گلگت کے آخری بُدھ حکمران شری بدت کی کہانی
تحریر و تحقیق: اشفاق احمد ایڈوکیٹ
شری بدت گلگت کا آخری مقامی بدھ مت بادشاہ تھا عام طور پر اس سے آدم خور بادشاہ بھی کہا جاتا ہے جس کا اصلی نام چندر شری دیوا وکرمادتیہ تھا.
بقول پروفیسر احمد حسن دانی گلگت کے حکمران کی آخری معلوم تاریخ نوشتہ جات کے مطابق 749 صدی عیسوی ہے جس کی تصدیق ہنزہ راک شلالیھ ( ہنزہ کے مقدس چٹانوں ہلڈکوش) کے نوشتہ سے ہوتی ہے.
گلگت کے لیجنڈ بادشاہ ، شری بدت کا دور حکومت 749 صدی عیسوی کا ہے شری بدت گلگت کا ایک حکمران شہزادہ تھا اور اس کی حکومت ہنزہ نگر چلاس داریل, ہراموش, استور گریز, پونیال , یاسین غذر اور چترال تک پھیلی ہوئی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کئی علاقوں پر مختلف گورنرز حکومت کرتے تھے.
صدیاں گزرنے کے باوجود شری بدت کی کہانی آج بھی زندہ ہے مگر یہ حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتی ہے لیکن اساطیری یا فسانہ سمجھی جانے والی ان کہانیوں کا مطالعہ کرنا لازمی ہے جن پر نہ صرف خواندگی سے قبل کے لوگ یقین رکھتے تھے بلکہ آج بھی گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے لوگ شری بدت سے منسوب آدم خوری کی کہانی کو بنا تحقیق کےسچ مانتے ہیں چونکہ ان نوجوانوں نے اپنے دادا دادی سے شری بدت کی کہانیاں سنی تھی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آبا و اجداد سے سنی ہوئی ہر کہانی سچی ہو.
زمانہ قدیم سے ہی جیومائتھولوجیکل کہانیوں کا اظہار شاعرانہ استعاروں اور فسانوں یا مافوق الفطری تصورات میں ہوا ہے – جیومائتھولوجی میں فروغ کے باوجود اسے اب بھی کچھ ماہرین تعلیم ‘چھلکے’ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حقیقت میں انسانیت کی قدیم روایات اور کہانیوں میں بہت سی معلومات موجود ہیں مگر یہ ایک المیہ ہے کہ بیرونی استبدادی دور میں اس خطے کی تاریخ غلامی کے اندھیروں میں گم ہو گئی ہے لیکن پھر بھی کچھ تاریخی حقایق افسانوں کی شکل میں آج بھی موجود ہیں اور ان میں سے بدھ مت دور کا ایک مشہور افسانہ شری بدت کا ہے.
کرنل شمبرگ کے بقول” شری بدت آخری حکمران (گلگت) نے ہندو ہونے کا اعزاز شری بدت کے نام سے حاصل کیا تھا وہ ایک حقیقی شخص تھا لیکن اپنی نام نہاد نسبت بندی کی وجہ سے وہ افسانوی بن گیا ہے”.
گلگت میں مقیم برطانوی پولیٹیکل ایجنٹوں کے جانشینوں میں پہلا شخص میجر جان بڈولف تھا ، جس نے قبائل ہندو کش, نامی کتاب شائع کیا جس میں انہوں نے زور دے کر کہا:
"شری بدت کے سپرد کردہ مافوق الفطرت صفات کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے کہ شری بدت ایک حقیقی شخصیت تھے۔ شری کی اصطلاح کے بارے میں بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندو شہزادوں کو بھی عزت کے طور پر شری کا لقب دیا جاتا ہے”.
شری بدت نام کی نسبت سے کچھ محققین کا خیال ہے کہ شری بدت ہندو تھا لیکن یہ دلیل جدید زہن کو زیادہ قائل نہیں کرتی ہے.
