کالمز

مشوروں کا لفافہ یا  وعدوں کے لالی پاپ

تحریر: صفدرعلی صفدر

شکور خان ایڈووکیٹ صاحب نےیک اہم موضوع کی جانب توجہ دلائی۔اسی طرح کے ایک تلخ تجربے سے زمانہ طالبعلمی میں ہمیں بھی گزرنا پڑا۔ ہم یاسین سے قراقرم یونیورسٹی کے پائنیرز اسٹوڈنٹس تھے۔ ابتدا  میں ہماری تعداد غالباً سولہ یا اٹھارہ تھی۔ جامعہ میں ہر طرف طلبا و طالبات گروپس کی صورت میں محو گفتگو نظر آرہے تھے۔  معلوم ہوا کہ ان گروپس میں کہیں ہنزہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہے، کہیں پونیال، کہیں گوجال، کہیں پی ایس ایف، ایم ایس ایف، آئی ایس او،بی این ایس او، اسلامی جمعیت طلبا      وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں ان دنوں دو چار کے علاوہ ایک دوسرے سے شناسائی تک نہ تھی۔ ایک دن ہم چند دوستوں نے دیگر ان کا دیکھا دیکھی چائے کی نشست پر یاسین کے طلبا کی بھی ایک تنظیم بنانے کی ٹھان لی۔ کاغذ قلم اٹھا کر یونیورسٹی ہذا میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی فہرست بنائی۔ پھرایک ایک کرکے ڈھونڈ ڈھانڈ کے اسٹوڈنٹس کو اکھٹا کیا کیونکہ اس زمانے میں گلگت میں ماسوائے ایس کام کے کوئی اور موبائل سروس نہیں تھی اور ایس کام کی سم کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

الغرض پہلی فرصت میں ہم یاسین والے اکھٹے ہوگئے۔ پہلی میٹنگ میں تنظیم کا نام اور اغراض و مقاصد زیر بحث آئے۔ دوسری میٹنگ کے وقت کا تعین ہوا تو بات خاصی پھیل گئی تھی۔ اگلی میٹنگ سے قبل تحصیل گوپس کے طلباء وطالبات کا ایک وفد ملنے آیا۔ گپ شپ میں گزارش یہ کی گئی کہ بجائے یاسین کے گوپس کو بھی ملا کر ایک طلبا تنظیم کی بنیاد رکھی جائے تاکہ زیادہ تعداد بڑی طاقت سکےاور اچھے برے وقتوں میں ایک دوسرے کے بازو بنے۔چنانچہ اتفاق یہ ہوا کہ گوپس والوں کو بھی تنظیم کا حصہ بنایا جائے گا۔ یوں  کل ملا کے انتیس طلبا وطالبات پر مشتمل گوپس یاسین اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر  اکبر خان (موجودہ پروفیسر  آرمی سٹاف کالج کوئٹہ)  کو صدر جبکہ  سرتاج خان (موجودہ پرنسپل شہید لالک جان نشان حیدر آرمی پبلک سکول اینڈ کالج ہندور یاسین) کو جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا۔ کابینہ کے دیگر اراکین میں سید فاضل شاہ(موجودہ ہیڈ آف فنانس آغاخان میڈیکل سنٹر گلگت)، حیدر ولی خان (موجودہ پرنسپل آغاخان ایجوکیشن سروس)، نیاز بھائی (موجودہ لیکچرار) جج بی بی (موجودہ لیکچرار) اور راقم شامل تھے۔ اسی طرح ایڈوائزری کے طور پر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں گوپس یاسین سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے واحد فیکلٹی ممبراور میرے محسن ڈاکٹر اکبرخان آف بائیولوجیکل سائنسز  کی خدمات حاصل کی گئیں۔یہ مرحلہ مکمل ہونے تک یونیورسٹی کا تعلیمی سیشن اختتام پذیر ہوا تھا۔

