کالمز

(زندگی) ایک مسلمان بچی  کے  دل کی جراحت  ، موت کے بعد  نئی زندگی  کا تحفہ 

تحریر: آمیر افضل خان  اپر چترال

ایک مسلمان بچی  کے دل کی  جراحت کے دوران جو  حیرت انگیز واقعہ  آپ کے ساتھ بانٹنے جا رہا ہوں  اُس کا تعلق ہماری  زندگی اور ہمارے  اختیارات  سے ہے  ۔ ہم کتنا  با اختیار ہیں اور  ہماری زندگی کیا ہے ؟ زندگی  اللہ کی طرف  سے ودیعت کردہ ایک عظیم تحفہ ہے اسے اللہ کے بتائے ہوے قانون کے مطابق گزار نا عین عبادت ہے ۔ اللہ  کی اس عنایت  کو عزت و احترام کے ساتھ گزارنا ہمارا فرض ہے ۔زندگی بہترین نہج پر  گزارنے کے دو ہی بنیادی طریقے ہیں :

یہ کہ ہر مشکل کو پسِ پشت ڈال کر زندگی گزارنا اور سطحی مشکلات پر  زندگی کو کوستے رہنا کہ  فلاں کام نہیں ہوا  اور فلاں خواہش پوری نہیں  ہوئی ، سے گریز  کرنا ۔ اس حوالے سے ایک شاعر نے کیا خوب دعا مانگی ہے

ؔ             زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا

پاؤں بخشے ہیں  تو توفیق سفر بھی دینا

گفتگو تو نے سکھائی ہے کہ میں گونگا تھا

اب میں بولوں گا تو باتوں میں اثر بھی دینا

زندگی کو سمجھنا ہے تو ماضی کے جھروں سے دیکھو اور زندگی کو جینا ہے تو سوئے منزل  دیکھو۔زندگی ایک  بے کنار سمندر ہے اور  طوفان اس کا حصہ ہیں   ۔ اس سمندر میں   طوفانوں کا پرپا ہونا  زندگی کو سمجھنے کےلئے   ضروری ہے ۔ یہ طوفان جہاں زندگی کو مضبوط  بناتے ہیں وہاں  انسان کو یہ جاننے میں بھی آسانی ہوتی ہے کہ  کون  کنارہ دے سکتا ہے  اور کون آپ کو مزید بھنور میں دھکیلتا ہے۔  ایک بزرگ کا کیا معنی خیز قول ہے

                  ” زندگی کو بس اتنا جانا ہے، دکھ میں اکیلے ہیں خوشیوں میں سارا زمانہ ساتھ ہے "

اس گتھی کو سلجھانے   اور  پرکھنے کےلئے آپ اپنے ہاتھ میں چند ایک   گیند رکھیں  اُن میں سے کچھ  ربڑ کے ہوں  اور کچھ شیشے کے اُنہیں ہوا میں اچھال دیجئے آپ دیکھیں گے کہ  اگر ربڑ کی گیند آپ کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے تو اچھل کر واپس آپ ہی کے ہاتھ میں آتی ہے اور اگر ساقط بھی ہو جائے تو اپنی حیات  بر قرار رکھتی ہے  لیکن شیشے کی کوئی  گیند  غلطی سے بھی گر جائے تو ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے گی ۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں ربڑ کی گیند کونسی ہیں اور شیشے کی کونسی ۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ

آپ کا دنیاوی کاروبیگار اور  آپ کی نوکری  ،آپ کے دوست احباب اور آپ کی جائیداد یہ سب ربڑکی گیند ہیں جوکہ آنی جانی ہیں ہوا میں اچھلتی ہیں ، زمیں میں گرتی ہیں اور پھر آپ کے ہاتھ میں آتی ہیں لیکن آپ کی صحت اور آپ کے خاندان کے رشتے اور ناطوں کی مثال کانچ کی گیندوں کی ہے جوکہ ایک مرتبہ شکستہ و گھائل ہونے کے بعد پیوست و مندمل نہیں ہو سکتں-

