کالمز

محروم طبقات کی آواز، آئی اے رحمان

تحریر ۔ اسرارالدین اسرار

٢٠٠٣ کے بعد جب جب ہم ایچ ار سی پی کے لاہورمیں واقع مرکزی دفتر سالانہ اجلاس میں شرکت یا کسی کام سے جاتے تو دو بزرگوں کو دیکھ کر دل خوش ہوتا اور انسانی حقوق کے کام میں دلچسپی بڑھ جاتی تھی۔ حسین نقی صاحب پاکستان بھر کے انسانی حقوق کے کارکنوں سے براہ راست خط و کتاب اور رابطہ میں ہوتے تھے اس لئے انسانی حقوق کے ہر نئے کارکن کی پہلی شناسائی حسین نقی سے ہوتی تھی۔ ہماری پہلی ملاقات اور شناسائی بھی حسین نقی سے ہوئی۔ جب مجھے حسین نقی صاحب نے گلگت میں ایچ ار سی پی کی زمہ داریاں سونپی تو ساتھ ہی سالانہ اجلاس اور تربیتی ورکشاپس میں بلانے لگے۔ شروع شروع میں جب ایچ آر سی پی کے دفتر جاتے تو ہر اجلاس، سیمنار، کانفرنس یا ورکشاپ کے دوران ہم مقررین کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ جاتے اس دوران اکثر ایسا ہوتا تھا کہ اچانک آگے سے آوز آتی ، رحمان صاحب آگے آجائیں ۔ تمام شرکاء پیچھ مڑ کر دیکھتے، ایک منکسرالمزاج، اور دھیمی طبعیت کا بزرگ پچھلی نشستوں میں بیٹھے ہوتے تھے۔ منتظمیں کے اصرار پر آہستہ آہستہ آگے کی طرف آجاتے اور اگلی نشست میں بیٹھ جاتے یا اکثر کہتے کہ جی میں ادھر ہی ٹھیک ہوں آپ جاری رکھیں۔ یہ تھے ایچ آرسی پی کے سربراہ اور استاد الاساتذہ ابن عبدالرحمان صاحب جو کہ آئی اے رحمان کے نام سے پوری دنیا میں جانے جاتے تھے۔ رحمان صاحب شروع میں ایچ آر سی پی کے ڈائریکٹر تھے۔ بعد میں سکریٹری جنرل بن گئے اور چند سال قبل جب سکریٹری جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تو ان کو اعزازی ترجمان کا عہدہ سونپا گیا جس کے ساتھ اپنی وفات یعنی ١٢ اپریل ٢٠٢١ تک وابسطہ رہے۔

وقت کے ساتھ جوں جوں ہمارا ایچ ار سی پی کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا گیا اسی طرح رحمان صاحب سے بھی بارہا ملاقاتوں، بات چیت اور رابطوں کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ ٢٠٠٩ میں جب گلگت میں ایچ ار سی پی کا دفتر قائم ہوا تو رحمان صاحب کی اجازت سے نقی صاحب نے مجھے دفتر سنھبالنے کی زمہ داریاں سونپ دی۔ ایک ملاقات میں رحمان صاحب نے مجھ کہا کہ ہمیں گلگت میں آپ کی ضرورت ہے۔ رحمان صاحب کے یہ الفاظ میرے لئے ایک بڑے اعزاز سے کم نہیں تھے اس لئے میں نے ایچ ار سی پی سے اپنا رشتہ مستقل اور مضبوط کرلیا۔ رحمان صاحب بہت بڑے انسان تھے مگر ہم ان کے سامنے جاتے تو ان کی پدرانہ شفقت ایسی ہوتی کہ ہم بچوں کی طرح ان سے بے تکلف ہوجاتے۔ ہم ان کو رحمان صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ ان سے ہر وقت بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ ہم ان کی عاجزی اور انکساری کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ رحمان صاحب چلتے پھرتے لائبریری تھے۔ جس موضوع پر جس وقت بھی ان سے بات کی جائے ان کے پاس معلومات کا پورا ایک خزانہ ہوتا تھا ۔ وہ بڑی فراخدلی سے علم منتقل کرتے تھے۔ ہم نے بے شمار مضوعات پر ان کے لیکچرز ، تقاریر، تحاریر کے علاوہ تربیتی نشستوں ، ملاقاتوں اور دوران سفر ان کے علم سے استفادہ حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی۔

رحمان صاحب اسی سال سے زائد عمر میں بھی صبح شام کام میں مصروف ہوتے تھے۔ سب سے پہلے دفتر آتے اور رات گئے دفتر میں کام کرتے رہتے۔ طویل سفر کے باوجود اگر دن کے وقت لاہور پہنچ جاتے تو گھر جانے اور آرام کرنے کی بجائے سیدھے دفتر جاتے تھے اور اپنے کام میں لگ جاتے۔

