کالمز

عوامی نمائندگی کی لاج یا دمادم مست قلندر۔۔۔۔

تحریر: صفدر علی صفدر

ضلع غذر میں جب بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ اے ڈی پی میں ریفلیکٹ ہوجاتا ہے یا کسی منصوبے کا ٹینڈر جاری ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر ہر طرف شور برپا ہوتا ہے کہ یہ "ڈپارٹمنٹل سکیم” ہے۔ اس کی منظوری میں کسی سیاستدان کا کوئی کردار نہیں۔ پھر اوپر سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو فلاں بندے کی سفارش پر فلاں صاحب نے رکھوایا۔ اس منصوبے پر سیاست سے گریز کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

پچھلے دنوں ڈپٹی اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی محترم نذیر ایڈووکیٹ صاحب کو اپنے چیمبر میں دفتری امور میں مگن دیکھ کر رہا نہ گیا۔ وجہ مشغولیت جاننے پر بتانے لگے کہ وہ آمادہ اے ڈی پی کے لئے سکیمیں فائنل کررہے ہیں۔

 میں نے استفسار کیا "سر یہ سکیمیں رکھنے کی ذمہ داری عوامی نمائندے کی ہے یا ڈپارٹمنٹس کی؟” ڈپٹی اسپیکر صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ کام تو نمائندے کا ہی ہے۔ جب نمائندہ نااہل ہو تو پھر ڈپارٹمنٹل والے ہی حرکت میں آ جائیں گے اور کیا ہوگا۔

 پھر بولے "میرے حلقے میں اس دفعہ کوئی ڈپارٹمنٹ والا اپنی مرضی کی سکیم رکھ کر دکھائے ناں۔ اس بار وہی سکیمیں اے ڈی پی میں ریفلیکٹ ہونگیں جو میں تجویز کروں گا۔”

آج ممبر گلگت بلتستان اسمبلی محترم نواز خان ناجی صاحب کے منہ سے بھی یہی الفاظ سننے کو ملے کہ "یہ ڈپارٹمنٹل سکیمیں ان افسروں کے باپ کی نہیں۔”

مطلب صاف ظاہر تھا کہ اصل عوامی مسائل کا ادراک عوامی نمائندے کو ہی ہوتا ہے۔ ان مسائل کی نشاندھی اور ان کے حل کے لئے تجاویز بھی انہی لوگوں کے انتخابی منشور کا حصہ ہوتا ہے۔

چنانچہ جیتنے کے بعد ترقیاتی منصوبوں کی تجویز بھی عوامی نمائندوں کا استحقاق ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہاں کی اسمبلی سے منظور شدہ قوانین تو ویسے بھی ردی کی ٹوکری ہیں۔ تو ایسے میں سکیموں کا اختیار بھی ان سے چھین کر ڈپارٹمنٹس کے سپرد کریں تو یہ لوگ آخر کہاں جائیں گے، کیا کام کریں گے؟

گزارش بس اتنی سی کہ عوامی نمائندے عوامی ضروریات کے تحت سکیمیں تجویز کریں اور ڈپارٹمنٹ والے بحیثیت عوامی نوکر ان سکیموں پر عملدرآمد کے لئے اقدامات اٹھائے۔ عوامی نمائندے ان منصوبوں پر کام کی مانیٹرنگ کریں، فالو اپ لے لیں۔ کام میں سست روی پر ذمہ دار حکام سے بازپرس کریں، معیاری اور بروقت کام کو یقینی بنانے والے افسران کو شاباش دیں۔

ہاں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ان سکیموں کے ٹینڈر میں بھی عوامی نمائندے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ کوئی نمائندہ ٹھیکہ دار کے روپ میں پی ڈبلیو ڈی کے دفاتر کے طواف سے باز رہے۔

 کسی بھائی، کزن، چچا، ماما یا کسی خفیہ بزنس پارٹنر کو خلاف قانون ٹھیکہ دلانے کی کوشش سے گریز کیا جائے اور غیر قانونی کام کے مرتکب افسران کے خلاف کاروائی میں دیر نہ کیا جائے۔

 اگرچہ اس طرح کی نمائندگی ہر سیاستدان کے بس کی بات نہیں۔ مگر بعض نمائندوں سے اس قدر ناامیدی بھی تو نہیں۔ لیجئے نواز خان ناجی صاحب کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔

شیرقلعہ میں ایک ترقیاتی منصوبے پر کام جاری تھا۔ ایکسین صاحب کام کا جائزہ لینے پہنچ گئے تو اتفاقاً ناجی صاحب بھی موقع پر موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ منصوبے کا ٹھیکہ دار ناجی صاحب کے ماموں ہیں۔

ٹھیکہ دار نے منصوبے سے متعلق رسمی بریفننگ دی۔ ایکسین صاحب نے بھی جوابی گفت و شنید کی۔

اختتامی کلمات کے لئےناجی صاحب کو دعوت دی گئی تو کہنے لگےکہ جناب مجھے ابھی یہ معلوم ہوا کہ اس منصوبے کا ٹھیکہ میرے ماموں کے سپرد ہے۔ چنانچہ میں آپ سے ان کی کوئی سفارش قطعاً نہیں کر رہا۔

گزارش یہی ہے کہ کام کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے اور پے منٹ وغیرہ میں ان کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا جائے جو دیگر ٹھیکہ داروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ رشتے کی بنیاد پر انہیں کوئی ایکسٹرا فیور ہرگز نہ دیا جائے۔

یہی طرزِ عمل محترم نذیر ایڈووکیٹ کا بھی ہے۔ وہ علاقے اور عوامی مفاد عامہ کے کاموں پر کوئی سمجھوتا کرتے ہیں نہ کسی غیر قانونی کام کا تقاضا ان کا شیوہ ہے۔ عوام اور علاقائی مفاد کے کاموں کے سلسلے میں متعلقہ حکام کو اپنے دفتر بلا کر بریفننگ لیتے ہیں۔

کسی چوکیدار/چپڑاسی کی سفارشی فائلیں بغل میں دبا کر بیوروکریسی کے دفاتر کی خاک چھاننے کی سیاست سے عاری ہیں۔ کسی مستحق کا حق مارنے اور کسی بااثر کو ناجائز حق دلانے کی کبھی کوشش نہیں کرتے ہیں۔

انہی صفات کے حامل سیاستدانوں کی خواہش صرف یہی ہوتی کہ معاشرے میں میرٹ، عدل اور قانون و انصاف کا بول بالا ہو۔ ہر گھر میں اجالا ہو۔

باوجود اس کے انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہو تو پھر دھرتی ماں اور قوم کی خاطر دمادم مست قلندر۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button