اب فیصلہ یہ ہوا کہ جامعہ ہذا کے فارغ التحصیل طلباء وطالبات کو الوداعی اور نئے داخل ہونے والوں کے لئے خوش آمدید کی غرض سے ایک تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ تقریب کے انتظامات کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ تنظیم کے ممبران پر مناسب چندہ عائد کیا گیا۔ تقریب چونکہ کسی ہوٹل میں منعقد کرکے علاقے کے تمام معزیزن کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اس حساب سے مالی معاملات انتہائی ناکافی تھے۔ چنانچہ ہم نے بھی  شکورخان ایڈووکیٹ صاحب کی طرح  کشکول لیکر گلگت میں مقیم علاقے کی بڑی شخصیت کے در دشت دینے کا اعادہ کرلیا۔ چندہ مہم پر روانگی کے وقت ہمارے چہرے بھی امیدوں کے خواب میں کھلکھلا رہے تھے ۔ مگر ان مسکراتے چہروں پر دکھ اور مایوسی کے اثار اس وقت نمودار ہوئے جب پہلی فرصت میں علاقے کے اس وقت  اور موجودہ دورکے منتخب نمائندے نے اپنے دفتر سے خالی ہاتھ واپس کردیا۔ ہمت پھر بھی نہ ہاری اور فہرست کے مطابق مالدار طبقے کے دفاتر، دکان اور گھروں کے چکر کاٹتے رہے مگر ہر طرح سے زبانی نصیحتوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ پروگرام شیڈول کے مطابق طے تھا ۔ دعوت نامے بھی تیار کئے گئے تھے۔ حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ اس پروگرام کے تمام اخراجات تنظیم کے ممبران پر تقسیم کئے جائیں گے۔ اللہ جنت نصیب کرے، اسی اثنا اس وقت کے قانون ساز کونسل میں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر منتخب ہونے والے رکن کونسل الواعظ علی مراد صاحب (جن کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے بے ساختہ آنسو نکل آتے ہیں)  کہیں سےیونیورسٹی میں نمودار ہوئے۔ موقع کو غنیمت جان کر ہم نے ان سےاپنی مدعا بیان کی۔الواعظ صاحب کو ہمارا آئیڈیا بہت پسندآیا اور انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ایوننگ کی کلاسوں میں شعبہ ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کررہے ہیں۔لہذا اس پروگرام کے تمام اخراجات و اپنی جیب سے ادا کریں گے۔

واعظ صاحب کے اس اعلان پر ہمارے مرجائے ہوئے چہرے پھر سے تروتازہ  اور عزم وحوصلے بلند ہوگئے۔ الغرض گلگت کے ایک مقامی ہوٹل میں ہمارا پروگرام منعقدہ ہوا ۔ گوپس یاسین کے نامی گرامی شخصیات نے ہماری دعوت قبول کرکے پروگرام میں شرکت فرمائی مگر علاقے کےمنتخب نمائندے نےلاکھ فریادی کے باوجود تقریب میں شرکت کرکے ہماری حوصلہ افزائی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بات کہاں سے کہاں کل گئی۔ کہانی کا لب لباب یہی کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں آج سے پندرہ سال قبل  علاقے کے طلبا وطالبات کو درپیش مسائل کے حل کی غرض سےہم نے محض دو درجن افراد پر مشتمل ایک طلبا تنظیم  کی بنیاد رکھی تھی جوکہ آج یاسین سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طلباوطالبات کا ایک بہترین اور منعظم ادارہ  تو بن گیا  مگر تنظیم کے مالی مسائل اب بھی جوں کے توں ہیں۔ یاسین اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے سالانہ منعقد ہونے والی تقریب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس تنظیم  کے سائے تلے علاقے کے نوجوان ایک گلدستے کی مانند آپس میں پیار ومحبت اور اخوت وبھائی چارے کا عملی مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان تقریبات کے انعقاد اور کم استعداد رکھنے والے طلبا وطالبات کی مالی معاونت میں یہ ادارہ اب بھی مخیر حضرات کے عطیات کا محتاج ہے مگر علاقے کے سیاسی، سماجی، کاروباری و دیگر صاحب ِ استعداد شخصیات مسائل سے اگاہی کے باوجود تنظیم کی معاونت کی بجائے  مشوروں سے بھرے لفافے یا  جھوٹے وعدوں سے رنگے لالی پاپ دیکر رخصت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button