دفاتر میں ہراسانی کے خلاف بولو اور روکو
کالم: قطرہ قطرہ
تحریر ۔ اسرارالدین اسرار
کام کی جگہ پر صنفی بنیادوں پر کیا جانے والا امتیازی سلوک اور ہراسانی کے واقعات میں روزں افزوں اضافہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اس ضمن میں قوانین سے متعلق آگاہی اور ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک کی شکار اکثریت خواتین کی ہے۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراسانی کے واقعات کی شکایات ہر دفتر سے آتی ہیں ۔ بعض کام کی جگہوں /دفاتر میں کھلے عام اور بعض جگہوں میں بڑی صفائی کے ساتھ یہ کام ہوتاہے۔ اس حوالے سے بعض لوگ بہت شاطرانہ طریقہ سے یہ کام کرتےہیں۔ مثلاء کسی خاتون کو ملازمت میں رکھنے کے بعد دفتر کے سربراہ کی طرف سے سب سے پہلے یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ دفتر کے معاملات اپنے اہل خانہ یا قریبی لوگوں کو نہ بتائیں۔ اس سے مراد بظاہر دفتری راز داری ہوتی ہے مگر اندر سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دفتر کے اندر کی غلاظت باہر نکل کر بد نامی کا باعث نہ بنانے۔ دفتری اموری کی راز داری تو ہر ملازم کا فرض ہے لیکن جب بات امتیازی سلوک اور ہراسانی کی ہو تو ایسے میں یہ مسلہ دفترکا اندرونی مسلہ نہیں رہتا۔ ہاں اگرجب نچلا سٹاف کسی خاتون سٹاف ممبر کو تنگ کرے تو اس کی شکایت ادارے کے سربراہ کو کرنا چاہئے ۔ اس وقت سربراہ کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ متعلقہ فرد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ اگر ادارے کا سربراہ خود اس فعل میں ملوث ہے یا وہ ان لوگوں کی پشت پناہی کرتاہے جو اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تب تو یہ مسلہ دفتر کا اندرونی مسلہ نہیں رہتا بلکہ یہ اہل خانہ اور قریبی لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے کے علاوہ پولیس اور کورٹ کا کیس بنتا ہے۔ ہر انسان کی پہلی پناہ گاہ اس کا گھر ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کے ہر اچھے برے حالات کا ذکر اہل خانہ سے کرتا ہے۔ اگر جس کا گھر نہیں ہے تو ریاست اس کا گھر تصور ہوتی ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ کوئی خاتون دفتر میں ہونے والے سلوک کا ذکر گھر والوں سے نہ کرے تو یہ دراصل جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ جبکہ متاثرہ خاتون کا دفتر میں ہونے والے واقعات کو اہل خانہ یا اپنے قریبی لوگوں سے چھپانے کا مطلب اس جرم کے مرتکب لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس فعل کی پشت پناہی کرنے والے لوگ دراصل دفتری رازی داری کے نام پر خواتین ایمپلائز پر زور دیتے ہیں کہ وہ کوئی بھی بات یہاں سے باہر حتی کہ اہل خانہ کو بھی نہ بتائیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور ہراسانی کو خفیہ طور پر صفائی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔
کام کی جگہ یا دفاتر میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک یا ہراسانی نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ملکی قوانین کی رو سے یہ جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ ان جرائم کا شکار ہونے والی خواتین کو چاہئے کہ وہ ایسے واقعات کو چھپانے کی بجائے اپنے اہل خانہ اور متعلقہ اداروں سے اس کی شکایت کریں تاکہ ان کا بروقت تدارک ہوسکے ۔اس ضمن میں اہل خانہ اور قریبی لوگوں کی مکمل سپورٹ حاصل کرنا سب سے اہم اور بنیادی کام ہے۔ اہل خانہ اور متاثرہ خاتون کے دفتر کے ساتھی اور قریبی لوگوں کو چاہئے کہ وہ کام کی جگہ پر امتیازی سلوک اور ہراسانی کے مرتکب ہونے والے افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے اس متاثرہ خواتین کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ اس عمل کے روک تھام میں مدد مل سکے۔