ایک دن لاہور میں رحمان صاحب کے ساتھ فیض گھر جارہے تھے راستے میں میں نے ان سے پوچھا سر گھر کا مطلب کیا ہے۔ رحمان صاحب مسکرائے اور کہنے لگے گھر کا تصور خاندان کے بغیر ممکن نہیں، ایک خاندان کے افراد جس عمارت میں مقیم ہوں اس کو گھر کہا جاتا ہے ورنہ وہ صرف عمارت یا مکان کہلائے گا مگر گھر نہیں کہلائے گا۔

ایچ آر سے پی ہمارا گھر ہے اور رحمان صاحب اس گھر کے سربراہ تھے۔ رحمان صاحب کی رحلت سے ایچ آر سی پی یتیم ہوگیا ہے۔ گلگت سے کراچی تک ایچ ار سی پی فیملی کا ہر ممبر رحمان صاحب کی وفات پر اشکبار اور سگوار ہے۔ رحمان صاحب کی وفات سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ کھبی پر نہیں ہوسکتا۔ ایچ آر سی پی ان کی کمی ہمیشہ محسوس کرتا رہے گا۔ رحمان صاحب محبت اور شفقت کے پیکر تھے۔آپ ملک بھر سے آنے والے انسانی حقوق کے ایک ایک کارکن سے محبت اور شفقت کا اظہار کرتے۔ غریبوں اور پسے ہوئے طبقات سے صرف تحریروں یا تقریروں میں اظہار ہمدردی نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر شفقت کا اظہار کرتے۔ خنجراب سے گوادر تک ان کو ہر مسلہ کا علم تھا اور ہر مظلوم کے لئے فکرمند رہتے تھے۔ ملک میں انسانی حقوق کی ہر خلاف ورزی ان کو تکلیف دیتی تھی مگر وہ مجسم حوصلہ تھے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتے تھے اور اپنے چاہنے والوں کو بھی یہ تحریک دیتے تھے۔ رحمان صاحب مجسم غریب پرور اور انسان دوست تھے۔ وہ غریبوں، بےسہاروں، پسے ہوئے اور محروم طبقات کے رحمان تھے۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شکار تمام متاثرین کی ایک توانا آواز تھے۔ وہ کھبی مایوسی کو قریب آنے نہیں دیتے تھے ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے وہ ایک امید اور سہارا تھے۔ ان کو کھبی بھی ہم نے دکھ اور غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکرہٹ ہوتی تھی جو ملک میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کے لئے امید کی ایک کرن ثابت ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت میں ایک توازن تھا ان کو کھبی ہم نے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے نہیں پایا۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار دلیل اور علم تھا۔ وہ اپنی ہر بات مہذب لہجے اور الفاظ میں بیان کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکایات کے علاوہ حکومت اور معاشرہ کے اچھے کاموں کو بھی اجاگر کرتے رہنا چاہئے۔ ان کا تنقید اور غصہ بھی مہذبانہ اور شائستگی سے بھر پور ہوتا تھا۔

حفیظ بزدار بتا رہے تھے کہ ایک دن حسین نقی صاحب نے اپنے دفتر میں کسی سرکاری اہلکار پر سخت غصہ کیا جس کی آواز اوپر منزل پر رحمان صاحب کے دفتر میں سنائی دی۔ کچھ دیر بعد جب بزدار صاحب رحمان صاحب کے دفتر کسی کام سے گئے تو رحمان صاحب نے مخصوص تبسم کے ساتھ پوچھا کہ نیچے دفتر میں شاہ صاحب آج کیوں اتنے جلال میں آئے ہیں۔

نقی صاحب اور رحمان صاحب گہرے دوست تھے لیکن ایک دوسرے کابےحد احترام کرتے تھے۔

رحمان صاحب سے ہر ملاقات میں ان کے لئے محبت اور احترام کا جذبہ بڑھ جاتا تھا۔ اتنے بڑے مصنف، صحافی اور دانشور تھے، دنیا بھر اور بلخصوص جنوبی ایشیاء میں ان کی بڑی قدر اور شہرت تھی مگر شخصیت میں انکساری کی انتہاء تھی۔ ہمیشہ تبسم گفتگو کرتے۔ مزاح کا پہلو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ سخت سے سخت بات نرم لہجہ اور خوبصورت الفاظ میں کہہ دیتے۔ ہمیں انہوں نے یہ احساس نہیں دلایا کہ وہ ہمارے انتظامی سربراہ ہیں۔ وہ ایک شفیق باپ کی طرح پیش آتے تھے۔ ان کی تحریر جس طرح مدلل ہوتی اسی طرح ان کی گفتگو بھی جامع اور مدلل ہوتی تھی۔ ایک جملہ میں پوری بات سمو دیتے تھے۔ ان کے پاس ہر سوال کا فوری جواب ہوتا تھا۔ ہم ہر مشکل سوال ان کے سامنے رکھ دیتے ان کے پاس اس کا آسان اور قابل فہم جواب ہوتا۔ ہمارے لئے اعزاز سے کم نہیں تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان آئی اے رحمان کا دست شفقت ہمارے سر پر تھا۔ مگر آج مجھ سمیت پاکستان کے ہزاروں انسانی حقوق کے کارکن، صحافی ، کالم نگار اور مصنفیں اس دست شفقت سے محروم ہوگئے ہیں۔