ہم سب  جس  غلط فہمی کا شکار ہیں وہ یہ کہ ربڑ کی گیندوں کو بڑی حفاظت سے  سنبھال سنبھال  کے رکھنے میں زندگی کی آساسئشیں  تلاش کرتے ہیں  یوں ان  کانچ کی نازک  گیندوں کو ہوا میں اچھالتے اور اُن کے پرخچوں کو  اڑا کر بھی درد محسوس نہیں کرتے   ۔ کارو بار، ملازمت  ،  روزگار ، جائیداد اور دوست احباب  ہاتھ  کے میل ہیں    لیکن ہماری صحت  اور ہمارے رشتے  ہماری  خوشیوں کا سبب ہیں یہ اگر مضمحل ہو جائیں تو شاید  ان  کا نعم  البدل  کہیں سے  نہیں ملے گا۔  ہما ری  دولت و ثروت  ، ہماری عیش و عشرت  ، ہمارا جاہ جلال ، ہماری جائیدادیں  اورہماری  ملازمتیں  اُس  وقت تک بے معنی    و بے  کار ہیں  جب تک وہ ہمیں صحت  نہ دے سکیں اور  جب تک ہمارے آپس کے رشتوں کو  مضبوط  نہ کر پائیں   ۔    ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے    وہ اصل  میں کچھ بھی نہ ہونے کی دلیل ہے یہ تو محض  انسان  کو دوسرے انسانوں  سے  الگ  کرنے کے     ذرائع کے علاوہ  اور کچھ بھی نہیں ان  آسائشوں کے حصول  کی دوڑ  میں  انسان  ” میں ” کے  مختصر حصار میں  محبوس  ہوجاتا ہے اور یہ” میں” کا صعوبت  خانہ  انسان کو رشتوں کے بے کنار  محبتوں سے کنارہ کش کرتا ہے    اور نفرتوں کو جنم دیتا ہے ۔  اگر ہم بطور  خاندان یا معاشرہ   "ہم” بن کے سوچیں گے تو خاندان بھی اد ہوگا اور رشتے بھی مضبوط اور متحد رہیں گے

جوناتھن ھائیٹ کے مطابق    دنیا میں جتنے بھی دکھ آلام  اور مصیبتیں انسان کو درپیش ہیں اُسکی بنیادی وجہ  انسان کے دنیا داری سے لگاؤ ہے  ۔انسان جتنی دنیا داری  کرے گا  اُتنا  خسارے کا سودہ کرے گا ۔ جو چیز آپ کی خوشیوں کو متاثر کرتی ہے وہ  آپ کے اندرونی زندگی کو بھی متاثر کرےگی۔ اصل خوشی کا تعلق دولت اور طاقت سے ہر گز نہیں ہے  ، اگر آپ زندگی میں خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان حالات سے باہر نکلنا پڑے گا۔

