عبوری شغل ٹھپ ہو گیا !
گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے حوالے سے بہت زیادہ نعرے لگائے گئے۔ الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے باقاعدہ طور پر اس عبوری ایجنڈے کو اپنے کمپین کا حصہ بنایا اور الیکشن کے بعد بھی خوب عبوری صوبے کے گیت گاتے رہے ۔ لیکن حقیقت کے سامنے ہر فریب ہر دھوکہ ہر وعدہ ہر نعرہ بے بس ہے کیونکہ حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں میں ۔ یعنی وہ تمام باتیں تقریریں ٫ چیخیں نعرے ٫ سب ڈھیر ثابت ہوگئیں اور عوام کو چکمہ دیکر ووٹ چرانے کے لئے محض ایک تماشا ہی تھا ۔
وزیراعظم عمران خان سے لیکر خالد خورشید تک یہاں تک کہ سب کہہ رہے تھے کہ ہم عبوری صوبہ بنائینگے اس لئے انہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی سے جلدبازی میں ایک قرارداد بھی منظور کرائی جس میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی بھی اشیرباد شامل تھی ۔
اسی طرح وہ قرارداد بھی ماضی کے خطوط اور سفارشات کی طرح منظر عام سے غائب ہوگئ ۔ کیونکہ اس موضوع پر نیشنل اسمبلی میں بحث ہونا لازمی تھا اور پھر سینٹ میں بحث اور خارجہ پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے قراردادوں کے پیش نظر عبوری صوبے کے لئے بات کرنا آسان نہیں ہوا کیونکہ ظاہر ہے پاکستان نے یونائینٹڈ نیشن کی قرارداد پر دستخط یہ کہہ کر کیا ہے کہ شمالی علاقہ بھی ریاست جمو کشمیر کا حصہ ہے ۔ اور معاہدہ کراچی کا مطلب بھی یہی ہے کہ جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات کو پاکستان چلائے گا ۔ ان تمام حقائق کو پس پردہ ڈال کر جی بی کو صوبہ بنانا اقوام متحدہ میں اپنے ہی موقف کی نفی کرنے کے مترادف ہوگی اور مسلہ کشمیر بری طرح متاثر ہوگی ۔ ایسے متنازعہ حالات میں کیسے آپ عبوری صوبہ بناسکتے ہو ؟
بہر حال ان تمام تر سیاسی اتارچڑھاو کے بعد اب عبوری صوبے کی کہانی یاد ماضی کا حصہ بن گیا اور تمام ہوگئی ۔ کیونکہ گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کی جانب سے جی بی کونسل کے انتخابات کے لئے اعلامیہ جاری ہوگیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آنے والے پانچ سال کے لئےعبوری صوبے کی کہانی ختم ہوگئ اور جی بی کونسل کو ہی فعال کیا جائے گا ۔ اگر عبوری صوبہ سچ میں بنتا تو پھر جی بی کونسل کے انتخابات کبھی بھی نہیں ہوتے کیونکہ صوبہ بننے کے بعد تمام تر معاملات دیگر صوبوں کی طرح ہوتی ہے قومی اسمبلی اور ایوان بالا میں جب نمائیدگی ہوگی تو پھر جی بی کونسل کی کوئ ضرورت نہیں رہتی ۔
جب جی بی اسمبلی سے قرارداد منظور ہوئ تھی تب جی بی میں مجھ سمیت بہت کم لوگوں نے یہ اطمینان سے کہا تھا کہ عبوری صوبہ بن ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ بہت زیادہ سیاسی طور پر پیچیدہ مسلہ ہے ۔ اور جی بی اسمبلی میں نواز خان ناجی کے علاوہ باقی تمام ممبران اسمبلی نے بھی اس قرارداد کے حق میں دستخط کئے تھے لیکن ناجی صاحاب نے اسی وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبوری صوبہ بننا نہ صرف مشکل ہےبلکہ ناممکن ہے کیونکہ مسلہ کشمیر اس طرح آسان ہوتا تو ستر سال پہلے حل ہوچکا ہوتا ۔
یعنی گلگت بلتستان عبوری صوبہ نہیں بن سکتا ہے بات یہاں ختم ہے ۔۔۔ ! ہاں اب ہمیں دوسرے آپشن کی طرف آنا چائیے جو ممکن بھی ہے اور ملکی سالمیت کے لئے بہتر بھی ۔ وہ یہ کہ جی بی کو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک کشمیر طرز سیٹ اپ جی بی کے لئے سب سے اچھا اور آئیڈیل سیاسی نقشہ ہے ۔ ریاست پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان کو چایہئے کہ وہ اب سنجیدہ طور پر آزاد کشمیر طرز حکومت کے لئے حکمت عملی بنائے اور عوامی الجھنوں کو دور کرے ۔ کیونکہ اب عبوری صوبہ والی چیپٹر کلوز ہوچکی ہے اور عبوری شغل ٹھپ ہوگئی