کالمز

جنگ آزادی گلگت بلتستان میں برٹش ایجنٹ ولیم براؤن کا کردار

تحریر. اشفاق احمد ایڈوکیٹ

گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی واقع ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ واقع ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی زیر کنٹرول جموں اینڈ کشمیر، اور جنوب میں پاکستانی زیر کنٹرول آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہے۔
کوہ ہمالیہ , ہندوکش اور قراقرم کے دامن میں واقع یہ پہاڈی علاقہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی بلکہ جیو اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے.
تاریخی طور پر یہ خطہ عالمی طاقتوں کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے.John Keay اپنی مشہور کتاب "دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت ریجن کی اہم اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لائیں جہاں انڈیا ،چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور اس خطے کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ اسے ریڑھ کی ہڈی،
محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چائنہ کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے“.
اس اہم جیو اسڑٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی یہ خطہ بیرونی تسلط اور جارحیت کا شکار رہا ہے تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے 1840 کے بعد سے یہ علاقہ سکھ, ڈوگرہ اور تاج برطانیہ کے زیر تسلط رہا .
بقول Martin Sokefeld یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1840 کے وسط کے بعد کئی دہائیوں تک کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت میں اپنا کنٹرول قایم کرنے کے لئے مقامی حریف حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی خاص طور پر یاسین ویلی کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی.
گلگت کے لوگ اس طاقت کی رشی کشی کی وجہ سے بے انتہا نقصان اٹھا چکے ہیں. جنگ اور غلامی نے ان کی آبادی ختم کردی ہے”.
راجہ گوہر امان کے دور سے ہی اس خطے کے عوام نے اپنی قومی بقاء اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی اور یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان سے تاج برطانیہ اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا۔
جنگ آزادی گلگت بلتستان میں گلگت سکوٹس کے انگریز کمانڈنٹ میجر براؤن کو ایک مکتبہ فکر نے ہیرو کا درجہ دیا جبکہ دوسرا متکبہ فکر کا کہنا
اگرچہ تاریخ میں فرد کا رول اہم ہوتا ہے مگر انقلاب گلگت میں مقامی ہیروز اور عوام کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے.
لہذا یہ بات درست ہے کہ انگریز ایجنٹ ولیم براؤن
جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم مگر متنازعہ کردار رہا ہے جس کی وفات کے چودہ سالوں بعد اس کی یادداشت "گلگت ریبیلین” Gilgit Rebellion (بغاوت گلگت) کے نام سے انگریزی زبان میں شائع کروائی گئی اور ہمارے سرکاری دانشوروں نے اس کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان یکم نومبر 1947 کے بارے میں سرکاری بیانیہ ترتیب دینے میں بنیادی کردار ادا کیا.
جس طرح ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ کو انگریزوں نے غدر یا بغاوت کا نام دیا تھا چونکہ ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی اور ان کے جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنچ کیا تھا اس لئےتقریبا تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت کا نام دیا.جبکہ دوسری طرف ہندوستان کےمقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا حالانکہ اس جنگ میں مسلمانوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بری طرح شکست دیکر بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور جنگ کے بعد اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کردیا.
1857 میں انڈیا میں تعینات انگریز سیکریٹری اف سٹیٹ فار انڈیا Earl Stanley نے برطانوی پارلیمنٹ کو اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوۓ اسے بغاوت کا نام دیا پھر اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا.
بلکل اسی طرح بغاوت گلگت نامی کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو کچھ لوگ بغاوت گلگت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں جوکہ خلاف حقیقت اور ایک نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہونے کی وجہ سے قابل چیلنج ہے.
چونکہ ہندوستانیوں کو انگریز کے خلاف 1857کی جدوجہد میں شکست ہوئی تھی مگر اس کے برعکس جنگ آزادی گلگت بلتستان میں ڈوگرہ افواج کو شکست ہوئی اور اس خطے سے ان کی اقتدار کا خاتمہ ہوا.
جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اس خطہ کے مقامی لوگ گلگت سکاؤٹس کے فوجیوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوۓ اور گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا اس لئے گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کو بغاوت کا نام دینا نوآبادیاتی سوچ اور پالیسی کا تسلسل ہے.
حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل ہی 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ نے مشروط بنیادوں پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ کیا تھا جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان یکم نومبر 1947 کو اس وقت کیا گیا جب ڈوگرہ گورنر کو بمقام گلگت گرفتار کرکے دارلخلافہ کو آزاد کروایا گیا .