بقول کارل جٹیمار 4th صدی عیسوی کے دوران اس خطے میں بڑی تعداد میں بودھی خانقاہوں اور سٹوپاز کی تعمیر کی گئی اور اہستہ اہستہ گلگت بدھ مت کی ایک اہم نشست بن گیا۔ اس وقت گلگت بلتستان کے بلور حکمران بدھ مت کے پیروکار تھے اور اس زمانے میں لوگ بھی بدھ مذہب کے ہی پیروکار تھے اس طرح گلگت بدھ مت اور بدھ بھکشوؤں کا مرکز بن گیا۔
نپورہ بسین گلگت میں واقع بدھا کا مجسمہ, ہنزل کا سٹوپا , گلگت کی قدیم بدھ مت لائبریری سمیت گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بدھ مت کے انمٹ نشانات اور باقیات اس دلیل کی تصدیق کرتے ہیں.
گلگت کے لیجنڈ حکمران شری بدت کی کہانی کے متعلق گلگت بلتستان میں مختلف طرح کی روایت پائی جاتی ہیں جنھیں زیادہ تر مغربی محقیقن اور مہم جووں نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے جن میں ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر, کیپٹن ایچ سی مارش ,جان کلارک , میجر جان بڈولف,کرنل ریجینالڈ شمبرگ,کرنل ڈیوڈ لوریمر,افسر ایچ ایل ہیٹن اور کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے شری بدت پر پی PhD کرنے والے سکالر John Mock کے علاوہ منشی غلام محمد اور پروفیسر احمد حسن دانی بھی شامل ہیں.
گلگت میں برٹش پولیٹیکل آفس کے چیف کلرک منشی غلام محمد نے ، تاریخی شناخت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے شری بدت کی کہانی کا ایک ورژن "تاریخی لوک داستان گلگت بلتستان” کے نام سے شائع کیا ہے.
غلام محمد شری بدت کے متعلق ایک دلچسپ اور سادہ کہانی پیش کرتا ہے جس کے مطابق شری بدت کا قلعہ گلگت پولو گراؤنڈ سے قریب 200 گز مشرق میں واقع تھا۔
شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے آذر جمشید کے ساتھ مل کر اس سے مارنے کی سازش کی تھی. ماہ نومبر میں ایک رات اس کے محل کو دشمنوں نے گھیر لیا اور قلعے کے چاروں طرف بڑی آگ لگانے میں کامیاب ہوگئے چنانچہ شری بدت کے پاس اپنی سازشی بیٹی کو سزا دینے کے لئے وقت نہیں تھا۔ اس لئے وہ فورا ہی ہوا میں کود پڑا اور وادی اشکومن میں واقع چھٹورکھنڈ کی طرف ہوا میں اڑتا ہوا گیا چونکہ وہ جادوئی طاقت کا مالک تھا.
کہا جاتا ہے کہ اس نے یش پور (گلگت سے 12 میل مغرب کے قریب ویران گاؤں) میں آرام کیا ، جہاں اس نے کسی سے درخواست کی کہ وہ اس کے لیے ایک گلاس ٹھنڈا پانی لے کر آئے۔ اس گاؤں میں انگور کی بھرپور پیداوار ہوتی تھی ، اور وہاں کے باشندے ان سے شراب بناتے تھے۔ وہاں موجود شخص نے شری بدت کے پاس شراب کا پیالہ لایا ، جس نے غصے سے یہ کہتے ہوئے پینے سےانکار کردیا کہ وہ آگ سے بچنے کے بعد وہاں آیا ہے جس نے اس کی جان کو بہت نقصان پہنچا تھا چنانچہ اس نے شراب نہیں بلکہ ٹھنڈا پانی مانگا تھا۔
لیکن کسی نے بھی اسے پانی نہیں پہنچایا، اور اس طرح اس گاؤں کے لوگوں کے سلوک سے سخت ناخوش ہونے کے بعد اس نے اس جگہ پر لعنت بھیج دی کہ یہ بالکل تباہ و برباد ہوجائے گا تاکہ دوبارہ وہاں انگور پیدا نہ ہوں۔ اگلے سال یہ ہوا کہ گلیشیر جس سے گاؤں کے لئے پانی کی فراہمی ہوتی تھی وہ پگھل گیا اور اس کے بعد وہ گاؤں ہمیشہ کے لئے تباہ ہوا۔ یش پور گاؤں سے شری بدت وادی اشکومن چٹورکھنڈ گئے اور خود کو وہاں ایک بڑے گلیشیر کے نیچے چھپا لیا ، جہاں ابھی بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ان کا ٹھکانہ ہے۔
