کالمز

دماغ کی یخنی ….. دومنٹ میں

تحریر: عافیت نظر 

"دو منٹ میں آپ کی جان جاتی ہے کیا؟”

"کوئی ایمرجنسی ہے آپکو؟ "

یہ وہ جملے ہیں جو اکثر غلط سائیڈ پر گاڑی چلا کر یا غلط پارک کر کے ٹریفک کو جام کرنے والے ڈرائیوروں سے کہیں نہ کہیں آپ نے سنا ہوگا۔

دومنٹ کیا چیز ہے، ہمیں ایک دن بھی اگر کسی کو انتظار کروانا پڑے تو ہم انہیں انتظار کروا کر ہی دم لیں گے۔ کیونکہ ہمارے پاس وقت کی کمی نہیں۔ اگرآپ وقت کو ضائع کریں گے تو وقت آپ کو ضائع کرے گا، انگریزوں کی خرافات ہیں۔ اور ہمیں ویسے بھی ایسے باتوں سے کیا لینا دینا۔

رہ چلتے چلتے ہم کہیں بھی گاڑی روک سکتے ہیں کیونکہ راستہ ہمارے باپ دادا کا ہے۔ چونکہ ہم روز کہیں نہ کہیں اپنے نمازکے دوران یا کسی کام کے آغاز میں سورۃ العصر کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ جس میں اللہ تعالٰی نے وقت کی قسم کھائی ہے۔ اس لیے جب ہم سورہ عصر کی تلاوت کرتے ہیں۔ تو ثواب تو ویسے بھی ہمیں مل جاتا ہے۔ اس لیے اگر ہماری وجہ سے کوئی بیمار یا ایمرجنسی میں کہیں جانے والوں کا راستہ  بلاک ہوجائے تو کیا۔ ہمارے پاس وقت کی کمی نہیں۔ اس لیے ہمیشہ یہی کوشش ہونی چاہیے کہ جتنا ہوسکے راستوں میں رکاوٹیں پیدا کی جائے تو اتنا ہی زیادہ ثواب ہمیں ملے گا۔

رکاوٹ سے بات یاد آئی، میں نے اس سے متعلق کچھ واقعات دیکھے اور میں حلفاً ان واقعات کو قارین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں

 ۔ پہلا واقعہ: میں نے ایک شخص کو کسی دوسرے کے مکان سے متصل روڑ کے اُوپر سے جہاں ٹریفک جام ہوکر رہ جاتی ہے، مٹی اور پتھر کے ملبہ سے بننے والی رکاوٹیں ہٹا تے دیکھا۔  مالک مکان نے اُس رکاوٹ ہٹانے والے شخص سے کہا کہ یہاں فلان صاحب کا گھر ہے، یہ رکاوٹیں اُنھوں نے خود کھڑی  کیے ہیں۔ تاکہ ایکسیڈنٹس کو روکا جا سکیں۔ رکاوٹ ہٹانے والا شخص ہکا بکا رہ گیا۔ اور اپنے سامان سمیٹ کر وہاں سے چل دیئے۔ رکاوٹ آج بھی وہیں موجود ہے۔

دوسرا واقعہ: روڑ کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد شاید ٹھیکیدار کا بجٹ ختم ہوا اور انھوں نے وہ ملبہ روڑ کے اُوپر ہی چھوڑ دیا۔ میری گزر اس روڑ سے ہوئی۔ وہاں پر ایک شخص نے ایک دکاندار سے التجا کیا کہ یہ ملبہ یہاں سے ملکر ہٹاتے ہیں۔ اس پر وہ دکاندار بولا رکاوٹیں ہٹانے سے ایکسیڈنٹ ہونگے۔ وہ شخص منہ میں انگلی دبائیے وہاں سے چل دیا۔ مٹی اور پتھر کا ملبہ آج بھی وہیں موجود ہے۔

تیسرا واقعہ:  نوید شہید روڑ گلگت سے یونیورسٹی کی جانب موڑ پرجہاں ٹریفک کا بڑا رش رہتا ہے، میں نے ایک شخص کو دیکھا جوچوک کے عین درمیان سے ٹریکٹر اور دوسری گاڑیوں سے گرنے والے بجری کے ملبہ کو ہٹا رہا تھا، اتنے میں اسی محلے کے ایک شخص نے روڑ کے بیچ سے ملبہ ہٹانے پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر یہ کہہ کر کی کہ ملبہ ہٹانے سے ایکسیڈنٹ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

