کالمز

باپ کے مرتبے کی تذلیل نہ کریں 

تحریر: شکور خان ایڈووکیٹ

میرا بیٹا چند روز قبل  لاہور سے یاسن گیا تھا تاکہ ماں اور بہن بھائی کے ساتھ کچھ وقت گزار سکے،  ساتھ  بی۔ اے  امتحان کی تیاری کر سکے جو جولائی کے آخیر  یا اگست میں متوقع ہے۔

28 جون کو پولیس کانسٹیبل نے جا کے اسے حکم دیا کہ:  تم صبح یاسن تھانہ میں حاضری دو۔  اگلے روز تھانے میں بتایا گیا  کہ تمہیں  کل صبح گاہکوچ میں ایس۔ پی کے روبرو پیش کیا جائے گا،یہ ایس- پی صاحب کا حکم ہے۔

اگلی صبح اسے ایس-پی آفس میں پیش کیا گیا۔  لڑکے کو دیکھتے ہی ایس-پی کے اسسٹنٹ نے مغلظات بکنا شروع کیا بعد ازاں  پہلے سے موجود قاتل مجرم کے ساتھ تھانے کی حوالات میں بند کر دیا گیا۔  دو گھنٹے بعد حوالات سے نکال کر ایس- پی کے روبرو پیش کیا گیا تو بچے نے شکایت کی کہ پولیس نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا اور مجرم کی طرح حوالات میں مجرموں کے ساتھ بند کیا۔   یہ سنتے ہی جناب ایس پی غذر آپے سے باہر ہوگئے اور انتہائی نامناسب الفاظ میں دھونس دھمکیاں دینے لگا کہ وہ اس کے پورے خاندان کے خلاف ایف آئی آر درج کرے گا۔  پولیس اہلکاروں کو حکم دیا کہ اسے ہر صبح یاسن کے پولیس حوالات میں بند کرکے شام کو چھوڑ دیا جائے۔

میں جناب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ معصوم بیگناہ طالب علم لڑکے کو برکولتی یاسن سے اٹھا کر سو کلومیٹر دور گاہکوچ تھانے کے حوالات میں قاتل کے ہمراہ بند کرنے کا اختیار کس قانون نے دیا ہے۔

  کون سا قانون یہ کہتا ہے کہ بیگناہ کو ہر صبح تھانہ کے حوالات میں بند کر کے ہر شام کو رہائی کا حکم صادر کیا جائے !

کیا پولیس گردی کا شکار حراساں لڑکا امتحان کی تیاری کر سکے گا جس کے لیے وہ لاہور سے چل کر گھر آیا ہے؟

کیا بچے کا محض قوم پرست سیاسی خاندان سے تعلق ہونا ہی اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کی پاداش میں معصوم بچے کی زندگی اجیرن بنا دی جائے؟

گلگت بلتستان میں قوم پرستی کی تاریخ اٹھا کے دیکھئے، کوئی بھی فرد منہ اٹھا کے قوم پرست نہیں بنا،  جب اس نے دیکھا کہ قوم بنیادی حقوق سے محروم ہے تو حقوق کے حصول کے لیے پرامن  آواز اٹھائی۔  ہر بیگناہ کو حق کے لیے آواز اٹھائے کی پاداش میں تشدد سے گزارا گیا، جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے، انہیں جیلیں کاٹنی پڑی،  جلاوطن ہونا پڑا۔

حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے والوں پر تشدد کرکے کوئی سمجھتا ہے کہ قوم کی خدمت کر رہا ہے تو وہ غلطی پر ہے جس کا احساس اسے جلد یا بدیر ہوجائےگا۔

گلگت بلتستان میں اجتماعی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والا ہر فرد اپنی قوم کے ماتھے کا جھومر ہے ان  پر بیجا تشدد سے نفرت میں اضافہ ہوگا۔ ریاست پاکستان اور گلگت بلتستان کے مابین قربت کی بجائے دوریاں مزید  بڑھیں گی۔ جس کے ذمہ دار اداروں کے  بےشعور ملازمین ہوں گے جو شاباشی پانے کے شوق میں حدیں  پار کر جاتے ہیں۔

ایس-پی غذر نے گزشتہ دنوں اشکومن میں لڑکی کے قاتل کی گرفتاری پر گاہکوچ میں پریس کانفرنس میں فرمایا کہ اس نے خود کو مقتول لڑکی کا باپ تصور کرکے تندھی سے تفتیش کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی۔   کیا موصوف اس سوال کا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ ایک بیگناہ معصوم لڑکے کو جو امتحان کی تیاری میں مصروف تھا گھر سے 100 کلومیٹر دور گاہکوچ لے جا کر جسمانی و ذہنی تشدد سے گزارنا اور ماتحت اہلکاروں کو حکم دینا کہ اس لڑکے کو ہر صبح تھانہ کے حوالات میں بند کر کے شام کو چھوڑ دیا جائے،   یہاں آپ کا وہ بچوں کے لیے پدرانہ شفقت کدھر گیا جس کے آپ حالیہ پریس کانفرنس میں دعویدار بن گئے تھے؟

لہذا میری عدالتوں سے، اداروں سے، انسپکٹر جنرل پولیس گلگت بلتستان سے،  گلگت بلتستان میں واقع انسانی حقوق کی تنظیموں سے،  سول سوسائٹی کے اراکین سے،  سیاسی لیڈرشپ سے،  سوشل میڈیا کے دوستوں سے،  قوم پرست ساتھی اور  وکلاء تنظیمیں جن کا خود بھی ممبر ہوں سے مودبانہ استدعاء ہے کہ غذر میں بیجا پولیس گردی کی منصفانہ تحقیقات کے لیے مدد فرماکر بیگناہ طالب علم کو انصاف دلائیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button