بقول غلام محمد ” لوگوں کا پختہ یقین ہے کہ وہ ایک دن گلگت میں دوبارہ حاضر ہوں گے اور وہ ان پر دوبارہ حکمرانی کی تجدید کریں گے۔ اس کی بادشاہی دوبارہ بحال ہونے کی ڈر کی وجہ سے لوگ ہر سال نومبر میں شری بدت کی حکومت کے خاتمے کی سالگرہ پوری رات اپنے گھروں میں بڑی آگ جلانے کے عادی ہوۓ ہیں تاکہ اگر اس کا سفر بدستور جاری رہا تو اپنے بھوت کو دور رکھیں۔
اس رات کوئی بھی سونے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ بڑی آگ پر رقص اور گانے گاتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔ لیکن شری بدت کے باورچی خانے کے ملازم کا ایک خاندان موجود ہے اور گلگت میں رہائش پذیر یہ واحد خاندان ہے جو شری بدت کے خیر خواہ ہے جو اس تقریب میں حصہ نہیں لیتے ہیں کیوں کہ وہ اب بھی اپنے آقا کے ساتھ وفادار ہیں، اور ان کو یقین ہے کہ وہ خود ہی لوٹ آئے گا”.
دوسری طرف ایک اور مقامی روایت کے مطابق شری بدت نے اپنی سازشی بیٹی کو ایک لوہے کے قلعے میں بند کردیا تھا چونکہ اس نے اپنے منہ بولے باپ جو شری بدت کا وزیر تھا کے ساتھ مل کر اپنے باپ سے غداری کیا تھا.
کہا جاتا ہے کہ اپنی جادوئی طاقت کی وجہ سے شری بدت کی زندگی کا راز کسی کو نہیں معلوم تھا لیکن آذر جمشید کی محبت میں گرفتار ہو کے شری بدت کی بیٹی نے یہ راز اپنے آشنا آذر جمشد کو بتایا دیا کہ اس کا باپ صرف آگ سے مر سکتا ہے چنانچہ آزد جمشید نے لوگوں کو شری بدت کے خلاف اکسایا اور منصوبہ بندی کرکے شری بدت کے محل کے چاروں اطراف آگ لگا دی.
دریا گلگت پل روڑ کے قریب واقع ایگورتھم بولڈر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں شری بدت نے ایک لوہے کا قلعہ بنوایا تھا. اگورتھم کو شری بدات کے نام سے بھی جانا جاتا ہے روایتی تاریخ کے مطابق ، اس نے اپنی بیٹی Miyokhay کو لوہے کے اس قلعے میں بند کردیا تھا جو اس نے ان پتھروں پر بنایا تھا جو آج بھی دریائے گلگت کے وسط میں نظر آتے ہیں ، کیوں کہ اس نے آذر جمشید کے ساتھ مل ملاپ سے اس کی حکومت گرانے کے لئے سازش کی تھی۔ یہ بولڈر آج اب بھی مقامی طور پر اگورتھم گیری (پتھر) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
برٹش راج کے دوران گلگت ایجنسی میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ میجر جان بڈولف اپنی کتاب Tribes Of The Hindoo Kush کے صحفہ نمبر 134 میں ڈاکٹر Leitner کا حوالہ دیتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ "انہوں نے گلگت کے تاریخی لیجنڈ نامی کہانی میں شری بدت کے بارے میں لکھا ہے کہ مقامی طور پر شری بدت کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں جو زیادہ تر کہانیوں پر مشتمل ہیں لیکن سبھی تاریخی خاکوں میں تقریبا یکسانیت پائی جاتی ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ ان کہانیوں میں اپنی طرف سے مافوق الفطرف باتیں شامل کی گئی ہیں – شری بدت کی زات کے ساتھ منسوب مافوق الفطرف کہانیوں کے برعکس اس میں کوئی شک نہیں کہ شری بدت حقیقت میں ایک انسان تھا”.
ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر ، 1866 میں ، پہلا یورپی تھا جس نے شری بدت کی کہانی ریکارڈ کی تھی جس سے انہوں نے 1877 میں "تاریخی افسانوی تاریخ برائے گلگت” کے نام سے شائع کیا ۔ انہوں نے شری بدت کی کہانی کو حقیقت اور افسانے کا امتزاج قرار دیا ہے.
ڈاکٹر لیٹنر اپنی کتاب دردستان کے صفحہ نمبر 9 تا 16 میں شری بدت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقامی روایات کے مطابق شری بدت بری روحوں کی اولاد تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب دردستان میں اس قاتل شہزادہ کا نام آذر جمشید کے بجائے آذر شمشیر لکھا ہے جس نے شری بدت کی بیٹی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اس کے ذریعۂ شری بدت کی لافانی زندگی کا راز معلوم کیا کہ اس کی” روح برف کی ہے” اور اس کی زندگی صرف آگ سے ہی ختم ہو سکتی ہے.
روایت ہے کہ شری بدت گلگت میں ایک محل میں مقیم تھا ،اس کے ذوق موزوں تھے -اس کے محل کے سامنے ساتھ ایک پولو گراونڈ تھا اور وہ پولو کھیل کا دلدادہ تھا مگر اس کے ہر عمل سے اس کی منحرف شخصیت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کا ملک زرخیز تھا- دارالحکومت کے چاروں طرف دلکش اور پرکشش باغات تھے۔ مگر وہ بادشاہ آدم خور تھا اس آدم خوری کی ابتدا ایک حادثہ کی وجہ سے ہوئی تھی.
کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی رعایا سے روزانہ خراج میں ایک بھیڑ لینے کی عادت تھی۔ ایک دن ، جب وہ کھانا کھا رہا تھا ، اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ گوشت پہلے سے زیادہ سوادج تھا۔ اس نے اپنے کولن (باورچی خانے کے دروغہ) کو حکم دیا کہ بھیڑیں کہاں سے لائی گئیں۔ چھان بین کے بعد اس کے دروغہ نے بتایا کہ اسے یہ بھیڑ گلگت میں برمس گاؤں کی ایک عورت سے ملی ہے۔ بادشاہ نے اس عورت کو شاہی دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ وہ عورت جو اچانک اس بلاوۓ کی وجہ نہیں جانتی تھی بادشاہ کے کے سامنے لاۓ جانے سے وہ بہت خوفزدہ تھی ، جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ دربار پہنچی تو وہ شری بدت کے سوالات سن کر پرسکون ہوگئی اور خوشی سے جواب دیا: "اے گلگت کے عظیم بادشاہ ، تجھ پر سلامتی رہے!
میرا بچہ اور یہ بھیڑ ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے میرا بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد وفات پا گیا تھا اور اس بھیڑ کی ماں اس کے پیدائش کےکچھ ہی دن بعد فوت ہوگئی تھی۔ پیدائشی طور پر بھیڑ کے بہت خوبصورت ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بہت تعریف کی تھی۔ بھیڑ کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے بیٹے ایوے کو بھی کھویا تھا چنانچہ میں نے اپنا غم مٹانے کے لئے اس بھیڑ کے بچے کو اپنا ہی دودھ پلایا جب تک کہ وہ چر نہ سکے ، کچھ دن پہلے اسی بھیڑ کے بچے کو آپ کی عظمت کے سامنے پیش کیا گیا۔ ” یہ کہانی سن کر شری بدت بہت خوش ہوئے ، اور خاتون کو بڑا انعام دیا اور اسے واپس جانے دیا۔ تنہا بیٹھے ہوئے ، اس نے گوشت کی چکھنے کی وجہ پر سوچنا شروع کیا۔
اس نے استدلال کیا کہ جب ایک بھیڑ کے گوشت جس نے تھوڑی دیر کے لئے صرف انسانی چھاتی کو چوس لیا ہو ، اس کا ذائقہ اتنا عمدہ ہوتا ہے ، تو انسان کا گوشت جو ہمیشہ ہی انسانی دودھ سے پرورش پاتا ہے یہ جانور کے گوشت سے بہتر ہوگا۔ اس نتیجے پر پہنچ کر ، انہوں نے یہ احکامات دیئے کہ بھیڑوں کے بجائے مستقبل میں انسانی بچوں کا ٹیکس عائد کیا جائے ، اور ان کے گوشت کو ہمیشہ اس کے رات کے کھانے میں پیش کیا جائے۔ اس طرح وہ انسانی گوشت کھانے لگا.”