اس ضمن میں صوبوں میں وویمن پروٹیکشن سیلز، ایچ ار سی پی اور دیگر کئ ادارے شکایات سن کر قانونی چارہ جوئی کے لئے مشاروت بھی فراہم کرتے ہیں۔ خواتین کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ ان جرائم کے مرتکب افراد کا ایک طریقہ واردات ہے کہ وہ اپنی خواتین سٹاف پر پہلی فرصت میں یہ پابندی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے دفتری واقعات کا ذکر گھر میں نہ کریں۔ یہ باتیں چھپاکر دراصل اس عمل کے مرتکب افراد کی حوصلہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کام کی جگہ ہراساں ہونے والی خواتین کی داد رسی کرنا اور اس کے مرتکب فرد کو سزا دینا اس ادراے کے سربراہ کی اولین زمہ داری ہے اگر وہ سربراہ ایسے لوگوں کی پشت پناہی کر تا ہے تو اس سربراہ اور اس فعل کے مرتکب فرد دونوں کو فریق بنا کر عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ فرد اور ادارہ کے سربراہ دونوں کو سزا مل سکے۔ نیز ہر ادارہ میں ملکی قوانین کی رو سے جینڈر پالیسی بناکر اس پر عملدرآمد کرانا بھی ضروری ہے۔ بعض اداروں میں اس ضمن میں سخت پالیسیاں موجود ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے۔ کئ سرکاری اداروں کے علاوہ غیر سرکاری اداروں نے ایسے واقعات میں ملوث کئ لوگوں کو فارغ کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود کئ نامی گرامی سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس شرمناک جرم پر نہ صرف پردہ ڈالتے ہیں بلکہ متاثرہ خواتین پر الٹا دباو ڈالا جاتا ہے۔ اگر اس وقت کوئی ادارہ اس سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کے خلاف لیبر ڈیپارٹمنٹ میں شکایت کرنے کے علاوہ مقامی عدالت سے رجوع بھی کیا جاسکتا ہے۔
اگر کسی جگہ پر ایک سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں تو وہ ایک تنظیم یا گروپ بنا کر بھی ان واقعات کی روک تھام کے لئے کام کر سکتی ہیں۔ وہ آگاہی کے علاوہ مرتکب افراد کے خلاف چارہ جوئی میں بھی ایک دوسرے کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ ایسے واقعات کے خلاف جاندار آوز بلند کرنے کے لئے اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں۔ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملائیں اور پرزور آوز بلند کریں۔ قانونی مشاورت حاصل کریں، انسانی حقوق کے اداروں سے راہنمائی حاصل کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع پر ہی شٹ اپ کال دیں تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ ہراسانی پر مشتمل اشاروں، غلط الفاظ کا استعمال اور حرکتوں کے خلاف آواز بلند کریں اور دفتری اوقات میں خواتین کی موجودگی میں مناسب زبان کے استعمال کے لئے کوڈ آف کنڈیکٹ بناکر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ شکایت کرنے کے بدلے میں تنخواہ میں کٹوتی، تبادلہ، کام کا بے جا دباو ڈالنے، ترقی کو روکنے کے علاوہ ذہنی ازیت دینے کے لئے کوئی اور حرکت کرتا ہے تو وہ بھی ہراسانی میں ہی شمار ہوگا۔ اس پر بھی بھرپور آوز اٹھانی چاہئے۔
ہمارے ہاں لوگ اداروں کو ذاتی دکان یا باپ کی جاگیر سمجھ کر روایتی انداز میں چلاتے ہیں ایسے لوگوں کو قوانین کی آگاہی دینا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے ملکی قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں پڑی لکھی خواتین دفتروں کے گندے ماحول اور ہراسانی کے خوف یا ایسے واقعات کے قصے سننے کی وجہ سے کام کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ خواتین کی کام میں عدم شمولیت سے ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق خواتین کی عدم شمولیت کی موجودہ حالت برقرار رہی تو پاکستان اگلی کئ صدیوں تک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کے لئے ساز گار ماحول پیدا کر کے ان کو ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے کا موقع دیا جائے۔ صنفی بنیادوں پر ہونے والے امتیازی سلوک اور ہراسانی کے خلاف پاکستان میں بعض بہترین قوانین بھی موجود ہیں جن میں ہراسانی اور صنفی بنیادوں پر ہونے والےامتیازی سلوک کے مرتکب افراد کے لئے سخت سزائیں بھی تجویز کی گئ ہیں لیکن شعور و آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان قوانین پر عملدر آمد نہیں ہورہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی سطح پر ٹاسک فورس بناکر ان قوانین پر اطلاق کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں اور متاثرہ خواتین کو آگاہی دیکر ان واقعات کے خلاف آواز اٹھانے اور روکنے کی ترغیب دی جائے تاکہ ان جرائم میں ملوث افراد کو بے نقاب کر کے ان کو سزا دلائی جاسکے۔