عورت، پردہ، معاشرہ اور سیاست
تحریر:نازگل
(پریذیڈنٹ دیامر استور ویمن ونگ؛لیگل ایڈوائزر پین فاؤنڈیشن)
میں یہاں پر صرف ان خواتین کی بات کرونگی جو پردہ کرنے کے ساتھ تعلیم یافتہ بھی ھیں لیکن ان کا تعلق ایسے معاشرے اور ایسے علاقے سے ھے جو پردے کو خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں اور اسی کا پرچار کر کر کے یا تو بچیوں کو سرے سے تعلیم ھی نھیں دی جاتی یا پھر تعلیم دے کر اس کی خود اعتمادی کو یہ کھ کر کچل دیا جاتا ھے کھ تم پردہ کرتی ہو اور یہ معاشرہ پردے داری کو عورت کی معذوری سمجھتا ہے۔اور سیاست میں آ نے کاتو سوال ھی پیدا نہیں ہوتا ایسے معاشرے اور علاقے میں پردہ دار عورت کا سیاست میں آ نا گالی سے کم نھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے علاقوں میں خواتین کی نمائندگی صرف اور صرف وہ خاتون کرے گی جو پردہ نھیں کرتی۔وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن کیا وہ ان پردہ دار خواتین اور ان کے والدین کے اندر ان کے کلچر اور دین کے حساب سے خود اعتمادی پیدا کرنے جا رھی ھیں یا پھر اپنے علاقے کی وھ خاتون نمائندگی کرے جو پردہ بھی کرتی ھو اور اعلی تعلیم یافتہ بھی ھو،جو پردے کے حامی والدین کو بچیوں کی سیاست میں آ نے کا حوصلہ دے جو ملکی اور غیر ملکی دونوں سطح پر اپنے علاقے کی با پردہ تعلیم یافتہ عورت کی نمائندگی کرےاود مغرب کو بھی بتاے کہ تیسری دنیا کی اعلی تعلیم یافتہ عورت پردہ اورسیاست دونوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ھے۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ مغربی دنیا پردہ کرنے والی خاتون کو ایک اپاہج عورت کہتی ہے اور مختلف ذرائع سے یہ باور کراتی رہتی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ خواتین جو پردہ کرتی ھیں وہ اپنے علاقے کی نمائندگی کبھی نھیں کر سکتی،سیاست سے ان کا کوی لین دین نہیں کیونکہ ظاہر ھے اس طرح سے دنیا میں پردہ اور تعلیم کا پرچار ہونا ھے جو انہیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔وہ اپنے ملکوں میں اسلام کا پھیلاؤ روکنا چاھتے ھیں اس کے لیے انھوں نے عورت کے پردے کو اعلی کار بنایا ہوا ھے۔ ان کی اسی بات کو حال ہی میں افغان طالبان نے رد کرنے کی کوشش کی ھے انھوں نے برملا کھا ھے کہ اب جب افغانستان میں امن قائم ھو گا اور ان کی حکومت آ ے گی تو وہ ایک با پردہ عورت کو اعلیٰ تعلیم دے گی تاکہ وہ نہ صرف ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے بلکہ مغرب کو بھی بتاے کھ پردہ، تعلیم اور سیاست سب ساتھ ترقی کر سکتے ھیں۔