اکیسویں صدی کے "کوفی
یہ بات طے شدہ ہے کہ حسین اور یزید محض دو شخصیات نہیں بلکہ دو پختہ نظریات اور افکار کے نام ہیں۔
کربلا میں ہونے والے تاریخ کے بدترین ظلم نے کائنات کے تمام مظالم کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جہاں کرہ ارض کی مقدس ترین ہستیوں کا بے گناہ لہو گرایا گیا، طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئی اور انہیں شہید کیا گیا۔ جرم بس اتنا سا تھا کہ نواسہ رسول حسنین کریمین اور ان کے رفقا خدا کی زمین پر خدا کا نظام چاہتے تھے۔
کئی سو برس قبل ہونے والا ظلم ہر زمانے کیلیے استعارہ بن کر مظلوم اور ظالم کی لکیر کھینچتا رہا جبکہ ظلم اور انصاف کے درمیان فرق بتاتا رہا۔۔ ہر دور کا انسان امام حسین کو مظلومیت کی علامت جبکہ یزید کو ظلم کے استعارے کے طور پر یاد کرتا رہا حالانکہ یزید غیر مسلم تو نہیں تھے، وہ بھی مسلم تھے اور عہد کے جید صحابی امیر معاویہ کے فرزند تھے۔۔
تاریخ نے معرکہ کربلا کے دو حوالے حسین اور یزید کو تو نمایاں کر کے لکھا ہے مگر مدینہ اور کوفہ کے وہ کردار جو اس ظلم پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ مصلحتوں میں آکر راہ فرار بھی اختیار کر گئے ان کا بیان نہیں ہے۔۔۔ ان کرداروں کے واضح تذکرے سے لوگ کتراتے ہیں۔۔۔
مدینہ سے نکلنے والے امام حسین کے قافلے میں لوگ شامل کیوں نہیں ہوئے ؟ اور کوفہ کے وہ تمام لوگ جنہوں نے امام عالی مقام کو خطوط لکھ کر بلایا تھا عین وقت پر کیوں بھاگ گئے؟ کیونکہ حق کا ساتھ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔ سچائی بیان کرنا بہت کھٹن کام ہے۔۔ ذاتی، سیاسی اور مالی مفادات کے مصلحتوں سے باہر نکلنا کوئی آسان کام تو نہیں۔۔۔
کئی سو برس بعد آج کوئٹہ مچھ کے مقام پر ایک اور میدان کربلا بپا ہوا۔۔۔ ہاتھ پاوں باندھ کر جسم کے مختلف عضو کاٹ کر مظلوموں کو بے دردی سے مارا گیا ہے۔۔۔ کئی خاندانوں کو یتیم کیا گیا ہے۔۔ کئی ماوں کی گود اجاڑی گئی ہے جبکہ درجنوں بہنوں کو بیوہ کیا گیا ہے۔۔ ان سے زندگی کے تمام رنگ چھین لئے گئے ہیں۔۔۔ ان کے زبان پر ذکر حسین ہے مگر کوئی بھی نام نہاد حسینی ان کے دکھ بانٹنے کیلئے اقتدار کی مصلحت سے اترنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔۔۔ منفی 8 ڈگری کی ٹھنڈ میں سردی سے ٹہٹہرتی ماوں، بہنوں کے ساتھ ان کے جگر گوشوں کی لاشیں بھی سراپا احتجاج ہیں مگر کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔ یہ آج کا کربلا ہے جہاں کچھ ابن زیاد اور شمر جیسے کردار ہزارہ کے مظلوم انسانوں کے گلے کاٹ گئے ہیں تو کچھ مصلحتوں کے کمبل اوڑھے لاکھوں کوفی تماشہ دیکھ رہے ہیں مگر کہیں کوئی ” حر” نظر نہیں آ رہا ۔۔۔ ماتم، گریہ، مجالس اپنی جگہ پر مگر عمل کے وقت ہم حسینی بننے سے کیوں کتراتے ہیں ؟ مسجد و منبر میں چیخ چیخ کر انسانوں کو آپس میں تقسیم کرنے والے جبہ ودستار کے مالک آخر عملی دنیا میں ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ کیا حسین کی قربانی کا حق ادا صرف گفتار اور مختلف سرگرمیاں کرنے سے ممکن ہے یا حیسن کا عمل اپنانے سے؟ حسین نے انسانیت کے بقا کی جنگ لڑی، ظلم کے خلاف شہادت قبول کی اور رہتی دنیا کے مظلوموں کیلئے ایک حوصلے کی علامت بن گئے مگر آج ہم ہزارہ برادری کے انسانوں کے بیگناہ خون کو عینکیں لگا کر کیوں دیکھ رہے ہیں؟
ظلم کا کوئی مذہب، قوم اور زبان نہیں ہوتی۔۔۔بدقسمتی سے اس ملک میں ظلم غریب و لاچار کا مذہب بن چکا ہے۔۔۔ہزارہ برادری پر ظلم کی یہ کہانی نئی بلکہ پرانی ہے، ہر دور اور ماضی کی ہر حکومت میں ان کا خون بہایا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی مگر اس بار جو بے حسی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ ماضی سے مختلف ہے۔ مچھ واقعہ انسانیت پر کاری ضرب ہے۔۔۔۔ بے حسی کی انتہا یہ کہ گزشتہ کئی دنوں سے لاشوں کی تدفین نہیں ہو پا رہی ہے مگر پھر بھی مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں۔۔۔۔ وقت آیا ہے کہ انسان بن کر انسانی روگ، تکلیف اور درد کو محسوس کیا جائے اور خدا را! آئیندہ میدان کربلا پر گریہ و زاری کے ساتھ ساتھ موجودہ صدی کے یدیز، شمر اور ابن زیاد کو اپنے صفوں سے باہر پھینکیں اور اپنے آس پاس ماتمی کوفیوں کی نشاندہی کریں۔