اس کا مطلب یہ ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ دستاویز الحاق نامے پر انقلاب گلگت بلتستان سے پہلے دستخط کیے تھے جب کہ گلگت بلتستان کے عوام نے گلگت سکاؤٹس کے ساتھ مل کر آزادی بعد میں یکم نومبر 1947 کو حاصل کی ہے .
دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قومی جنگ آزادی میں جب دارالخلافہ سے بیرونی تسلط کا خاتمہ ہوتا ہےتو قومی آزادی کا اعلان کیا جاتا ہے.
بالکل اسی طرح یکم نومبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی افواج کے برگیڈیر گھنسارا سنگھ جو اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر تھے کو گلگت میں گرفتار کرنے کے بعد ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان کیا گیا اور پھر اس خطے کےدیگر علاقوں کو آزاد کرایا گیا مثلاً انقلاب گلگت کے نتیجے میں ہی بلتستان کو 1948 میں آزاد کرایا گیا. اس کا یہ مطلب ہے کہ یکم نومبر کو آزادی گلگت بلتستان کے اعلان کا اطلاق صرف گلگت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق پورے گلگت بلتستان پر ہوتا تھا جہاں ڈوگرہ حکومت کا قبضہ برقرار تھا .
لہذا جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت کہنا نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ہے اور اس بیانیہ کا واحد مقصد گلگت بلتستان کی آزادی کو متنازعہ بنانا اور تاریخ کو مسخ کرنا ہے تاکہ یہاں کے مقامی لوگ بین الاقوامی مروجہ قوانین کے تحت دنیا کے دیگر آزاد اقوام کی طرح اپنے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے مطالبے سے دستبرار ہوجائیں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ میجر بروان کی وفات کے 14 سالوں بعد شائع کی گئی کتاب کا نام بھی بغاوت گلگت رکھا گیا اور گذشتہ چند سالوں سے کچھ نام نہاد لکھاری ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگ آزادی گلگت بلتستان کو میجر براؤن کی اس کتاب کو بنیاد بنا کر بغاوت گلگت اور اپریشن دتہ خیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ گلگت بلتستان میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ” بغاوت گلگت” کوئی مستند تاریخی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو برٹش ایجنٹ تھا اور درحقیت یہ کتاب ولیم براؤن کی اصلی ڈائری پر بھی مشتمل نہیں ہے نہ ہی اسے انہوں نے اپنی زندگی میں شائع کروایا تھا تو پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس کتاب کا نام بغاوت گلگت رکھا؟ اور اس کتاب کی تدوین کی اور میجر براؤن کو انقلاب گلگت کے ہیرو اور اپریشن دتہ خیل کے موجد کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا؟ حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اہم کردار گلگت سکاؤٹس کے مقامی فوجی جوانوں اور عوام نے ادا کیا تھا جنہوں نے اپنےوطن کو بیرونی تسلط اور ڈوگرہ افواج کی غیر قانونی قبضہ سے آزاد کروایا تھا جبکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں میجر براؤن کا کردار مشکوک رہا ہے. چونکہ وہ ایک غیر مقامی نوابادیاتی ایجنٹ تھے جس کی بنیادی ڈیوٹی اس علاقے کے عوام کو غلام بناۓ رکھنا تھا نہ کہ ان کو آزادی دلانا. اس لئے ان اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ جاننا لازمی ہے کہ اس شخص کا گلگت ایجنسی میں بنیادی رول کیا تھا؟
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سال1941 کو ولیم بروان نے برٹش انڈیا میں فرننٹیر فورس رجمنٹ میں بحثیت سکینڈ لفٹیننٹ کمیشن حاصل کیا اور اسے افغان بارڈر کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں ٹرانسفر کیا گیا.
1943 کے ابتدائی ایام میں اسے گلگت ایجنسی ٹرانسفر کیا گیا جہاں انہوں نے بحثیت اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجینٹ براۓ چلاس تین سال تک ملازمت کی اور وہاں ایک پولوگروانڈ بھی تعمیر کروایا کہا جاتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کا قومی کھیل پولو بہت شوق سے کھیلتا تھا اور شینا زبان بھی سیکھ لیا تھا.
پھر 1946 میں اسے Tochi Scouts شمالی وزیرستان ٹرانسفر کیا گیا پھر کچھ عرصے بعد اسے بحثیت اسسٹنٹ کمانڈنٹ سکاؤٹس کے طور پر چترال ٹرانسفر کیا گیا.
