کالمز

میرزادہ سلطان علی ولد علی فتاح

از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشدؔ

بیسویں صدی عیسوی میں ہنزہ میں بعض گنے چنے بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں۔ان کی ان کوششوں اورنا قابلِ فراموش خدمات کے نتیجے میں علاقے میں تعلیمی، سماجی اور معاشی ترقی ممکن ہوئی ہے۔ان عظیم بزرگوں میں ایک نمایاں نام میر زادہ سلطان علی مرحوم کا بھی ہے جو عام طور پر استاد سلطان علی یا ماسٹر سمرقن کے نام سے بھی مشہور ہیں۔میرزادہ مرحوم کی غیر معمولی خدمات کی بنا پر ان کی زندگی کے مختصر حالات قلمبند کئے جاتے ہیں تاکہ تاریخ کا طالب علم اور دوسرے اہلِ علم ان کی خدمات سے آگاہ رہے۔اور یہ مؤرّخ کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمّے داری بھی ہے کہ وہ تاریخ ساز شخصیتوں کے نام اور کام کو منظرِ عام پر لائے۔فارسی شاعر کے اس شعر کے بمصداق ؎

نامِ نیک رفتگان ضائع مکن
تا بماند نام نیکت در جہاں

میر زادہ سلطان علی مرحوم ہنزہ گوجال کے گاؤں گرچہ (سرتیز) سے تعلّق رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجدادنے ہنزہ کریم آباد سے نقل مکانی کر کے پہلے غولکن گئے اور وہاں سے ان کے والد گوجالِ بالا کے گاؤں سوست منتقل ہوئے۔بنیادی طور پر سلطان علی مرحوم ہنزہ کی میر فیملی (خاندانِ اَیَشْ) سے تعلّق رکھتے تھے۔ اُن کے دادا بزرگوار میر زادہ عبد اللہ خان میر آف ہنزہ میر سلیم خان ثانی (متوفی۔ 1823) کے صاحب زادے اور میر غضنفر علی خان اوّل (متوفی۔1865) کے چھوٹے بھائی تھے۔ سلطان علی مرحوم 1921میں پیدا ہوئے اور 2001میں وفات پا گئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پر ائمری اسکول کریم آباد (بلتت) سے حاصل کی اور مڈل تک تعلیم گورنمنٹ مڈل اسکول گلگت سے مکمّل کی۔ مڈل سے آگے تعلیم کے حصول کے لئے کوئی ادارہ گلگت ۔ بلتستان میں موجود نہ تھا۔ چنانچہ میرزادہ موصوف نے فوج میں اپنا کیرئیر بنانے کا ارادہ کیا لیکن اسے خیر باد کہ کر قوم کی تعلیمی خدمت کے لئے کمرِ ہمّت باندھا۔ یقیناً، میر زادہ سلطان علی کی یہ قربانی خصوصاً قابلِ ستائش ہے کہ گلگت سکاؤٹس میں ایک اچھے کیرئر کو خیر باد کہہ کر قومی خدمت کے لئے مستعد ہوگئے۔

ماسٹر سلطان علی (ثمر قند) کی 1954 میں نکالی گئی ایک تصویر

شمالی علاقوں (آج کے گلگت۔ بلتستان) میں 48 ویں اسماعیلی امام سلطان محمّد شاہ آغاخان سوئم کی ڈائمنڈ جوبلی فنڈ سے ماہ اگست 1946 کو اسکولوں کا اجرا ہوا۔ اس فنڈ سے قائم ہونے والے اوّلین اسکولوں میں واحد مڈل اسکول بلتت ہنزہ میں قائم ہوا۔ یہاں پہلے ہی ایک گورنمنٹ پرائمری اسکول موجود تھا اس لئے پرائمری کے بجائے براہ راست مڈل اسکول قائم کیا گیا۔ اس اسکول میں تدریسی عملہ بشمولِ ہیڈماسٹر تین افراد پر مشتمل تھا جو مختلف مضامین کا درس دیتے تھے۔ جناب میر زادہ سلطان علی مرحوم اس مڈل اسکول کے پہلے ہید ماسٹر بنے اور طلبہ کو انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔ جبکہ دوسرا معلّم محمّد دارا بیگ (عرف باباجان) ابن محمّد رضا بیگ مرحوم تھے جواس اسکول میں فارسی اور دینیات پڑھاتے تھے۔ وہ ایک معروف عالم دین بھی تھے اور کئی ممتاز علماء ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلّق مرکزی ہنزہ کے وزیر خاندان (تھرا بیگ فیملی) سے تھا۔تیسرا معلّم ترنگفہ سنگی خان مرحوم ولد ترنگفہ محمّد رفیع تھے۔سنگی خان مرحوم یہاں طلبہ کو اردو اور تعلیم القرآن کے مضامین پڑھاتے تھے۔