رحمان صاحب مجھ پیار سے امیر گلگت کہتے تھے۔ جب بھی ملتے آنکھوں میں ایک چمک آتی ، میرے ساتھ ہاتھ ملاتے اور کندھے پر ہاتھ رکھتے اور پوچھتے تھے گلگت کے حالات کیسے ہیں۔ کھبی مزاح کے موڈ میں ہوں تو پوچھتے تھے کہ آپ ادھر ہیں گلگت کس کے حوالہ کر کے آئے ہیں۔

صبر و تحمل، انکساری ، رواداری، شائستگی، ادب اور خوبصورت لہجہ میں بات کرنے میں ان کو کمال مہارت حاصل تھا۔

ایک ورکشاپ میں گلگت سے آئے ہوئے شرکاء نے ان سے کوئی سوال پوچھا ، میں اتفاق سے رحمان صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا ، کہنے لگے ہم نے گلگت بلتستان کی زمہ داری ایسے فرد کو سونپی ہے جس کو وہاں کے ہر مسلہ کا علم ہے میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ آپ ان سے گلگت بلتستان سے متعلق ہر سوال پوچھ سکتے ہیں۔ مجھ اپنی کم مائیگی کا مکمل ادراک تھا لیکن رحمان صاحب کا یہ وطرہ تھا کہ وہ مجھ جیسے کم علم کا بھی حوصلہ بڑھاتے اور ان کو تحریک دیتے تھے۔

گلگت بلتستان کی محرومیوں پر ہم سے بات کرتے رہتے۔ جی بی آویئرنیس فورم کے مختلف سیمنارز سمیت گلگت بلتستان کے سیاسی و انسانی حقوق کے موضوع پر جہاں بھی ان کو بات چیت کے لئے بھلاتے ضرور تشریف لاتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ ملک کے تمام حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں ایچ ار سی پی کے کام میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

ایک دفعہ رحمان صاحب کے ساتھ اکھٹے سری لنکا جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ ساتھ رہتے، ساتھ کھانا کھاتے اور گھومنے چلےجاتے۔ اس دوران رحمان صاحب کی کچھ خدمت کا بھی موقع ملا۔ ہمارے اصرار پر انہوں نے جڑی بوٹیوں کے تیل سے اپنے پاوں کی مالش کرانے کی حامی بھر لی، ہم نے اکھٹے وہاں کے مقامی طریقہ سے ناریل کا سوراخ کر کے اس میں اسٹرا ڈال کرناریل کا پانی بھی پیا اور کئ پرفزاء مقامات کی سیر سے لطف انداز بھی ہوئے۔ دوران سفر کئ مقامات پر میں ان کو سہارا دیتا رہا اور وہ مجھ اپنے بچوں کی طرح پیار دیتے رہے۔

میں جب بھی لاہور جاتا ان کو ہر دفعہ گلگت تشریف لانے کی درخواست اور اصرار کرتا تھا۔ فیکٹ فائنڈنگ کے لئے رحمان صاحب حناجیلانی صاحبہ اور مرحوم کامران عارف صاحب کے ہمراہ ٢٠١٩ میں سکردو اور گلگت کے پانچ روزہ دورے پر تشریف لائے۔ یہاں ہر طبقہ ہائے فکر سے ملاقاتیں کی اور مسائل کی تفصیلات لی۔ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ہنزہ میں فرماش کر کے مقامی روایتی کھانا تیار کرایا جو کہ ان کے ذوق کے عین مطابق مرچ اور تیل کے بغیر تھا جس پر انہوں نے میرا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔ اپنے دورے میں گلگت بلتستان کے قدرتی مناظر اور یہاں کے لوگوں کی خوب تعریف کی۔

ہنزہ سے واپسی پر کہنے لگے کہ گلگت بلتستان میں ہر جگہ ایک وویو (View) ہے۔ اس لئے یہاں ہر ہوٹل اور ہر رسٹورینٹ کے ساتھ وویو (نظارہ) کا لفظ جوڑا جاتا ہے۔ وویو ہٹایا جائے تو یہاں کی وہ اہمیت نہیں رہے گی جو اس وقت اس کی ہے۔

رحمان صاحب کی جدائی ہمارے لئے ناقابل تلافی صدمہ ہے۔ ہم رحمان صاحب کے دائمی سکون کے لئے دعاگو ہیں اور پسماندگان سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button