اور سوچا آج پروفیسر حشمت کمال الہامی کو بہت قریب سےسنیں گے اور یہی سوچ ہی رہا تھا اتنے میں نامور شخصیت کلاس کے دروازے پر نمودار ہوئی، الہامی صاحب ہاتھ لہراتے اور مسکراتے ہوئےکلاس میں داخل ہوئے ،پوری کلاس استاد محترم کی عزت میں کھڑی ہوئی ،اسٹیج پر کھڑے ہوئے، سادگی اور عاجزی کا عالم یہ تھا ان کو پوری کلاس جانتی تھی اس کے باوجود انہوں نے اپنا تعارف کیا اور ایک اشعر سے کلاس کا آغاز کردیا، لیکچرشروع ہوتے ہی پوری کلاس ان کے ہاتھوں اغوا ہو گئی ،حشمت کمال کے ہر جملے میں طالب علم کو ایک نئی سوچ ، نئی تاریخ، نیا فلسفہ اور نئی امید مل رہی تھی وہ پورے 40 منٹ کھڑے ہو کر بولتے گئے، پورے لیکچر میں اگر مگر سے کام نہیں لیا ،وہ روانی سے بولتے گئے، واقعی میں وہ علم کے سمندر تھے، وہ دریا کو کوزے میں بند کرتے تھے جس کا اندازہ آپ اس شعر سے لگا سکتے ہیں، پورے گلگت بلتستان کی تعریف دو جملوں میں انہوں نے بیان کی ہے،
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیچ میں ہم ہیں
مثالِ گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
یہ وہ شعر ہےجو گلگت بلتستان کے طالب علم جب اس خطے سے باہر جاتے ہیں تو یونیورسٹیوں میں کالجوں میں مدرسوں میں گلگت بلتستان کی تعریف کے لئے اس شعر کی مدد لیتے ہیں اور تقریر شروع کرنے سے پہلے یہ شعر کہتے ہیں جس کے بعد ہال میں موجود قارئین کو یا ہجوم کو پتہ چلتا ہے، یہ گلگت بلتستان کا باسی ہے، کون کہتا ہے حشمت کمال مرحوم ہو چکے ہیں یہ باب ختم ہو چکا ہے ایسا ہرگز نہیں ان کے اشعار ان کی کتابیں گلگت بلتستان کے کونے کونے کی لائبریریوں میں علم کے مراکز میں بھری پڑی ہوئی ہیں ،لیکن افسوس ہوا گوہر نایاب خود نایاب ہوگئے، وہ ہنستا مسکراتا چہرہ، اب دیکھنے کو نہیں ملے گا، وہ آواز اب مشاعروں میں سننے کو نہیں ملے گی، گلگت بلتستان کے مشاعروں میں لوگ اب اس آواز کو سننے کے لئے ترستے رہ جائیں گے ،مگر وہ آواز اب مکمل خاموش ہو چکی ہے اور ہم سب کو الوداع کہہ چکی ہے ، صرف ان کے جانے سے ان کے وارثین یا ان کی اولاد یتیم نہیں ہوئی بلکہ میں سمجھتا ہوں گلگت بلتستان کا ادب یتیم ہو چکا ہے ، بہرحال ان کے تمام شاگردوں کو اور اہل ذوق حضرات کو چاہیے ،وہ حشمت کمال کے ویژن کو فروغ دیں ، حشمت کمال الہامی کا ویژن معاشرے میں محبتوں کو عام کرنا تھا، انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کا خواب تھا , اس معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کریں, ان کا دعوی تھا ، گلگت بلتستان کے باسی گوہرِ نایاب ہیں ان کو ڈھونڈیں اور ان کو گوہر نایاب بنانے میں کردار ادا کریں اور پورےگلگت بلتستان کو گوہر نایاب بنا سکتے ہیں اور حشمت کمال کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مرحوم کا دعوی ہے جس کو شعر کی شکل میں انہوں نے بیان کیا ہے،
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیچ میں ہم ہیں مثالیں گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے تھے
واقعی میں حشمت کمال صاحب گلگت بلتستان کے گوہر نایاب تھے اور ادب کا یہ درخشاں ستارہ ہمشہ کیلئے ڈوب گیا