میر زادہ سلطان علی مرحوم نے اپنے پورے تدریسی کیریئر کے دوران سخت محنت اور تندہی کے ساتھ طلبہ کی تربیت میں سرگرم عمل رہے۔ موصوف جہاں طلبہ کو پڑھانے سکھانے اور تعلیم و تعلّم کو فروغ دینے کے لئے حد درجہ کوشش کرتے تھے وہاں طلبہ کو نظم و ضبط سکھانے اور جسمانی طور پر صاف ستھرا رہنے پر بھی زور دیتے تھے۔ انہوں نے 1946 میں درس تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے، ڈی۔ جے اسکولوں میں بھی پڑھایا اور گورنمنٹ اسکولوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دئیے۔ ایک طویل مدّت تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد 1989 میں ریٹائرد ہوئے۔انہوں نے تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ سیلف ڈیویلپمنٹ پر بھی توجّہ دی اورگریجویشن کے ساتھ ساتھ بی۔ ایڈ کی پروفیشنل ڈگری بھی حاصل کی۔

استاد سلطان علی مرحوم نے اپنے تدریسی مشاغل کے علاوہ دیگر جماعتی خدمات بھی پوری دلجمعی سے انجام دیں۔وہ ایک قابل، محنتی اور مخلص استاد ہونے کے ساتھ ساتھ عالمِ دین اور آنریری واعظ بھی تھے۔جماعتوں میں وعظ و نصیحت کرنے اور ائمّہئ کرام کے فرامین جماعت تک پہنچانے کے لئے وہ میلوں پیدل سفر کرتے تھے اور مختلف جماعت خانوں میں ان فرامین کا انگریزی سے براہِ راست مقامی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے۔ اس طرح وہ اپنی دینی خدمات بھی اہلیت و قابلیت اور محنت وجانفشانی سے انجام دیتے تھے۔ نیز وہ 1954سے 1964آغاخان والنٹیرکور کے اوّلین کیپٹن رہے۔اس حیثیت سے بھی انہوں نے بہترین خدمات انجام دیں۔وہ فٹ بال کے بہترین کھلاڑی بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میرزدہ مرحوم ذہین اور زیرک ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر چست، پھرتیلا اور توانا بھی تھے۔

استاد سلطان علی مرحوم نے مذکورہ تدریسی اور دینی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ تعلیمی انتظام و انصرام اوراعزازی سیادت و قیادت کا کام بھی بطریقِ احسن انجام دیا۔ چنانچہ وہ آغاخان ایجوکیشن ریجنل بورڈ برائے ہنزہ کے پہلے صدر بھی رہے۔ ان کے دَورِ صدارت میں شیناکی اور مرکزی ہنزہ سے لے کر گوجال تک جہاں پہلے سے قائم اسکولوں منظّم اور فعّال ہوئے وہاں بہت سے نئے اسکولوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔جن دنوں سلطان علی مرحوم آغاخان ایجوکیشن بورڈ ہنزہ کے چیئرمین تھے ان دنوں رائے غلام الدّین مرحو م آنریری سیکریٹری تھے اور اوّل الذکر کی ریٹائرمنٹ کے بعد رائے صاحب چیئرمین بن گئے۔ رائے غلام الدّین مرحوم و مغفورکی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں اور ان کی خوشگوار شخصیت کی خوشگوار یادیں اب بھی لوگوں کے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔

اگرچہ سلطان علی مرحوم ہنزہ کے میروں کے خاندان سے تعلّق رکھتے تھے اور اس لحاظ سے وہ ایک اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھتے تھے لیکن وہ اپنے اس خاندانی پس منظر پر تعلیم و تعلّم اور کتاب داری، کتاب بینی اور کتاب فہمی کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ آغاخان ایجوکیشن بورڈ ہنزہ کے صدر کی حیثیت سے بھی اعلیٰ سماجی مقام کے حامل تھے، تاہم، ان مناصب پر ان کی درویشی غالب تھی۔ موصوف کسی بھی قسم کی تحسین و ستائش اور داد و دہش سے بے نیاز تھے۔ غرض، میرزادہ سلطان علی قرون وسطیٰ کے کسی مجاہدانہ او ر قلندرانہ اوصاف کے حامل مسلمان بزرگوں کی زندہ تصویر تھے۔ اس دَورِ جدید میں ایسے بزرگ کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔ یقیناً، تاریخ گواہی دے گی کہ میرزادہ سلطان علی مرحوم و مغفور بیسویں صدی عیسوی کی ایک ایسی ممتاز اور منفرد شخصیت تھے کہ جس نے نمود و نمائش اور تعریف و ستائش سے بالا تر ہوکر اپنی تمام تر توانایاں اور صلاحیتیں ہنزہ کے کونے کونے تک علم کی روشنی پھیلانے کے لئے صرف کیں۔ بلاشبہ ان کا نام ہنزہ کی تعلیمی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کا مستحق ہے۔

ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جرہدہئ عالم دوامِ ما

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button