گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 اور گلگت بلتستان آرڑر 2018 کا تقابلی جائزہ
تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ
حکومت پاکستان نے ستمبر 2009 میں گلگت بلتستان میں انتظامی، سیاسی، معاشی اور عدالتی اصلاحات کرنے کے لئے ایس آر او نمبر 786(1) 2009 کے تحت گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 نافذ کیا تھا۔
آرڑر 2009 کے آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ قابل ذکر ہے کہ برصغیر میں برٹش راج کے قیام کے دوران ناردرن ایریاز کا انتظامی کنٹرول برطانوی حکومت نے مہاراجہ جموں و کشمیر کو دے دیا تھا.
تقسیم ہند کے فوراً بعد اس علاقہ کا کنٹرول مہاراجہ کے ہاتھ سے نکل گیا اور یہ علاقہ حکومت پاکستان کے کنٹرول میں آگیا مگر اس علاقے کو آئین پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا چونکہ یہ علاقہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جاتا ہے.
یہ علاقہ نہ تو پاکستان کا صوبہ ہے نہ ہی پاکستان کے دارالخلافہ کے علاقہ میں شامل ہے البتہ یہ علاقہ پاکستان کی انتظامی کنٹرول میں ہے.
درحقیقت 28 اپریل 1949میں معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان نے اپنے زیر انتظام آزاد کشمیر حکومت سے ناردرن ایریاز کا انتظامی کنٹرول حاصل کیا ہے تب سے یہ علاقہ پاکستان کا de fecto حصہ کہلاتا ہے – سال 1949 سے 1972 تک یہاں ایف سی آر کا قانون نافذ کیا گیا اور پھر 1972 کے بعد اصلاحات کا آغاز لیگل فریم ورک کی صورت میں شروع ہوا.
بقول بلاول بھٹو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں شمالی علاقہ جات کی قانون ساز اسمبلی کو بااختیار بنانے کا وعدہ کیا تھا جسے صدر زرداری نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے پورا کیا اور گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورنیس آرڑر دیا اور جس کے نتیجے میں اس علاقے کو اپنی شناخت واپس ملی, واضح رہے 2009سے قبل گلگت بلتستان کو ناردرن ایریاز آف پاکستان کہا جاتا تھا –
دوسری طرف بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سال 2007 میں یورپین پارلیمنٹ نے کشمیر پر جاری رپورٹ میں گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کی عدم موجودگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا جس کے بعد یہ ارڑر جاری کیا گیا تھا-
بہرحال اہم بات یہ ہے کہ وہ کیا بنیادی وجہ تھی کہ آرڑر 2009 کی موجودگی میں مسلم لیگ کی حکومت کو سال 2018 میں ایک اور آرڈر نافذ کرنا پڑا ؟
کیا 2018 کا آرڈر 2009 کے آرڈر سے بہتر ہے؟
اور ان دونوں آرڈرز میں بنیادی فرق کیا ہے ؟
ان سوالات کے جواب تلاشنے کے لئے جب ہم گلگت بلتستان آرڈر 2009 اور گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان آرڈر 2009 کے نتیجے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا قیام اور انصاف کی فراہمی کے لئے سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کا قیام عمل میں لایا گیا. گورنر, چیف منسٹر, وزراء قانون ساز اسمبلی, چیف کورٹ, ایڈیٹر جنرل کے دفتر کا قیام عمل میں لایا گیا. اس آرڈر میں گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن کا قیام بھی شامل تھا لیکن تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے.
اس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کونسل کا چیئرمین وزیر اعظم پاکستان جبکہ وزیراعظم کے علاوہ چھ پاکستانی وزراء بھی کونسل کے ممبران تھے جن کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے.
سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق آرڑر 2009میں مندرجہ ذیل خامیاں موجود تھیں.
آرڑر 2009 کے تحت گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ حاصل نہیں تھا. چونکہ آئین پاکستان کے تحت پاکستان کے صرف چار صوبے ہیں.
گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی نہیں تھی اور آج بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے, نہ ہی وفاقی حکومت کے چناؤ اور پالیسی سازی میں شرکت کا حق حاصل ہے.
وفاقی اداروں جیسے کہ نیشنل اکنامک کونسل اور نیشنل فنانس کمیشن( این ایف سی) میں نمائندگی نہیں تھی اور آج بھی نمائندگی حاصل نہیں ہے.
گلگت بلتستان اسمبلی کی لیجسیٹیو لسٹ 61 سبجکٹس پر مشتمل تھی جبکہ جی بی کونسل کی لیجسیٹیو لسٹ 55 سبجکٹس پر مشتمل تھی.