مختصر وقت چترال میں گزارنے کے بعد اسے کمانڈنٹ آف گلگت سکاؤٹس کا عہدہ آفر کیا گیا جو انہوں نے قبول کیا اور اس کو ایکٹنگ رینک آف میجر کا عہدہ دیا گیا اسطرح میجر براؤن 29 جولائی 1947 کو گلگت پہنچا , یہ گلگت کی تاریخ کا ایک اہم موڈ تھا جب گلگت لیز ایگریمنٹ 1935 کو تاج برطانیہ نے ختم کیا اور یکم اگست 1947 کو گلگت ایجنسی مہاراجا ہری سنگھ کو واپس کردیا گلگت ایجنسی سے تاج برطانیہ کا جھنڈا اتارا گیا اور مہاراجا کی ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا حالانکہ لیز ایگریمنٹ کے مطابق اس کے 49 سال باقی تھے.
اس طرح گلگت ایجنسی میں تعینات آخری برٹش پولیٹکل ایجینٹ کرنل بیکن واپس چلا گیا اور اس کی جگہ مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم پر ریاست جموں و کشمیر کے نمایندے کے طور پر بیرگیڈیر گھنسارا سنگھ نے بطور گورنر گلگت بلتستان چارج سنبھال لیا.
اگست 1947 سے لیکر جنوری 1948 تک جو واقعات گلگت میں رونما ہوۓ اس کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا لیکن جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق میجر براؤن کا کردار متنازعہ رہا ہے.
ایک مکتبہ فکر نے اسے ایک سازشی اور غدار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سرکاری سطح پر ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور اس عمل میں میجر براؤن کی بیوہ مارگریٹ نے کلیدی کردار ادا کیا .
جس وقت انقلاب گلگت رونما ہورہا تھا اس وقت ولیم براؤن کی عمر صرف 24 سال تھی انہوں نے اپنا پچسواں جنم دن گلگت میں منایا تھا اور انقلاب گلگت کے وقت وہ گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے , انقلاب گلگت کے بعد گلگت سے واپسی پر جولائی 1948 کو ولیم براؤن کو فرنٹیر کانسٹبلیری ملازمت دی گئی جو صوبہ سرحد میں نارتھ وزیرستان پولیس فورس کہلاتی تھی اور اگلے دو سالوں تک اس نے وہاں مختلف عہدوں پر کام کیا.
فرنٹیر کانسٹبلری چھوڑنے کے بعد ولیم بروان نے کامرس کے شعبے میں عہدہ حاصل کیا اور اسی دوران 1957 میں ولیم براؤن کی ملاقات Margaret Rosemary Cookslay سے ہوئی تھی جو اس وقت کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر تھی اور 1958 میں انہوں نے شادی کی اور اسی دوران ولیم بروان کو ہمالین سوسائٹی میں حکومت پاکستان کا سیکریڑی بنایا گیا .

1959 میں براؤن اور اس کی فیملی واپس برطانیہ چلی گئی اور 1960 میں اس نے اپنے گاؤں میں ایک Livery Yard کھول دیا اور Ridding yard سکول بھی کھول دیا اور وہاں اگلے 24 سالوں تک اسے گھوڈوں کے استاد کے طور پر پہچانا جاتا تھا.
1948 سے لیکر 1958 تک ولیم بروان پاکستان میں مختلف نوکریاں حاصل کرتا رہا اور پھر 1959 میں برطانیہ واپس جانے سے لیکر اپنی وفات تک اس نے گلگت کے بارے میں کوئی کتاب شائع نہیں کروائی بلکہ اس کی وفات کے چودہ سال بعد تک بھی جنگ ازادی گلگت بلتستان کے بارے میں اس کا کردار دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا پھر اس کی بیوی مارگریٹ نے اس کے کردار کو دنیا کے سامنے لایا جو 1957 کے اولین ایام میں کراچی میں برطانیہ کی ہائی کمشنر تھی.
یہ بات بہت مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے.
اگرچہ میں سب مردوں کے بارے میں یہ بات وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن یقین کامل کے ساتھ یہ مانتا ہوں کہ برطانیہ کےایک چھوٹے سے گاوں میں گھوڑوں کے استاد کے طور پر پہچانے جانے والے ولیم براؤن کے کردار کو اس کی بیوہ مارگریٹ جوکہ ایک ریٹایڑ سفارت کار تھی نے کمال ہوشیاری سے مل ملاپ کر کے ازسر نو ایک نئے بیانیہ کے ساتھ بلند کر کے دنیا کے سامنے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک اہم ہیرو کے طور پر پیش کیا اور بدلے میں حکومت پاکستان نے گلگت سکاؤٹس کے سابق انگریز کمانڈنٹ ولیم براؤن کو ستارہ پاکستان سے نوازا.
