کالمز

نو مبر کے امریکی انتخا بات 

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ایک خبر آگئی تھی کہ امریکی صدر ڈو نلڈ ٹرمپ نے کورونا کی عالمی وباء کی وجہ سے نو مبر 2020ء میں ہونے والے امریکی انتخا بات کو ایک سال کے لئے ملتوی کر نے کی تجویز دی ہے پھر ایوان صدر کی طرف سے نئی خبر آئی کہ صدر نے اپنی تجویز کو واپس لے لیا ہے چنا نچہ انتخا بات مقررہ وقت پر ہونگے تا ہم انتخا بی سر گر میوں میں وہ تیزی نظر نہیں آرہی جو عمو ماً ماہ اگست میں نظر آ یا کر تی تھی اس کی وجہ بھی غا لباً عالمی وباء اور اس وباء سے بچنے کے لئے احتیا طی تدابیر پر عملدرآمد ہے ما ضی کے انتخا بات میں تبدیلی کا نعرہ کا م آتا تھا، اُسامہ بن لا دن کی طرف سے جا رہی ہونے والا آڈیو ٹیپ بھی کا م دیتا تھا اُسامہ بن لا دن کی گرفتاری اور القاعدہ کی شکست بھی کا م آتی تھی مو جودہ حا لا ت میں کوئی ایسا مقبول نعرہ بھی اب تک منظر عام پر نہیں آیا.

ری پبلکن پارٹی 2016ء میں جن وعدوں کو لیکر بر سر اقتدار آئی تھی ان میں سے کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا لے دے کے بر سراقتدار پارٹی کے پا س افغان امن عمل کا سندیسہ تھا وہ نا کامی سے دو چار ہوا ہے اگلے 3مہینوں میں کسی بڑی خبر کی کوئی اُمید نہیں ڈیمو کریٹک پار ٹی اس کے مقا بلے کئی معا ملا ت کو صدر ٹرمپ اور ان کی پارٹی کے خلاف استعمال کر سکتی ہے ان میں فلسطین کے اندر امریکی پا لیسی کی نا کامی بھی شامل ہے ری پبلکن پارٹی کا دعویٰ تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کو ختم کیا جائے گا اگست 2020سے پہلے یرو شلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ بنا یا جائے گا فلسطینیوں کی حما یت کرنے کے جرم میں شام اور ایران کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے گا اور سعودی عرب کی مدد سے فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لئے کچل دیا جائے گا۔

یہ تینوں خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوئےہیں۔ اس کے بر عکس مشرق وسطیٰ میں سعودی عر ب سمیت کئی امریکی اتحا دی خودمشکل میں پھنس گئے ہیں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت سے دو چار ہیں۔

امریکہ کی بر سر اقتدار جما عت اس وقت طوفانوں کی زد میں ہے اور بھنور میں گھری ہوئی ہے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا کا ریکارڈ اگر کھنگا لا جائے تو معلوم ہو گا کہ 2016ء کے انتخا بی نتا ئج آنے کے بعد روس پر الزام لگا یا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ کو کامیاب کر کے امریکہ کا گورباچوف ثا بت کرنے کے لئے رو سی خفیہ اداروں نے انتخا بی عمل میں مدا خلت کی اور ری پبلیکن پارٹی کے حق میں رائے عامہ بنا نے کے لئے خفیہ فنڈ کا بے دریغ استعمال کیا۔ اس الزام کی تحقیقات کے لئے کمیشن بھی بٹھا ئی گئی لیکن کمیشن کو آزاد انہ کام کا مو قع نہیں دیا گیا۔ اگر چہ روس نے اس الزام کی پر زور تر دید کی تا ہم اس تر دید کو میڈیا نے کوئی وقعت نہیں دی رائے عامہ کے جا ئزوں کے مطا بق اب تک صدر ٹرمپ کے مقا بلے میں ڈیمو کریٹ امید وار جو بائیڈن کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ ماضی قریب میں کئی امریکی صدور دوسری مدت کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور ہر ایک کے انتخا ب کی ٹھو س وجو ہات تھیں۔ امریکی رائے عامہ شخصیات کی جگہ نظر یات کو زیا دہ اہمیت دیتی ہے۔ بر سرا قتدار پارٹی کی عالمی پا لیسیوں کو دیکھتی ہے۔ اندرون ملک معا شی کامیابیوں کا جائزہ لیتی ہے اس کے بعد کسی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کی حمایت کر تی ہے۔ اس آئینے میں ریپبلکن پارٹی کا چہرہ دھند لا سا نظر آتا ہے۔

4سالہ اقتدار میں اس نے اپنے اہداف حا صل نہیں کئے جب 2000کا نیا ہزاریہ شروع ہوا تو امریکی دانشوروں نے رائے دہند گان کے سامنے دو بڑے اہداف رکھے تھے پہلا ہدف یہ تھا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ دوردراز ملکوں میں فو جی سر گر میوں پر خرچ نہیں کیا جائے گا۔ دوسرا ہدف یہ تھا کہ امریکہ اپنی معا شی با لا دستی کے ذریعے عالمی سطح پر تما م اقوام کی قیا دت اور سیا ست کا فریضہ انجام دے گا 2016ء کی انتخا بی مہم میں ری پبلکن پارٹی کے اُمیدوار ڈو نلڈ ٹر مپ نے دو نوں اہداف کے حصول پر زور دیا تھا انہوں نے سعو دی عرب، یمن، شام اور افغانستان کا نام لئے بغیر اعلان کیا تھا کہ امریکی فو جیوں کو 7ہزار کلو میٹر دور کسی ملک میں غیر مقبول حکومت کے تحفظ یا نئی قیا دت کو اقتدار سونپنے کے لئے نہیں بھیجا جائے گا جو فو جی اس وقت ملک سے با ہر ہیں ان کو واپس بلا یا جائے گا۔ انہوں نے دوسرے ہدف کے بارے میں دو ٹوک اعلا ن کیا تھا کہ عظیم امریکہ اپنے با نیوں کے وژن کے مطا بق جمہوریت کے فروغ کے لئے معا شی میدان میں نئی کا میابیوں کے ذریعے دنیا کے اقوام کی قیادت اور سیا ست کا فریضہ انجا م دیتا رہے گا مگر گذشتہ 4سالوں میں امریکہ عظیم ملک نہیں رہا ایران اور شام کے خلا ف اس کی پا لیسیاں نا کام ہوگئیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عراق اور افغا نستان سے اپنی فو جوں کو واپس بلا نے میں کامیا بی نہیں ہوئی معا شی محا ذ پر چین نے عالمی سطح پر اپنی کا میابیوں کے نئے جھنڈے گاڑ دیئے روس نے بھی ایشیا اور یو رپ کے اندر اپنی پو زیشن 1980سے پہلے کی طرح مستحکم کر لی۔

امریکہ کو ایک بارپھر انکل سام، استعمار اور سامراج کے طعنے دئیے جا نے لگے بھارت کے خلاف چین کی حا لیہ کامیابیاں امریکہ کے لئے درد سر بن گئی ہیں۔ ایران پر امریکی پا بندیوں کو چین نے جو تے کی نو ک پر رکھا۔ ان تمام معا ملات کا براہ راست اثر نو مبر 2020میں ہونے والے امریکی انتخا بات پر ضرور پڑے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button