جی بی کونسل پر فیڈرل منسٹرز کا کنٹرول تھا اور جی بی کونسل وفاقی حکومت کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پابند تھی.
اس طرح آڈیٹر جنرل اور چیف الیکشن کمشنر کو جی بی کونسل اور درحقیقت وزیر اعظم پاکستان منتخب کرتے تھے
اس کے علاوہ دیگر تمام تر اختیارات بھی وفاقی حکومت پاکستان کے پاس تھے جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے یہ تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہوتے ہیں.
سر تاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ میں درج مندرجہ بالا خامیوں کے علاوہ آرڈر 2009 میں اور بھی بہت ساری بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر سرتاج کمیٹی نے نہیں کیا ہے –
مثلاً گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڑر 2009 کا پارٹ دوئم جو کہ بنیادی حقوق کے متعلق ہے
جس میں مندرجہ ذیل اہم بنیادی حقوق سرے سے موجود نہیں تھے.
ارڑر 2009 میں Right to fair Trail کا حق موجود نہیں تھا جس کے بغیر دنیا کےکسی بھی معاشرے میں عدل اور انصاف کو یقینی بنانا ناممکن ہے –
اس کے علاوہ اس ارڑر میں زبان ,کلچر, اور رسم الخط کو تحفظ دینے کا حق شامل نہیں تھا.
تعلیم کا حق بھی نہیں تھا اس کے علاوہ
Right to information, invioabality of Dignity of man, Protection against double punishment and self incrimination
کا حق شامل نہیں تھا.
آرڈر 2009 میں گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا جو طریقہ کار طے کیا گیا تھا وہ طریقہ کار پاکستان اور آزاد کشمیر سے بالکل مختلف تھا سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے ججزز کا تقرر گورنر کی سفارش پر وزیر اعظم پاکستان کرتے ہیں جس کی وجہ سے آزاد عدلیہ کے تصور کو بہت نقصان اور بااثر شخصیات کوبہت فائدہ ہوا. نتیجتاً گلگت بلتستان کے بہت سارے عوامی نمائندوں نے گلگت بلتستان اسمبلی کی ممبری چھوڑ کر خود کو جج لگوا لیا – اس لئے ان تمام خامیوں کی وجہ سے عام طور پر گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڑر 2009 کو ڈس امپاورمنٹ آرڑر بھی کہا جاتا ہے –
دوسری طرف گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں مندرجہ بالا بنیادی حقوق تو شامل کئے گئے ہیں مگر ساتھ میں عدلیہ کی آزادی پر قدغن بھی لگایا گیا اور تمام تر اختیارات گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کے بجائے وزیر اعظم کے حوالے کردئے گئے. منتخب نمائندوں کو اس آرڈر میں ترمیم کرنے کا بھی اختیار نہیں نہ ہی اس آرڈر کو گلگت بلتستان کی کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے –
مثلاً حکومت پاکستان کی جانب سے مورخہ 6 جون 2018 کو ایس آر او نمبر 704(1) کے تحت نافذ کیا گیا گلگت بلتستان ارڑر 2018 کے آرٹیکل 118(2)میں بہت واضح طور پر لکھا گیا ہے
No Court including the Gilgit Baltistan Supreme Appellate Court, shall call into question or permit to be call into question, the validity of this order.
اس کے ساتھ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آرڈر 2009 کی طرح اس آڑرد کے تحت بھی تمام تر اختیارات وزیر اعظم پاکستان کو حاصل ہیں جبکہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کے منتخب عوامی نمائندوں کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس آرڈر میں ترمیم کرسکیں.
جس طرح برصغیر میں برٹش راج کے دور میں بھی پندرہ اراکین پر مشتمل ایک کونسل ہوا کرتی تھی جس کے آدھے ممبران برطانوی ہوا کرتے تھے اور وہاں کے مقامی ممبران کو بھی برصغیر میں نافذ تاج برطانیہ نوآبادیاتی قوانین میں ترمیم کا اختیار نہیں تھا-
مثال کے طور تاج برطانیہ نے برصغیر میں سیاسی معاشی، انتظامی اور قانونی معاملات چلانے کے لئے برٹش انڈیا ایکٹ 1858 کے ذریعے حکومتی سطح پر تین طرح کی تبدیلیاں انڈیا میں متعارف کروائیں۔
1۔ لندن سے ایک کیبنٹ لیول کے سکریٹری کو بطور سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا مقرر کیا گیا۔
2۔ پندرہ ممبران پر مشتمل ایک ”کونسل فار انڈیا“ بنائی گئی، جس کا کام سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کی مدر کرنا تھا۔
3۔ انڈیامیں حکومت کرنے کا اختیار ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کو منتقل ہوا-
آرڑر 2009میں جی بی کونسل کی لیجسیٹیو لسٹ 55 سبجیکٹ پر مشتمل تھی جبکہ آرڈر 2018 میں یہ تعداد بڑھا کر 68 کر دی گئی ہے. یعنی تمام اہم معاملات پر قانون سازی کا اختیار عوامی نمائندوں کے بجائے کونسل کے چئیرمین یعنی وزیراعظم کے پاس ہے –
مثلا ارڑر 2018آرٹیکل 60( 2) A میں لکھا گیا ہے کہ
"The Prime Minister shall have exclusive power to make laws with respect to any matter in the legislative List set out in The Third Schedule, hereinafter referred as the Legislative List.”