کرنل حسن خان اپنی کتاب ” شمشیر سے زنجیر تک ” میں لکھتے ہیں ,, کہ یکم نومبر 1947کو گلگت میں راقم نے جب افیسر میس میں اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالا تو وہاں میجر براؤن بھی تھا. شاہی گراؤنڈ کے جھمیلے سے نکل کر سکاوٹ لائین میں آۓ تو کرنل کمانڈنگ کے بنگلے میں سب افسر اور گلگت کے معززین جمع تھے انہیں جیسے چپ کے سے دعوت دے کر بلایا گیا تھا. یہی حال پریڈ گروانڈ کا بھی تھا جو کہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. مجھے کہا گیا کہ مجلس مشاورت یا انقلابی کنونشن کی ہنگامی میٹنگ تھی جو عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے بلائی گئی تھی. کمرے میں داخل ہوا تو جملہ حاصْرین کے درمیان دونوں انگریز افسر یعنی میجر براؤن اور متھیسن بھی مدعو تھے. میرے رفیق اس کارخیر میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے اور اپنے مہرے آگے لانا چاہتے تھے. انگریز اس میٹنگ میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور باقی ان کے ہاں میں ہاں ملاۓ جا رہے تھے.
راقم حسب سابق انقلاب کے سربراہ یا مارشل لا ایڈمنسڑیڑ مقرر ہوۓ. تعجب ہے کہ خود اپنے کاندھوں پر یہ بوجھ ڈالتے وقت کسی نے مجھے سے تعرصْ نہیں کیا. اس مجلس مشاورت کا دل رکھنا میرا فرصْ ہو گیا تھا اس لئے میٹنگ کی برخاستگی کے فوراً بعد انگریزوں کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور انہیں سکاوٹ سرداروں سے گرفتار کروادیا جو انہیں ساتھ لئے آۓ تھے اور میرے مشیر مقرر کروارہے تھے.
میجر بروان کے بارے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلی امان اللہ خان مرحوم
اپنی کتاب” جہد مسلسل "کے صفحہ نمبر 286 میں لکھتے ہیں کہ ,, میرے قیام برطانیہ کے اواخر میں اپنے ایک عزیز حشمت اللہ خان جس سے گلگت کے تاریخی واقعات لکھنے کا شوق ہے کے کہنے پر میجر براؤن سے گلگت کے انقلاب 1947 سے متعلق دستاویزات مانگنے کے لیے فون کیا تو میجر براؤن نے کچھ تذبذب کے بعد مطلوبہ دستاویزات دینے کی حامی بھری. مگر ان دنوں مجھے اپنے ساتھی مقبول بٹ شہید کی تہار جیل میں پھانسی کا دکھ تھا (مقبول بٹ ایک کشمیری آزادی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ کا بانی تھا جس سے انڈیا نے تہار جیل نیو دہلی میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا )
اسی دوران دیگر کاموں کی وجہ سے مجھے فرصت نہیں ملی کہ میں اسکاٹ لینڈ جا کر وہ دستاویزات حاصل کرسکوں.
بعد میں فرصت ملتے ہی میں نے میجر براؤن کا پتہ کیا تو اس کی اہلیہ نے کہا کہ میجرصاحب کا حال ہی میں پانچ دسمبر 1984 میں انتقال ہوا ہے.
میں نے مطلوبہ دستاویزات کے بارے میں پوچھا تو مسز بروان نے کہا کہ کچھ دستاویزات تو رائٹرز نیوز ایجنسی والے لیکر گئے ہیں اور باقی دستاویزات پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مسٹر قطب دین عزیز لے گئے ہیں اور اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.”
میجر بروان کی کتاب The Gilgit Rebellion میجر بروان کی وفات کے 14 سال بعد 1998 میں لکھی گئی.
"بغاوت گلگت” نامی اس کتاب کے صحفہ 15 میں صاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہےکہ
William Brown kept a diary at least until his
return from Gilgit in January 1948. The actual diary has been lost
(apparently it was stolen), but at some point before 1950, probably as early
as 1948, William Brown wrote it up in narrative form, perhaps intending to
publish it. In the end it was not published and the top copy was lost. A carbon copy, however, survived.
On 5 December 1984, a week before his 62nd birthday, William Brown
died after a sudden heart attack.
In the end, justice to his memory was to some measure done with the awarding, on Independence Day 1993, of the medal Sitara-I-Pakistan as a posthumous recognition by Pakistan of his great contribution. His widow, Margaret, received the medal
in Islamabad from the hands of President Leghari on Pakistan Day, 23
March 1994.