جب یہ ظالمانہ حکم صادر کیا گیا تو اس سے ملک کے لوگ اس طرح کی حالت پر مایوس ہوگئے ، اور قربانی دے کر اس میں بہتری لانے کی کوشش کی ، بادشاہ کی حکم کی تعمیل میں پہل پہلے تو یتیموں اور پڑوسی قبائل کے بچے اس کے خوراک بن گئے ! اہستہ اہستہ سب کی باری آنے لگی اور جلد ہی اس کی ظلمت گلگت کے بہت سے خاندانوں نے محسوس کی ، جو اپنے بچوں کو ذبح کرنے کے لئے ترک کرنے پر مجبور ہوۓ تھے اور عوام اس کے ظلم سے سخت ناخوش تھے-
مقامی لوگ اس بادشاہ کے خلاف کچھ اثر نہیں ڈال سکتے تھے چونکہ اس کو جادوئی امداد حاصل تھی. آخر کار ان کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے امداد ائی جس پر چڑھنے میں ایک دن لگتا ہے ، اور یہ امداد دریا کے کنارے گلگت کے نیچے ، دیور(دنیور) نامی گاؤں کے اوپر پہاڈ پر نمودار ہوئی ، جس میں تین شخصیات نظر آئیں۔ وہ مردوں کی طرح نظر آتے تھے ، لیکن زیادہ مضبوط اور خوبصورت تھے۔ انہوں نے اپنے بازوؤں میں دخش اور تیر اٹھائے ہوئے تھے وہ تینوں پری زاد تھے.
بقول ڈاکٹر لیٹنر آذر شمشیر نے شری بدت کی بیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پری زات ہے یہ سن کر وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اپنے باپ کی لافانی زندگی کا راز آذر شمشیر کو بتایا-
یہ راز معلوم کرنے کے بعد اس نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کیا اور محل پر آگ لگایا جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوگیا اور قاتل شہزادہ نے شری بدت کی بیٹی سے شادی کرکے خود گلگت کا حکمران بن گیا.
ایسا لگتا ہے کہ لیٹنر نے شری بدت کے افسانہ کو حقیقت اور افسانے کا ایک مرکب سمجھا ہے ، جس کا ثبوت ان کے عنوان اور "تاریخی” اور "خالصتا ادبی” نقطہ نظر دونوں کے حوالہ سے ہے۔ پھر بھی یہ ایک تاریخی نقط نظر ہے جس نے لیٹنر کے بعد آنے والوں کی توجہ مبذول کرائی۔
اس لئے شری بدت سے منسوب آدم خوری کی قدیم کہانی کو ایک نئے انداز میں دیکھنا لازمی ہے چونکہ یہ صرف اساطیر سے بھری ہوئی ایک کہانی نہیں بلکہ درحقیقت یہ قدیم کہانیاں وہ نالیاں ہیں جن سے اس زمانے کا مجموعی شعور ہم تک آتا ہے جس میں وہ حقائق پنہاں ہو سکتے ہیں جن سے سینکڑوں سال قبل ہمارے آباؤ اجداد دوچار ہوۓ تھے –
مقامی روایت کے تحت بیان کی گئی اس کہانی کا جایزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے شری بدت اور آذر جمشید دونوں کو دیو مالائی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے آذر جمشید کو پری زاد اور شری بدت کو بدروح اور آدم خور کہا گیا ہے جو حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتا ہے –
لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے چونکہ دنیا کی ہر تہذیب میں اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں –
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں انسانی گوشت خوری کا رواج رہا ہے جس کی تصدیق کرتے ہوۓ مشہور فلسفی برٹرینڈرسل اپنی نوبل انعام یافتہ کتاب "فلسفہ مغرب کی تاریخ "کے صحفہ نمبر 47 میں لکھتے ہیں کہ ” تمام دنیا میں مذہبی ارتقاء کے خاص مرحلے پر مقدس حیوانوں اور انسانوں کی قربانیاں دی جاتی اور انہیں کھایا جاتا تھا – یہ مرحلہ مختلف جگہوں پر مختلف زبانوں میں رائج رہا- انسانوں کو کھانے کی نسبت انسانی قربانی زیادہ عرصہ تک قائم رہی, یونان میں تاریخی زمانوں کی ابتدا تک یہ رسم ختم نہیں ہوئی تھی -ان ظالمانہ پہلووں کے بغیر زرخیزی کی رسومات تمام یونان میں عام تھیں. دیوتا کو پوری طرح انسان ماننا جاتا تھا البتہ وہ انسانوں سے اتنے مختلف ہیں کہ وہ غیر فانی اور فوق البشری قوتوں کے مالک ہیں”.
گلگت بلتستان کی قدیم روایات میں شری بدت کو بھی ایک مافوق فطرت قوت کا مالک بتایا گیا ہے کہ اس کی موت کا زاز معلوم کئے بنا اس کو جان سے نہیں مارا جاسکتا ہے چونکہ وہ جادوئی طاقت کا حامل شخص تھا چنانچہ اس سے آدم خور اور بدی کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شری بدت کے قاتل آذر جمشید کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا اور آج بھی ہمالیہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں آباد کچھ افراد خود کو اس کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.
مثال کے طور پر یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کی پروفیسر صدف منشی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ہنزہ کے راجہ جمشید علی خان نے خود کو شری بدت کی بیٹی کے نسل سے ہونے کا ذکر کیا ہے.
یہ واصغ ہے کہ شری بدت کے کردار کو بدی کا پیکر کے طور پر پیش کرنے کے پیچھے مختلف سماجی معاشی اور سیاسی مقاصد پوشیدہ تھے جن پر نظر ڈالنے سے حقیقت کا کھوج لگانا آسان ہوتا ہے.
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شری بدت ایک آدم خور تھا یا پھر بیرونی جارحیت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے یہ محض اس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلایا گیا ایک نفرت انگیز جھوٹا پروپیگنڈہ تھا؟
اس اہم سوال پر اسکالرز میں دو طرح کی راۓ پائی جاتی ہے مثال کے طور پر شری بدت پر کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے سکالرJohn Mock, Ph.D کے بقول "گلگت کے آخری بدھ مت بادشاہ شری بدت کو آدم خور بنا کر پیش کرنے کا مقصد پرانے معاشرتی نظام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ ماضی سے عوام کے تعلق کو توڑ کر نئے معاشرتی نظام کی توثیق اور قبولیت کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکے”.
دوسری طرف گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے دانشور عزیز علی داد اپنے تحقیقی مقالہ بعنوان Cannibalism In Gilgit میں شری بدت کے افسانے کے متعلق لکھتے ہیں کہ” سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں یہاں قحط سالی پیدا ہوئی ہو ، جس نے لوگوں کو اپنی بقا کے لئے نربہ خوانی پر مجبور کیا ہو۔ ممکن ہے کہ قحط نے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کیا ہو ایک ایسی خانہ جنگی کی صورتحال جہاں ہر ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہو جس نے اس ریاست کو تباہ کردیا ہو”.