آرڑر 2018 کے شیڈول چار کے تحت گریڈ 17سے 21 تک کی تمام ملازمتوں میں پاکستان کے شہریوں کے لئے کوٹہ مقرر کیا گیا ہے جسے حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان کے پوزیشن / ویکنسی شیرنگ فارمولا کہا جاتا ہے.
اس طرح پاکستان کے شہریوں کے لئے 17گریڈ میں 18 فیصد جبکہ 18گریڈ میں 30فیصد اور 19 گریڈ میں 40 فیصد جبکہ گریڈ 21میں 60 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا ہے .
اس آرڑر کے آرٹیکل 64 کے تحت حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں واقع کوئی بھی زمین حاصل کرسکتی ہے اور جو اراضی حکومت گلگت بلتستان کی ہو وہ ایسی اراضیات حکومت پاکستان کو منتقل کرسکتی ہے.
آرڑر 2018 کی سب سے نمایاں خصوصیت ارٹیکل 2(b)ہے جس میں شہری کی تعریف بیان کی گئی ہے اس تعریف کے مطابق گلگت بلتستان کی شہریت کے
دروازے غیر مقامی افراد کے لئے کھول دیئے گئے ہیں جبکہ آرڑر 2009 میں ایسا نہیں تھا.
تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون گلگت بلتستان کے عوام سے زیادہ حکومت پاکستان کے مفادات کے تحفظ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ آرڈر آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74سے کمال ہوشیاری سے نقل کیا گیا ہے کیونکہ گلگت بلتستان آرڑر 2018 میں کشمیر کے آئین کے وہ تمام آرٹیکلز شامل نہیں کیے گئے ہیں جو آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہیں.
یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ گلگت بلتستان کے قوم پرست رہنما نواز خان ناجی نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے سامنےگلگت بلتستان آرڈر 2018 کو پھاڑ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور گلگت بلتستان کی عوام نے یکجا ہوکر "آرڑر پر ارڑر نامنظور "کا نعرہ لگا کر ارڑر 2018کو مسترد کر دیا.
واضح رہے کہ جب گلگت بلتستان کے عوام نے جی بی آرڈر 2018 پر مزاحمت کرتے ہوئے مسترد کردیا تو حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019 نامی نیا آرڑر جاری کرنے کا اعلان کیا جس کو سپریم کورٹ نے اپنی 17/1/2019 کے فیصلہ کا حصہ بنایا اور وفاقی حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ وہ چودہ دنوں کے اندر اسے گلگت بلتستان میں نافذ کرے مگر آرڑر 2019کو گلگت بلتستان میں نافذ کرنے سے قبل ہی وفاقی حکومت نے ایک دیوانی متفرق درخواست نمبر 4478/2019 کے ذریعے سپریم کورٹ سے اس نئے آرڈر میں ترمیم کی اجازت طلب کی ہے. اس زیر سماعت درخواست کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے.
جبکہ گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019 کے آرٹیکل 127 کے تحت گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو منسوخ قرار دیا گیا ہے۔
مثلاً ارٹیکل 127(1) میں لکھا گیا ہے کہ
"The government of Gilgit Baltistan Order 2018, hereinafter in this Article referred to as,,The Repeal Order’ together with the orders amending it,is hereby repealed.”
مگر اس کے باوجود تاحال گلگت بلتستان میں آرڈر 2018 ہی نافذ العمل ہے-مندرجہ بالا تقابلی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آرڑر 2009اور آرڈر 2018دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں.
جبکہ آرڑر 2019 میں ترمیم کے لئے وفاقی حکومت کی درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے لہذا ارڑر 2019 پر راۓ دینا قبل از وقت ہے.
اس لئے قارئین کے لئے اگلے آرٹیکل میں گلگت بلتستان ارڑر 2018کا آزاد کشمیر ایکٹ 1974سے تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا تاکہ یہ بات واصخ ہو سکے کہ آرڈر اور آئین میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اور کس نظام کے تحت گلگت بلتستان کی ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ ممکن ہے.