گلگت بلتستان کا سیاسی منظر نامہ، اور نئی اسمبلی کی زمہ داریاں
تحریر: طائب جان
سال ۲۰۲۰نے جہاں دنیا کو کوویڈ جیسے خطرات سے دوچار کر دیا، وہی کئی مواقع بھی پیدا کردیے جن میں قابل ذکر صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری اور تعلیمی عمل کے لیے نئے جہت کی طرف پیش قدمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، جمہوری عمل کی وجہ سے جمہوریت پر یقین پہلے سے بھی پختہ ہوگیا۔
اس سال امریکہ اور گلگت بلتستان میں انتخابی میدان سج گئے۔ اس بات سے قطعہ نظر کی کون جیتا اور کس کو اس بار کامیابی نہیں ملی ، عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ عوام نے سیاسی پختگی اور بصیرت کا مظاہرہ کیا اور متعدد ہارنے والوں نے جیتنے والوں کو مباکبادیاں دیں، اور ساتھ مل کر عوام کی خدمت کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ شایدیہی جمہوریت کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے کہ لوگ ایک دسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور مل جل کر مسائل کے حل پر توجہ دیتے ہیں۔
اسی دوران نو برسوں سے مقید مقبول سیاسی لیڈر بابا جان سمیت دیگر اسیران سمیت رہا ہوکر اپنے خاندان اور چاہنے والوں کے درمیان آ گئے۔ یہ خبر ہنزہ کے عوام کیلیئےبلخصوص ، گلگیت، بلتستان کے عوام کیلئے بلعموم اور ملک بھر کے انسانی حقوق کے تنظیموں ،سیاسی اور سماجی حلقوں کیلئے ایک بہت ہی بڑی خوش خبری ہے۔ بابا جان ایک انقلابی لیڈر ہے، اُن کے اندر جذبہ بھی ہے اور سیاسی بصیرت بھی۔ ہم ان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ نواز خان ناجی کی طرح اپنے علاقے کے عوام کی ترجمانی کرنے اور ترقیاتی عمل کو مہمیز دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ سیاسی لیڈروں کے لیے جیل کے اندر اور باہر ہونا ایک معمول کی بات ہوتی ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کے مسائل فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اس میں جو جتنی جلدی مدد کرنے پہنچ جائے وہی دل جیت لیتا ہے۔
الیکشن کے دوران گلگت بلتستان کے عوام نے جس طرح کی مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اُس نے یہ ثابت کردیا کہ گلگت بلتستان کے لوگ مہذب ہیں، اور گو کہ ہم انتخابی سیاست کے میدان میں نسبتاً نووارد ہیں لیکن تہذیب میں بہت آگے ہیں۔ ہم اپنے سیاسی مسائل کو سیاست سے اور دیگر مسائل کو دیگر طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قومی نمائندوں نے بڑی تعداد میں علاقے کا دورہ کیا جگہ جگہ پُر امن جلسے، جلوس کیئے ، جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے اپنے پارٹی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر شرکت کی۔ اس الیکشن کو لوگوں نے ایک تہوار کے طور پر منایا جس کو قومی میڈیا نے دل کھول کر کوریج دی، جس سے فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے مسائل مقامی سے نکل کر قومی سطع پر اٹھائے گئے۔ خواتین نے بھی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا جس کی ملکی سطح پربہت پذیرائی ملی۔ اس بار چند باہمت خواتین نے بھی قسمت آزمائی کی جو کہ خوش آئیند ہے ان کی دیکھا دیکھی شاید انے والے وقتوں میں مزید خواتین سامنے آجائے۔ البتہ خواتین کو سیاست میں شامل کرنے کے معاملے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں اور ہمیں اپنے خواتین کو مزید ہمت اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ابتدائی طور پرکم ازکم اپنے پچاس فیصد خواتین کی نمایندگی کرسکے۔
الیکشن کے چند ایک نتائج پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔ اس دوران ایک آدھ ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے، جس میں سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا جس کی ہر پارٹی کی قیادت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور اسے شرپسندی قراد دیا۔ اس الیکشن کی ایک اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس بار ہمارے عوام نے زیادہ ترنئے چہروں کو آزمودہ اور کُہنہ مشق شخصیات پہ ترجیح دی جس یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے اندر امید کی شمع روشن ہے اور لوگ شخصیات کی سیاست کو خیرباد کہنے لگے ہیں جو کہ نہایت ہی خوش أأیند ہے۔
اب گلگت بلتستان اسمبلی تشکیل پاچکی ہے، اور بابا جان بھی رہا ہو گئے ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آگے کرنا کیا ہے۔
موجودہ اسمبلی کو اس سے پہلے بننے والے اسمبلیوں پہ کچھ حوالوں سے فوقیت حاصل ہے۔ اول، تو یہ ہے کہ اسمبلی کی بھاگ دوڑ میں نوجوانوں کا کردار کلیدی ہے۔ دوئم، یہ کہ مرکزی حکومت کی طرف سے عبوری صوبے کے اعلان کے تناظر میں اس اسمبلی نے تاریخ ساز کردار ادا کرنی ہے۔ سوئم ، اب ہم بہتر سیاسی پختگی کے ساتھ اپنے نمایندے منتخب کرچکے ہیں۔ اسی اسمبلی نے آیئن میں عبوری صوبہ بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے مرکزی حکومت کی مدد کرنی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے علاقے کو اب بنیادی ضرورتوں اورترقی کی ضرورت ہے، ہمیں بجلی، انٹرنیٹ، موٹر وے طرز کے روڈ،سیاحت کے فروغ کیلئے اقدامات ،جدید تعلیمی وسائل جس میں میڈیکل اور انجنیر ئنگ کالج شامل ہے، صحت کیلئے ھسپتالوں اور صحت کارڈ جیسے سہولیات، کھیل کے میدانوں، خواتین کی تعلیم و ترقی، نوجوانوں کیلئے کاروبار کے مواقع ، اور این، سی، ایف، ایوارڈ میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے علاقے کے بےشمار مسائل ہیں ان سب پہ انقلابی میدانوں پہ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے معرومیوں کو دور کیا جا سکے۔
ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ہی مرحلے میں ہمارے اسمبلی کا نام صوبائی اسمبلی ہو اور ہمارے نمائندے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ہماری نمایندگی کرنے کیلئے کام کرے۔ اس کے لیے ہمارے تمام نمائندوں کو پارٹی وابستگیوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے عوام کی بے لوث خدمت کرنی ہوگی۔
جن لوگوں کو اس بار کامیابی نہیں ہوئی انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ بازی مات نہیں۔ انہیں عوام کے درمیان رہ کر اُن کے مسائل حل کرنے کی جُد و جہد کرنے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اُن کو سیاست سے دل برداشتہ نہیں ونے چاہیے اور آنے والے کل کی تیاری کرنی چاہیے سیاست میں رہ کر ہی وہ عوام کی بہتر خدمت کی جاسکتی ہے۔