مشہور فلاسفر تھامس ہوبس اپنی شاہکار کتاب لیویتھن میں اس طرح کی صورتحال کے متعلق لکھتے ہیں کہ انسان کی فطری حالت جنگ اور تنازعات میں سے ایک ہے ، جب تک کہ معاشرتی زندگی کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا ہے –
بقول تھامس ہوبس معاشرتی معاہدہ کا عہد ختم ہونے کے ساتھ ہی ، معاشرے کا ٹکراؤ ہوجائے گا اور پھر ہر آدمی ہوگا ہر ایک کے خلاف, اور اس کا نتیجہ لامحالہ ایک ایسی حالت جنگ کا ہوگا کہ "قانون کی حکمرانی کے بغیر ، انسان کی زندگی تنہائی ، غریب ، گندی ، سفاک اور مختصر ہوگی.
شری بدت کا دور حکومت بلور ریاست کے ٹوٹنے کے صرف چار سال بعد یعنی 749 صدی عیسوی کی ہے یعنی یہ ایک جنگ سے تباہ حال معاشرے تھا اور
ریاست بلور کی دستیاب تاریخ کے مطالعے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ درحقیقت گلگت کی وادیوں میں 740-747 صدی عیسوی میں لڑی گئی تبتی اور چینی جنگ کے نتیجے میں ریاست بلور ٹوٹ گئی تھی.
لیٹل بلور پر قبضہ کرنے کے لئے گلگت کی وادیوں میں تبت اور چین نے 747 صدی عیسوی میں ایک خونی جنگ لڑی جس میں تبت کو چین نے شکست دیا –
گلگت کی وادیوں میں لڑی گئی اس تاریخی جنگ کے بارے میں Susan Whitfield نے اپنی کتاب بعنوان Life Along the Silk Road میں دلچسپ حقائق بیان کئے ہیں.
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے شائع شدہ اس کتاب میں The Soldier’s Tale
SEG LHATON , 747–790
کے عنوان سے اس جنگ کے بارے میں وہ رقم طراز ہے کہ سیگ لاتن تبت کے ان جنگی صفوں میں شامل تھے جنہوں نے چینی حملہ کا سامنا کیا تھا.
وہ ایک اور دن اس جنگ کی کہانی یوں بیان کرتا ہے کہ "تبتیوں نے ان چھوٹی وادیوں کی سلطنتوں پر اپنی راج قائم کیا تھا جو ان راستوں کو کنٹرول کرتا ہے جو دریائے گلگت کے راستے سے شمالی ہندوستان کی طرف گامزن ہیں.
740 صدی عیسوی کی دہائی کے اوائل میں تبتی فوج کو کئی بار ان وادیوں میں چینی فوج کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیشہ تبتی فوج فاتح رہی مگر 747 صدی عیسوی کے موسم گرما میں وہ اتنے خوش قسمت نہیں تھے کہ انہیں فتح حاصل ہو. سیگ Lhaton کو یہ جنگ واضح طور پر یاد ہے کہ ان کی فوج نو ہزار افراد پر مشتمل تھی جو ان پہاڑوں کے اندر چین کے ساتھ برسر پیکار تھے”.
گلگت کی وادیوں میں 747 صدی عیسوی میں چین اور تبت کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ میں چین کے دس ہزار افواج کو جنرل Gao کمانڈ کر رہا تھا اور تبت کے نو ہزار زرہ بکتر بند افواج نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا یہ جنگ Little Balur میں لڑی گئی لیکن 747 صدی عیسوی کے موسم بہار میں لڑی گئی اس لڑائی میں تبتی اتنے خوش نصیب نہیں ٹھہرے کہ انہیں کامیابی ملے. اس جنگ میں چین نے تبت کو شکست دیا.
( ریاست بلور کی اپنی ایک منفرد تاریخ ہے جس کے متعلق میرا مقالہ ریاست بلور کی گمشدہ تاریخ کے عنوان سے سر بلند نامی علمی مجلہ جلد اول میں شائع ہوا ہے اس علمی مجلہ کو ادارہ براۓ تعیلم و ترقی بحرین سوات نے شائع کیا ہے.)