زندگی کے معنی کو سمجھنا چاہیئے ہمارے پاس محدود اور غیر معین وقت ہے، مطلب یہ ہے کہ زندگی محدود ہے مگر اس محدود زندگی میں بھی یہ معلوم  نہیں کہ ہماری کتنی عمر ہے 50 سال ، 80 سال ،100 سال ؟  یا  اس سے  بھی زیادہ ؟- اس محدود اور غیر معین وقت میں بھی ہمارے پاس بعض فیصلوں کا اختیار نہیں ہے-  زندگی کے فیصلوں پر ہمارا اختیار شاید بیس فیصد سے بھی کم ہے ۔ آپ کہاں پیدا ہوں گے  ، آپ کے والدین کون ہوں گے  ،آپ کا رزق کتنا  ہوگا ، آپ کی عمر کتنی ہوگی  اور آپ کا مستقبل کیسا ہوگا  یہ سارے  فیصلے آپ کے اختیار میں نہیں ہیں۔ آپ کو اپنی صحت کے بارے میں بھی بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ زندگی پر آپ کا اختیار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں   ۔ اگر زندگی کے  بہت سارے فیصلوں پر آپ کا اختیار نہیں ہے تو آپ پریشان کس بات پر  ہیں ؟  اگر آپ کو پریشان ہونا ہے تو زندگی کے  صرف اُن پہلوؤں کی فکر کیجئے جو آپ کے دائرہ اختیار میں ہیں ۔اگر آپ کو اس میں کوئی شک ہے تو آپ ایک تجربہ  کر کے  دیکھ لیجئے کہ  آپ کتنا با اختیار ہیں ۔ آپ صرف دو منٹ کےلئے اپنی سانس روک لیجئے  پھر دیکھ لیجئے کہ آپ کے بدن کا ہر حصہ آپ  سے سانس کی ضرورت  کا  کتنا تقاضا کریگا  ۔اس کا مطلب  یہ ہوا کہ  آپکو ہر صورت میں سانس لینے کی ضرورت ہے  ورنہ  دم گھٹ جائے گا اور آپ مر جائیں گے ۔  آپ ایک منٹ کےلئے اپنی آنکھیں موندھ  لیجئے  اور سوچیئے کہ آپ  کے  سینے میں  گوشت کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا  ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ  دھڑ کتا  ہے اور یوں  یہ چھوٹی سی خود کار مشین   تقریباًدو ہزار گیلن خون  ہمارے  جسم کو مہیا کرتی ہے  ۔ آپ یہ بھی سوچیئے کہ آپ کے بدن میں بے شمار  خلیے  ہیں   ، ان خلیوں کی اپنی زندگی  ہے  یوں ہمارے جسم میں ایک سیکنڈ کے اندر  بے شمارخلیے  مرتے  ہیں اور بے شمار  خلیے پیدا ہوتے ہیں   اور پھر اُن  میں لگاتار  کمیائی  تبدیلیاں  رو نما ہوتی ہیں  ۔ کیا یہ  کرشمات  ہمارے ہاتھ میں ہیں کیا  آپ ان بے شمار خلیوں میں سے ایک خلیے میں اپنی مرضی سے تبدیلی لا سکتے ہیں ؟ اگر آپ کا جواب ” نہیں” میں ہے تو آپ کے پاس کوئی اختیار  نہیں ہے  ۔ پھر آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ؟ یہ سب کچھ اگر آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے  تو یقیناًیہ کسی اور کے اختیار میں ہے   تو  وہ با اختیار ہستی ہی ہے جو  ہمارے تمام نیک و بد کا ذمہ دار ہے  لہذا  زندگی کے  بے شمار معاملات میں ہمیں فکرمند رہنے کے بجائے  سپردگی اختیار کرنی ہوگی  ۔ مجھے  لکھتے لکھتے ایک کہانی یاد آ رہی ہے جسے  میں نے اپنے  کالم کا موضوع بھی بنا لیا ہے  ۔