یعنی ولیم براؤن کی اصلی ڈائری کھو گئی یا چوری ہوگئی تھی اور Narrative Form میں جو کہانی میجر صاحب نے لکھی تھی اس کی ٹاپ کاپی بھی کھو گئی تھی مگر کاربن کاپی سے کام چلایا گیا جس کے مستند ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اس لئے تو میجر بروان کی یادداشت کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ "اشاعت کے لئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی اور ہم خصوصی طور پر شاہ خان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان میں1947-1948 کے واقعات سے متعلق اس یادداشت میں شامل مواد کی تصدیق کرنے میں مدد کی.
میجر بروان کی یادداشت کی تدوین اور تصدیق کے متعلق یہ کہا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہر وہ سچائی جو ظاہر نہیں کی جاتی ہے وہ زہریلی ہو جاتی ہے , نوآبادکاروں کے بیانیے پر لکھی گئی یہ کتاب اس کی ایک عمدہ مثال ہے.
سچ یہ ہے کہ انقلاب گلگت کے متعلق ولیم براؤن کے وفات کے چودہ سال بعد اس کے دوستوں کے وسیع حلقے نے اس کی یادداشت ترتیب دیا اور بغاوت گلگت نامی اس کتاب کے ذریعے اس کے کردار کو گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ سے بڑھا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جس نے تاریخ کا دھارا تبدیل کیا.
میجر براؤن کی قبر کے کتبے میں ہیڈ بیج آف گلگت سکاؤٹس اور لیجینڈ آف دتہ خیل 31/10/47 کندہ کیا گیا.
اس کتاب کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ اگر براؤن نہ ہوتا تو جی بی انڈیا کے ہاتھ چلا جاتا .
اس طرح نوآبادیاتی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوۓ جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کا نام دیا گیا .
اس کتاب میں میجر بروان لڑاو اور حکومت کرو پالیسی کی نہ صرف دفاع کرتا ہے بلکہ اسے وقت کی ضرورت بھی قرار دیتا ہے.
دنیا کی دیگر نوآبادت کی طرح تاریخ گلگت بلتستان بھی نوآبادیاتی بیانیہ پر لکھوائی گئی ہے اور بعد ازاں سرکاری دانشوروں نے بنا تحقیق کے اسی بیانیہ کو حرفِ آخر مان کر آگے بڑھایا اور یوں ہماری قوم کو نہ صرف اپنی اصل اور حقیقی تاریخ سے نابلد رکھا گیا بلکہ ہمارے اس خوبصورت علاقے میں تاج برطانیہ کے دور سے ہی ایک نوآبادیاتی نظام کے تحت بیرونی قبضہ مضبوط کرنے کے لئے عوام میں تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی کے تحت علاقائی، لسانی اور مذہبی اور مسلکی تعصبات اور نفرت کو پروان چڑھایا گیا. اس پالیسی کی واضح مثال میجر براؤن کی بغاوت گلگت نامی کتاب ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے بارے میں غلط فہمیاں اور نفاق کا بیج جان بوجھ کر بویا گیا ہے تاکہ اس علاقے پر آسانی سے حکومت کی جا سکے.
بقول فرانز فینن نوآبادیات میں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی تاریخ, ثقافت اور روایات کو مٹا دیا جاۓ.
نوآبادیاتی دنیا میں قاری کو گمراہ کرنے کے لیے باقاعدہ اس طرح کی کتابیں لکھوائی جاتی ہیں اور جدوجہد آزادی کی تحریک میں عوامی کردار کو جان بوجھ کر نظرانداز جبکہ ہیروازم کو فروغ دیا جاتا ہے.
ایف ایم خان اپنی کتاب دی سٹوری آف گلگت بلتستان اینڈ چترال” کے صفہ نمبر 68 میں لکھتے ہیں کہ "جنگ آزادی گلگت بلتستان میں میجر بروان کی واحد کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے انقلاب گلگت کے بعد قایم ہونے والی عبوری حکومت کو ایک کامیاب سازش کے زریعے ختم کرکے گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد کے ایک نائب تحصیلدار سردار محمد عالم کے حوالہ کرکے مطلق العنان / آمرانہ حکومت قایم کیا اور اسطرح گلگت بلستان میں دوبارہ نوآبادیاتی نظام قایم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور گلگت بلتستان کے عوام کو ایک نوآبادیاتی طرز کی نظام حکومت کا غلام بنایا .
بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button