چوتھا واقعہ: ایک دفعہ ہم بمعہ فیملی کسی مصروف بازار سے گزر رہے تھے۔ ہمارے سامنے روڑ کے بالکل بیچوں بیچ ایک کار والا اپنے آشنا دکاندار ، جو روڑ کے دوسرے جانب اپنے دکان میں بیٹھا ہوا تھا، کے ساتھ کسی ٖضروری میٹنگ میں مصروف تھا۔ میر ے لیے آگے جانے کا راستہ بند تھا ہارن دینے پر بھی جب وہ ٹھس سے مس نہ ہوا تو چار و ناچار رانگ سائیڈ سے گاڑی آگے کی جانب لے جاتے ہوئے اس صاحب سے جو بظاہر پڑھا لکھا لگ رہا تھا، سے میں نے نہایت ہی با ادب انداز میں سوال کیا کہ کیا آپ اپنے گاڑی کو سائیڈ پر روک کر بات کرسکتے ہیں؟ اس شخص کا جواب دلچسپ تھا۔

 اُس نے مجھ سے غصہ بھرے لہجے میں کہا:  "جاو، جاو،  دماغ کا یخنی مت بناو۔”

پانچواں واقعہ: کسی مصروف بازار میں روڑ کے بیچوں بیچ ایک لمباتڑنگا آدمی ایک کار کے پاس کھڑا تھا۔ میں نے قریب جاکر اس شخص سے  نہایت ہی مودبانہ انداز میں پوچھا: جناب کیا یہ گاڑی آپ کی ہے؟ اُ س شخص نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے اس شخص سے کہا ماشا اللہ آپ بہت خوبصورت اور سمارٹ ہو لیکن سائیڈ پر جگہ ہو نے کے باوجود گاڑی کو روڑ کے بیچوں بیچ روکنا آپ کی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس شخص نے بڑے اطمینان سے جواب دیا بس دومنٹ کی بات ہے، سامان رکھ کر چلا جاوں گا۔ میں نے اس شخص سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حادثہ ایک لمحے میں بھی ہوسکتی ہے۔

 اس پر اس شخص نے کہا: سوری میں خود پولیس میں ہوں۔

میرا ہرگزاس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد پولیس والوں کا مذاق اُڑانا نہیں۔ بلکہ پولیس والے تو سب سے مجبور محکمہ لگتا ہے۔ مثلاً پولیس والے سخت دھوپ اور سردیوں میں ٹریفک کے نظام کو درست رکھنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اور جب غلط ڈرائیونگ پر کسی سرکاری گاڑی چلانے والے کو چالان کی کوشش کرتے ہیں تو گاڑی چلانے والے کسی سیکریٹری، ڈائیریکٹر یا ڈی سی، اے سی یا ان کے گھر والے افراد چلا رہے ہوتے ہیں۔  جو پولیس والوں کو ڈرا دھمکا کراپنی من مانی کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔

کل ہی کہ بات ہے ایک سیکریٹری سے سرِ راہ میں نے دریافت کیا کہ ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد ہونے میں کیا چیز مانع ہیں؟ اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟ موصوف فرما نے لگے یہ پولیس والوں کا کام ہے۔ لیکن جب میں نے اس سے پوچھا کہ ڈی سی سیکریٹری اور دوسرے سرکاری عہدہدارکیوں ٹریفک کے قوانین کی دھجیان آڑاتے ہیں تو ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔

مجھے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ملبہ روڑ پر پھیلانے سے ایکسیڈنٹس کس طرح رُک جاتے ہیں؟  ہوسکتا ہے کہ واقعتاً روڑ پر ملبہ یا رکاوٹیں پھیلانے  سے اور ٹریفک کے قوانین کے خلاف ورزیاں کرنے سے ایکسیڈنٹ کم ہوتے ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرکاری محکمہ کے لوگ ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد سے گریزان ہوں۔

بظاہر حکومت گلگت بلتستان نے ٹریکٹر اور دوسری گاڑیوں میں بھر کر  بجری گلگت کے اندر لانے والوں کی یہ ذمہ داری لگائی ہو کہ راستہ کو محفوظ اور ایکسیڈنٹس سے بچانے کی خاطر جتنا ہوسکے بجری روڑپر پھیلایا جائے۔ اور شکرہے کہ ہر شاہراہ پر  بجری  تھوڑی تھوڑی مقدار موجود ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جگہ روڑ پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، تاکہ  شہر کا شہر ایکسیڈنٹ سے محفوظ رہے۔ اور خصوصاً روڑ پر بجری پھیلانے اور رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے قانوں سازی کی ضرورت ہےتاکہ ہر گلی محلے والے روڑ پر رکاوٹیں پھیلا کراس کارخیر کا ثواب حاصل کر سکیں۔

عافیت نظر ایک محقق اور لکھاری ہیں ان کے کالم انگریزی اخبارات ڈیلی ڈان، ڈیلی ٹائمز اور فرنٹیرپوسٹ، ہم سب کے علاوہ دوسرے اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button