کالمز
گلگت بلتستان کے انتخابات اور سیاسی جماعتوں پر ایک نظر
شاہ عالم علیمی
جیسا کہ میں نے پچھلے سال کہا تھا پاکستان تحریک انصاف کی گلگت بلتستان میں تنظیم سازی منظم نہیں ہے۔ اور یہ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بکھر جائیگی اور امجد حسین نے اپنی پارٹی کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی یہ اہم خصوصیت ہے کہ وہ ہر حال میں انٹیکٹ رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندر پارٹی کارکنوں کی عزت اور ان کا خیال رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پارٹی کے ہزاروں کارکن کسمپرسی کی زندگی گزار کر بھی پارٹی کے ساتھ تاحیات وفادار رہے ہیں اور سینکڑوں نے جان کی قربانی بھی دی ہیں۔ اور اس پارٹی کو ادب کے اندر زندہ رکھنے میں بھی اس کے اہل قلم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ فخر اس پارٹی کی تقریباً ہم پلہ مسلم لیگ کو حاصل نہیں ہے۔ اس کی وجہ لیگ کے اندر پارٹی کارکنوں کا خیال نہ رکھنا اور وقت انے پر ان کو سائیڈ کرنا ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف پاپولزم کی ڈگر پر چل نکلی۔ عمران خان نے دو عشرے سے زیادہ محنت کی مگر بدقسمتی سے جب وقت قریب ایا تو صبر سے کام نہ لے سکے۔ دریا کے موجوں میں بہہ گئے۔ دوسری طرف دنیا میں امریکہ سے لیکر برازیل فلپائن سے لیکر بھارت تک پاپولسٹ لوگوں کا راج ہے۔ زرا سوچئیے اگر عمران خان کچھ سال اور انتظار کرتے تو پاکستان میں عوام سے لیکر فوج تک کسی کے پاس کوئی اور اپشن نہیں تھا۔ سب لیگیوں اور پی پی سے تنگ اچکے ہوتے اور پی ٹی ائی خود بخود برسر اقتدار اتی۔
اج پاکستان کی بدقسمتی یہ نہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اور مسائل کے حل کا کوئی حکمت عملی نہیں ہے بلکہ اصل بدقسمتی کسی متبادل دوسری سیاسی جماعت کا نہ ہونا ہے. یوں تو کہنے کو تین سو کے قریب سیاسی جماعتیں ہیں مگر سب کے سب فکری ارتقا سے خالی ہیں۔
اس تناظر میں سوچے تو مستقبل بہت خراب نظر اتا ہے۔ اج تین بڑی جماعتیں سب کے سب جاکر جنرلوں سے سیاسی ریلیف مانگنے لگی ہیں۔ ایسی جماعتوں پر اعتبار ہو تو کیوں کر ہو۔
اتے ہیں گلگت بلتستان میں تازہ صورتحال کی طرف؛ سابق وزیراعلیٰ اور لیگ کی کشتی کے کیپٹن حافظ حفیظ الرحمان نے نواز شریف سے شکایت کی ہے کہ ان کی پارٹی کے بڑے بڑے پرندے اڑ کر دوسری جماعتوں کی طرف گئے ہیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا اس میں کونسی حیرت کی بات ہے۔ صرف ایک مثال یہاں پیش کرتے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں لیگ کے اہم اور پرجوش سنئیر کارکن مرحوم سلطان مدد ہار گئے۔ بس یہی ان کا قصور تھا۔ ہر مشکل میں ساتھ نبھانے والے اس کارکن کو پھر ایسے اکیلا چھوڑا گیا کہ مرحوم دل برداشتہ ہو کر اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ کسی نے ان کو پوچھا بھی نہیں جبکہ دوسری طرف ایسے شخص کو گورنر بنایا گیا جو مسلم لیگ کے خلاف تھا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انتخابات سے چند دن قبل سلطان مدد نے نواز شریف سے ملاقات کرکے دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف نے ان کے کہنے پر غذر کو دو ضلعے بنانے کا حکم دیا ہے۔ یہ خبر لیڈ سٹوری کے طور پر اگلے دن اخباروں میں شائع ہوئی۔ پھر لیگی حکومت کے دوران غذر کے اضلاع بنانا تو دور کی بات جس طرح غذر کے ساتھ سلوک کیا گیا وہ بڑا افسوسناک ہے۔ اس قسم کے رویے سے لوگ اس پارٹی کو سپورٹ کیونکر کریں گے!
دوسری طرف پی ٹی ائی نے حسب توقع پارٹی کارکنوں کو انسوں میں نہلا کر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے دیا ہے جن کا اس پارٹی سے کل تک کوئی تعلق نہ تھا۔ جن کو میں گینگ اف فائیو کہتا ایا ہوں اس گینگ کا ایک ممبر تو کمال ہی کردیا۔ ہہلے ٹیکٹ لے لیا پھر اگلے دن پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ یقیناََ کھلاڑی بڑے کمال کا ہے۔ اسی کارٹل کا ممبر ہی تو تھا جس نے نون لیگ سے تعلق نہ ہونے کے باوجود سب سے اہم عہدے کو عالمی اثرورسوخ سے حاصل کیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف پی ٹی ائی کے سینکڑوں کارکنوں نے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے اور بہت سو نے ازاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی ائی نے ڈاکٹر زمان نعمت شاہ اور عطاءالرحمن کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی ہے باجود اس کے کہ ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا تھا ان کو نظر انداز کردیا گیا۔
جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے اس کی تنظیم سازی تو اچھی ہے مگر تین وجوہات سے یہ پارٹی عوام میں اعتبار کھو چکی ہے؛ اول ان کے کھوکھلے نعرے اور گکگت بلتستانیوں پر بار بار بے جا احسان جتانے سے، دوم پچھلی حکومت میں اس کے وزراء نے جس طرح کھلے عام کرپشن کرتے رہے اس کی وجہ سے اور سوم اسٹبلشمنٹ کو فی الحال اس پارٹی میں دلچسپی نہیں ہے۔ لہذا اس کی انتخابات میں کارکردگی متوسط ہی رہے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل کریگی؟ میرا خیال ہے اگر بیرونی مداخلت نہیں ہوئی تو ان میں کوئی بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں گی۔ زیادہ تر ازاد امیدوار ہی جیت جائیں گے۔ البتہ اگر غائبی ہاتھ اپنا کمال دکھایا تو اپ اچھی طرح جانتے ہیں کون جیت جائیں گے اور کون ہار جائیں گے۔