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ ریاست بلور کا معاشی نظام اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا ہو اور ریاست قحط سالی کا شکار ہوئی ہو جس کے نتیجے میں معاشرہ فطری حالت جنگ کی لپیٹ میں آگیا ہو اور اندرونی خانہ جنگی نے معاشرے میں آدم خوری جیسے حالات پیدا کئے ہوں کیونکہ قانون کے بغیر انسان حیوان سے بھی بدتر ہے اور قانون کے اپنے وجود کا انحصار ریاست پر ہے.
عزیز علی داد کے نقط نظر کے مطابق بیرونی مسلط شدہ جنگ اور قحط سالی نے اندرونی خانہ جنگی کو جنم دیا ہو اور شری بدت کے ظالمانہ طرز حکمرانی کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کی داخلی کمزوریوں نے ایک نئی ریاست کے لیے بنیاد مہیا کی ہو اور خارجی طاقتوں کو اپنے مفاد میں ان کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کیا ہو اور وہ معاشرہ اندرونی تنازعات اور سازشوں کے ذریعہ کرایہ پر دستیاب تھا چنانچہ شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے اس کے قتل کی سازش میں اہم کردار ادا کیا.
شری بدت کے قاتل شہزادے کے بارے میں جان بڈولف لکھتے ہیں کہ” روایت کے مطابق شری بدت کی ظلم و جبر کے دوران ایک سیاح وادی گلگت پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اجنبی شخص پرشیا ( فارس) کی طرف سے آیا تھا جس کا نام آزر جمشید تھا- اس نے وادی گلگت کے لوگوں کو شری بدت کے خلاف اکسایا اور ایک کامیاب سازش کے زریعے شری بدت کا قتل کیا اور اس کی بیٹیMiyokhay سونی( شہزادی) کے ساتھ شادی کرکے خود گلگت کا حکمران بن گیا”.
الغرض تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ شری بدت دراصل لیٹل بلور ریاست کا آخری مقامی بدھ مت حکمران تھا جس کا اصلی نام چندرا شری دیوا وکرما دیتہ تھا جس سے گلگت بلتستان کے مقامی لوگ شری بدت کے نام سے جانتے ہیں.
شری بدت کا افسانہ دراصل بدھ مت دور کا افسانہ ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اپنی طرف سے مافوق الفطرت باتیں شامل کی ہیں –
جرمنی کی یونیورسٹی آف فریبرگ کے پروفیسر آسکر وان ہنبر کے بقول 745 صدی عیسوی میں پھیلتی ہوئی تبت کی سلطنت نے ریاست بلور پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بلور ریاست ٹوٹ گئی.
گلگت کی وادیوں میں 740-747 صدی عیسوی میں لڑی گئی تبتی اور چینی جنگ کے نتیجے میں معاشرہ فطری حالت جنگ کی لپیٹ میں آگیا تھا لہذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ریاست بلور ٹوٹنے کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک کامیاب سازش کے تحت بیرونی افراد نے لیٹل بلور ( گلگت ) کے آخری مقامی حکمران شری بدت کو آدم خور قرار دیکر آبادی کو اس کے خلاف متنفر کرکے اپنے حق میں استعمال کیا اور مقامی حکومت کا خاتمہ کیا جس کے ثمرات نسل در نسل ہم آج تک بھگت رہے ہیں.
نوآبادیاتی دور حکومت میں ہر اس بات کو فراموش کرنے اور مٹانے کی کوشش کی گئی جو اس خطے کے عوام میں باہمی ہم آہنگی اور اتحاد میں شدید دلچسپی اور محبت محسوس کرا سکتی تھی اس لئے مقامی افسانوں میں بھی مقامی حکمرانوں کو شیطان کی روپ میں پیش کیا گیا
اور بیرونی حملہ آوروں اور قاتلوں کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا جو کہ نوآبادیاتی سوچ اور کردار کی عکاسی کرتی ہے اس لئے اس طرح کی سوچ , فلسفہ اور بیانیہ کو چیلنج کرنا وقت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اپنے خطے کی مشترکہ ہزاروں سال قدیم گمشدہ تاریخ کو از سر نو تشکیل دینا وقت کی اشد ضرورت ہے.