مسیحا اپنی ضد پر قائم ….. ایک اورچراغ بجھ گیا
تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر (چترال)
آنکھ سے دورسہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے توبس یاد بہت آئے گا
شہیدوں کے سرزمین وادی غذرسے تعلق رکھنے والے پاکستا ن پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر گلگت بلتستان سید کرم علی شاہ المعروف براندیسو شاہ صاحب مختصر علالت کے بعد گزشتہ روز اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی عمر 87سال کے لگ بھگ تھی۔گلگت بلتستان اور اپر چترال کے عوام و خواص میں وہ انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
وہ بونی (بالائی چترال) کے قریب جنالی کوچ نامی گاؤں میں جاگیر کے بھی مالک تھے۔ ان کی وفات کی خبر سن کر گلگت بلتستان اور اپر چترال میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔اور سوشل میڈیاپر ان کی موت کی خبرجنگل میں آگ کی طرح گلگت بلتستان اور چترال سمیت ملک بھر میں پھیل گئی۔گلگت بلتستان اور چترال میں آج بھی لاکھوں مرید غمزدہ ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور تمام لواحقین کو صبرو جمیل عطا فرمائیں،آمین ثم آمین۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
پیر سید کرم علی شاہ کا تعلق ضلع غذر سے تھا، آپ کا شمار گلگت بلتستان کے قدآور سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ غذر حلقہ ون سے ناردرن ایریا مشاورتی کونسل کے انتخابات 1970 سے لیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے الیکشن 2009 تک ناقابلِ شکست مسلسل دس مرتبہ ممبر منتخب ہوئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ آپ 1994 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو جبکہ 2011 میں پی پی پی ہی کی حکومت میں ہی گورنر گلگت بلتستان کے عہدے پر فائز رہے۔اورکئی سالوں تک سپریم کونسل سنٹرایشیاء کے وائس پریذیڈنٹ رہے۔پیرصاحب ایک شخصیت ہی نہیں سیاسی و مذہبی تربیت گاہ رہے وادی غذرکے مکینوں کے لئے مشکل وقت میں ایک شفا خانہ اور شفیق باپ جیسے رہے۔جماعتی سطح پر بھی بڑے بڑے عہدے پرفائزرہے اور ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان دو دفعہ ا ُن کے دولت خانہ میں تشریف لائے تھے۔
پیر صاحب کے پسماندگان میں 3 بیٹے،4 بیٹیاں اور 2 بیوائیں شامل ہیں،پیر صاحب تقریباً 43 سال قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے ممبر رہے۔آپ کے بڑے بیٹے سید جلال علی شاہ الیکشن 2020 میں غذرون سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔
آپ کو امن کا داعی سمجھا جاتا تھا اور ہر مسلک کے لوگوں کو قدر نظر سے دیکھتے تھے اور اعتماد کرتے تھے۔سال 2020 کی وحشتوں میں آج ایک اور اضافہ پاکستان پیپلزپارٹی عظیم سیاسی رہنماسے محروم ہوگئے۔
پیر سید کرم علی شاہ کو اس جہان فانی سے گزرے ہوئے دو دن بیت گئے مگر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور کسی بھی دم ہنستے، مسکراتے نظر آئیں گے۔ مگر ازل سے قدرت کا یہ نظام رہا ہے جو اس دنیا سے ایک بار گذر جاتے ہیں وہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ بس ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں جو رہ رہ کر پلکوں پر اشکوں کے چراغ جلاتی ہیں۔خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوشیاں انسان کے لیے سکون و راحت کا باعث ہوتی ہیں تو افسردگی اورافسوس ناک واقعات اسے دکھی کردیتے ہیں۔ خوشی کے ساتھ غم اور غم کے ساتھ خوشی باہم جڑے ہوئے ہیں۔
پیرصاحب سچے اور درویش صفات کے مالک تھے۔اُن کی طبیعت میں انتہائی درجہ کی عاجزی، انکساری اور درویشی تھی۔اللہ تعالیٰ نے ان کوبے شمار نعمتوں سے نوازا ہوا تھا۔ ان عظیم ہستیوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور رہتی دنیا تک اپنا نام چھوڑ گئے۔درویشی اور عظیم کارنامے بھولے سے نہیں بھلائے جاتے۔انہوں نے اپنے سیاسی زندگی میں مظلوم اور محکوم طبقے کا ترجمانی کرکے اور معاشرے میں ہونے والے ظلم ووجبر کیخلاف ہمیشہ آواز بلندکرتے تھے اور عوامی مسائل کو ہمیشہ اجاگر کرکے معاشرے میں ہمیشہ محبت پیار بانٹا ان کی ذات اعلیٰ اخلاق کی پیکر تھی گلگت بلتستان کے عوام کبھی فراموش نہ کر پائیں گے۔پیرصاحب ایک ہمدرد شفیق اور پیار کرنے والے عظیم الشان شخصیت تھے۔
پیرصاحب جب بھی ملاہے ہمیشہ شگفتہ، ہنس مکھ ا بہت زیادہ مقبولیت کے باوجود بھی وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے تھے ان کے مزاج میں کبھی کبھی ان کے سیاسی نظریات بھی شامل ہو جاتے تھے جن سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو جاتا تھا مگر وہ کبھی پسند و ناپسند کی پروا کیے بغیر اپنے نظریات کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگاتے تھے ہمیشہ خوش اخلاقی سے لوگوں کومناتے تھے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رْت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
پیرصاحب نے ایک مثالی زندگی گزاری ہے۔ ایک ایسی زندگی جو لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کاحق اداکیاہے۔ پیر سید کرم علی شاہ کا نام اور ان کی شخصیت سب سے منفرد ہے اور یہ انفرادیت محض ان کی علمی لیاقت یا صلاحیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ان کے اخلاق حسنہ اور ایک نیک انسان ہونے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے جہاں زندگی میں مقبولیت اور کامیابی کی نئی تاریخ لکھی وہیں اپنی نیکی، سادگی اور شرافت سے لوگوں کے دل جیتے۔ پیر سید کرم علی شاہ نے اپنی پوری زندگی قوم کے نام وقف کردی تھی اور دوسروں کی خوشیوں اور غم کو اپنا لیا تھا۔ انہوں نے بنی نوع انسان کی خدمت کو سب سے اہم مذہبی فریضہ کے سمجھا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
پیرسیدکرم علی شاہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں سے آزادی پاکر، دنیائے آب وگل کی مصیبتوں وپریشانی سے چھٹکارا حاصل کرکے بالآخر مسلسل سفر کرتے کرتے اپنے منزلِ مقصود کو جا پہنچے۔