Uncategorized

ہنزہ: ماضی ، حال اور مستقبل

تحریر:مولامددقیزل

وہ ہمارے بزرگ،دانشوار، اکابرین اور مدبرین ہی تھے جنہوں نے مشکل و نامساعد حالات کے باوجود  سیاسی، معاشی، اقتصادی، سماجی اور معاشرتی مسائل کا مقابلہ جرات مندی ،فہم و فراست، اور صبر و تحمل سے کیا، اور اس وقت کے معاشرے میں اپنے علم، مشاہدہ، تجربہ، صلاحیت،اور ہنر کو بروئے کار لا کر باقی لوگوں کی خدمت کی اور ہر مشکل وقت میں عقل و فہم کو بروئے کار لایا۔ باہم مشورہ کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈا اور یوں اپنی عقل و علم ،صلاحیت اور سوچ و فکر کا دائرہ پھیلاتے اور بڑھاتے رہے۔ یہ طرز فکر و عمل زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی تھی۔  پھر چاہے اس کا تعلق فکرِ معاش سے ہو،سیاسی میدان سے ہو، سماجی و معاشرتی مسائل سے، یا پھر انتظامی وعسکری  نظام وغیرہ سے، ہر کام میں بردباری، صبر و تحمل،قناعت، اور عقل و فہم کا مظاہرہ کیا۔اور ملی ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب رہے ۔

انکے رویوں میں نرمی اور خوش مزاج، اور سماجی برتاؤ میں انتہائی بردبارجبکہ  قومی و اجتماعی مسائل و وسائل کے حوالسے سے بلا کی سنجیدگی تھی۔ انکے انداز گفتگو میں طنز ومزاح ،اشاروں کنایوں میں سوال و جواب، تلخ ترین جملوں کوبرداشت کرنے کی قوت اور تحمل کے ساتھ جواب دینے کا فن تھا۔ اختلاف و مسائل کو سلجھانے کی ہمیشہ کوشش میں رہتے تھے۔اسی لئےتو مغربی مفکرین ومحققین اہل ہنزہ پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔

آج علم جدید سے بہرہ ور ہونے کے باوجود ہنزہ میں  ان رویوں اور سماجی برتاؤ کی کمی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ہر فرد میں انانیت رچی ہوئی ہے، اہل علم و دانش اپنی آنا کے غباروں میں ہوا بھر رہے ہیں۔ ماضی کے اکابرین و دانشوران ہنزہ کی زندگیاں دوسروں کو راحت و آرام مہیا کرنے میں گزرتی تھی، مگر آج کے اہلیان علم و دانش میں وہ خوبیاں نہیں دکھائی دیتی ہیں۔  اس وقت حکمران ایسے زیرک و ہوشیار و عقلمند افراد کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش کرتے تاکہ ہر معاملہ انکے مشورے سے طے پائے ۔ نہ صرف تاریخ ہنزہ بلکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس حکمران کے پاس دانشور و دانا افراد موجود ہوتے تھے ان کی حکومت بھی مستحکم رہتی تھی۔ اور جن کے پاس خود غرض اور نادان مشیر رہے وہ حکومتیں ہمیشہ تاراج ہوئیں۔ آج بھی اس مٹی کو ایسے اکابرین ودانشوروں کی ضرورت ہے جو داخلی وخارجی معاملات میں اپنے علم و فہم سےمسائل کو حل کرنے کی نہ صرف سعی کریں،  بلکہ رہنمائی بھی کرسکیں۔

ہنزہ جیسے ڈھلوانی و پہاڑی لق و دق خطے کو جنت نظیر بنانے میں ماضی کے اکابرین کا ہی کردار رہا ہے، جنہوں نے اپنی قوت ارادی اور محنت و مشقت سے نہ صرف کلک و منتکہ سے حسین آباد (مایون) تک، بلکہ گلگت و ذولفقار آباد  سے لے اوشیکھنداس،دنیور ،سلطان آباد ، نومل ، رحیم آباد حتی کہ غذر کے کچھ ویرانوں کو بھی گل و گلزار بنا دیا۔ سلام ہو انکی جرات، استقامت، صبر و تحمل، دواندیشی، اور فکر فردا کو جنکا بویا ہوا آج ہم کھا رہے ہیں۔

آج ہنزہ کے لوگ گلگت بلتستان ، پاکستان  کے تمام شہروں میں آباد ہیں یہاں تک یورپ امریکہ، چین اور برطانیہ میں بمع خاندان آباد ہیں،آج ہنزائی گلوبل شہری بن چکے ہیں، پہلے سے کئی گنا زیادہ مالی و علمی لحاظ سے مظبوط ہیں ، جہاں جاتے ہیں علمی و فنی میدان میں جھنڈے گاڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی قومی، اجتماعی  اور ملی یگانگت پہلے جیسے  نظر نہیں آتی ۔

آج جب آپ ہنزہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نگاہ اٹھاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جن کی موجودگی میں تاج برطانیہ کے سیاسی نمائندے خائف ہو جاتے تھے آج کے اس آگاہ و بیدار زمانے میں بھی اس طرح کے دانش ور،مدبر، جرات مند،بارعب ،اور سنجیدہ قسم کے افراد نظر نہیں آتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ہم انتشار کا شکار ہیں ۔آج ہر کوئی بولنے لگا ہے، معاشرے میں موجود دانشور،سنجیدہ اور فکر و فہم والے افراد کی کوئی قیمت نہیں رہی ہےاور نہ ہی ایسے افراد کی باتیں سنی جاتی ہیں، اب ہر کوئی خود کو دانا سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔

ایسا فطرت الہی کے خلاف بھی ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ ہر شخص دانا ہو، ہر  شخص دانشمند ہو، ہر شخص فلسفی ہو ، ہر شخص سیاست دان ہو، ہر شخص عالم ہو، ہر شخص عاقل ہو، ہر شخص ماہرمعاشیات ہو۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہر شخص ماہر لسانیات،تعلیم وطب ہو یا  انتظامی ، فلاحی، معاشی، سماجی و عسکری امور پردسترس ومہارت رکھتا ہو۔جب ہر شخص  ہر مسلے پر بغیرعلم و آگہی کے بولے گا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا، انتشار پھیلنا، اغیار کا غالب آنا، پہچان و شناخت کھونا، مایوسی پھیلنا، اور اخلاقی  بیماریوں کا معاشرے کو گھیرلینا، یعنی معاشرے کا بے ہنگم ہونا، کوئی ان ہونی بات تو نہیں۔

یہ زمین جس بیج کے لیے موزوں ہے اسی بیج کا بونا ہی عقل مندی ہے۔ فرنگی و عجمی نظریات اس آب و ہوا میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔ ہمیں پہلے خود، اپنا گھر ،محلہ اور علاقے کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کرنا  ہوگا۔ پھر دیار غیر کے معاملات میں اگر کوئی دستگیری مطلوب ہے تو کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔

موجودہ حالات ا ٓپ سب کے سامنے ہیں۔ ریاست کا رویہ انتہائی افسوس ناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ نوجوان مایوس ہیں کیونکہ ریاست کےپانچ   ستونون یعنی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج اور میڈیا  کا کردار حوصلہ افزا  نہیں۔ ترقی یافتہ ریاستوں میں جج کا کام انصاف کرنا، پارلیمنٹرین کا کام قانون بنانا، انتطامیہ کا ہدف قانون کا اطلاق کرنا، فوج کا نصب العین ملکی سرحدوں کی حفاظت اور میڈیا کا مقصد عوام میں مثبت رویوں اور شعور اجاگر کرنا ہے۔ جبکہ یہاں بدقسمتی سے  سب ایک  دوسرے کو تابع کرنے اور اپنا معاشی اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں۔ کوئی ادارہ بھی اپنی  متعین دائرہ کار میں نہیں ہے۔

گلگت بلستان  کے عوام عموما اور ہنزہ کے  خصوصاً ان اداروں کے رویوں سے اکتا گئے ہیں۔، جج کا انصاف بابا جان اور متاثرین عطاآباد  وغیرہ کی صورت میں آپکے سامنے ہیں، پارلمنٹ کا رویہ ہنزہ کو جی بی ایل اے میں آبادی کے لحاظ سے نمائندگی دینے کی بجائے سیاسی نمائندگی  سے محروم  رکھنا ، انتطامیہ کا رویہ آئے دن ایک کہانی کی صورت میں آپکے سامنے ہے۔  ہماری زمین چاہے وہ لب دریا پر ہو یا پہاڈ کی چوٹی پر، ہماری گرفت سے   نکلتی جارہی ہے۔

ایسے  میں عصر حاضر کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہم اپنے آباو اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئےملی یگانگت کا  مظاہر ہ کریں  اور ہمارے سیاسی ، سماجی اور سول سوسایٹی کے رہنما ان ریاستی اداروں کے ساتھ مظبوط، پر اعتماد  اور پرعزم روابط قائم کرے، تاکہ اس دھرتی کی قسمت مزید بدل جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہنزہ   میں ایک ایسا ڈھانچہ ،نظام یا سول سوسائٹی ادارہ قیام عمل میں لانے کی ضرورت  ہےجو ضلعی سطح پر اس علاقے کے تمام امور پر علاقائی ماہرین سے مشاورت کے بعد حل کرنے کیلئے حکومت وقت کی رہنمائی کرے۔ جس طرح ہمارے بزرگان واکابرین  نے  متوازن  نظام کو چلانے کے لئےایک مظبوط و مربوط انتطامی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا، جس میں اکابرین و دانشور،  عقل و فہم  اور مشورے سے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوتے تھے، ہمیں اسی ماڈل پر جانے کی ضرورت ہے۔ آج اگر ہر  ایرا غیرا بولے گا تو حالات کسی طور پر مفید نہیں ہونگے۔

آج کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیں انتہائی عقلمندی،ہوشیاری، عزم واستقلال ،ملی یگانگت اور فکرفردا  کے ساتھ آگےبڑھنے کی ضرورت ہے،خدا وند کریم نے ہمیں ان تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی کے سائنسی ایجادات ہم سے کوسوں دور ہیں مگر ان تک رسائی  کے لیے اگر ہم اپنے آباو اجداد کی طرح انتہائی محنت ومشقت کو ترک کئے بغیر جانفشانی، قناعت پسندی، دیانتداری اور امیدو یقین کے ساتھ  ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھینگے تو  آنے والی وقت میں کوئی بعید نہیں کہ ہمارے بچے بھی خلا میں قدم رکھنے کے قابل ہوجائیں۔ تسخیر کائنات میں اپنا حصہ ڈالیں۔ علم طب میں کوئی کارنامہ سر انجام دےکر نوبل پرائز حاصل کریں، یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور بائیو میڈیکل میں کوئی قابل تحسین کام کر جائے۔ یہ سب ممکنات میں ہیں۔ ہمیں پرامید رہتے ہوے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button