یہ دسمبر 2008 کی بات ہے کہ ایک مسلمان خاندان میں  چھ سال کی بچی کو دل کا عارضہ لاحق ہوا  اس کے والدین اُسے لیکر  ایک ہندو ڈاکٹر کے پاس گئے  ڈاکٹر نے چیک کیا اور کہا کہ بچی کی حالت  نا گفتہ  بہہ ہے  اپریشن کرنے کی صورت میں بھی اس کے جان بر ہونے کے امکانات  بہت کم ہیں   ، مگر بچی کے والدین کے اصرار پر ڈاکٹر نے اپریشن کا فیصلہ  کر ہی لیا   ۔ اپریشن سے پہلے بچی نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ڈاکٹر انکل اپ میرا دل کھول کے اپریشن کریں گےنا؟ تو ڈاکٹر پریشان ہوگیا پھر بچی سے پوچھا کہ بیٹی اپ ایسا کیوں پوچھتی ہیں ، ڈرو نہیں کچھ نہیں ہوگا تو بچی نے کہا کہ میں پریشان نہیں ہوں البتہ  میرے والدین اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ اللہ  دل میں رہتا ہے میرے اپریشن کے بعد انکل مجھے بتا دیں کہ   اللہ  میاں کیسے دکھتا ہے  ،کیسے نظر آتا ہے؟  ڈاکٹر نے مریضہ کی دلجمعی کی خاطر  اس کی ہاں میں ہاں ملایا  ۔ ڈاکٹر نے آپریشن  شروع کیا ،   پنتالیس منٹ اپریشن کرنے کے بعد ڈاکٹر کی جراحت  نا کام ہو جاتی ہے   ، بچی کا دل رک جاتا ہے اور  ڈاکٹر  اپریشن تھیٹر میں موجود  باقی ڈاکٹروں کی جانب   مایوس  نظروں سے دیکھتے ہوئے  بچی کا   چاک  سینہ  دوبارہ  سی لینے کا حکم دیتا ہے لیکن  اچانک  ڈاکٹر   کو یاد آتا ہے کہ  آپریشن سے پہلے  ڈاکٹر نے بچی  سے کچھ وعدہ کیا تھا  یوں  ڈاکٹر بچی کے دل پر ہاتھ  رکھتے ہوئے   دعا مانگتا ہے کہ خالق میں تو ناکام ہوگیا اب یہ بچی آپ کے سپرد  کر رہا ہوں-  یہ دعا مانگ کر وہ باہر نکلنے کے لئےمڑتا   ہے  لیکن اُس کے  باہر نکلنے سے پہلے تھیٹر میں موجود  نرس  فرط نشاط  سے  ڈاکٹر کو  آواز دیکر کہتی ہے  کہ   ڈاکٹر صاحب  بچی کا دل  دوبارہ سے دھڑکنا  شروع ہواہے -ڈاکٹر واپس آتا ہے اور اپریشن دوبارہ شروع ہوکر کامیاب ہوتا ہے ۔ایک ہفتے کے بعد یہ ڈاکٹر اپنے ایک مسلمان دوست  ڈاکٹر کے پاس آکر یہ قصہ سناتا ہے اور پوچھتا ہے کہ میں اُس بچی کو کیسے سمجھاؤں کہ خدا کیسے نظر آتا ہے ۔ مسلمان ڈاکٹر نے کہا کہ آسان جواب ہے ، اپ بچی سے کہ دیں ، کہ خدا نظر نہیں آتا ہے اسے محسوس کیا جاتا ہے ۔جب آپ پریشان ہونا چھوڑ دیں گے تو آپ کی  95 فیصد بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں گی۔اگر آپ 15 منٹ کسی دریا، سمندر یا پہاڑ کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے زندگی گزاریں تو آپ کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی ۔ فطرت کا مشاہدہ کریں ۔ کبھی کبھار آنکھیں بند کرکے اپنے اندر کا جائزہ لیں آنکھیں بند کرکے سنیں، خاموشی کا تجربہ کریں ۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی فرماتے ہیں کہ زندگی کے معاملات جیسے  بھی ہوں مرشد سے رہنمائی حاصل کر لینی چاہیئے، انسان مرشد کامل کی تائید سے اپنی منزل کو پاکر اپنی زندگی آرام اور سکون سےگزارسکتاہے      ارشاد خدا وندی ہے۔  ”  اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہونا  "

بامقصد زندگی

انسان کے سامنے کوئی مقصد نہ ہو تو ایسا انسان مصروف ضرور رہے گا مگر وہ ایسی مصروفیت سے  فائدہ نہیں ہوگا ۔ جب آپ پیدا ہوئے تو ایک چیز یقینی تھی وہ یہ کہ آپ ایک دن ضرور مر جائیں گے۔ اس کے علاوہ   آپ   کچھ  نہیں جانتے تھے  ۔ آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ  آپ کا  آب و دانہ  کہاں ہوگا  اور کیسے ہوگا  ؟ ماں باپ کب تک آپ کےساتھ رہیں گے ؟ یعنی آپ اپنے  آنے والے کل سے بالکل بے خبر تھے یہ   اللہ  کی دنیا ہے یہ اپنے خالق  کی منشا کے مطابق چلے  گی آپ  اپنے حساب سے اس کو چلانے کی کوشش  کریں گے تو  خسارہ  اُٹھائیں گے   ۔ کوئی نامور سائنسدان سورج کو اپنے مقررہ وقت سے ایک سیکنڈ  قبل  طلوع نہیں کر سکتا ۔ لہذا  قدرت کے قوانین کا مشاہدہ کریں اور  اُس ذات کی  شہنشاہیت کے سامنے    سر تسلیم خم کیجئے  جس نے ہمیں پیدا کیا، جس نے ہمیں آنکھوں  کا نور دیا، طاقت گویائی دی    اورقوت سماعت   دی ۔

شاعر کیا خوب کہتا ہے

                                      کہیvں کوئی ہے جو نبض دنیا چلا رہا ہے وہی خدا ہے

                                        جو ہو کے غائب کمال اپنا دیکھا رہا  ہےوہی خدا ہے

                                     اندھیری راتوں کی آنچلوں میں جو جلملاتا ہے نور بن کر

                                    جو چاند تاروں سے آسمان کو سجا رہا ہے وہی خدا ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button