گمنام ہیرو
تحریر: علامہ علیم رحمانی
جناب غلام حیدر آخوندی صاحب کاشمار ہمارے علاقے کی ان شخصیات میں ہوتاہے جن کی خدمات نہ صرف لائق تحسین ہیں بلکہ مکمل طور پر قابل تقلیدبھی ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ ان کو نہیں پہچانتے کیونکہ وہ اپنی خدمات لوگوں سے داد وتحسین لینے یا سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے انجام نہیں دیتے بلکہ وہ یہ صرف خوشنودی خدا کیلئے فی سبیل اللہ انجام دیتے ہیں اس لئے دوسروں کیتعریف وتعارف سے مطلق بے نیاز رہتے ہیں اور یہی ان کے اخلاص کاکھلاثبوت ہے۔
ایسے مخلص قومی خدمتگارکے کارنامے اگرچہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں مگر ایک قومی فریضہ جانتے ہوئے عام لوگوں کی آگہی اور رہنمائی کیلئے ان کے بارے میں کچھ مختصر معلومات آپ سب کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک قومی کارکن اور خدمتگار کی جدوجہد اور خدمات سے ہماری نئی نسل آگاہ رہے اوران میں بھی قومی اور دینی خدمت کاجذبہ پیداہو۔ غلام حیدر آخوندی کی پیدائش 1970ء میں آخونپہ غاسینگ کے ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی ان کے آباواجداد میں کئی با عمل علماء گزرے ہیں. غربت کے زمانے کے انتہائی کٹھن دور میں انہوں نے تعلیم کاآغازاپنے گھر سیکیا. پانچویں جماعت پرائمری اسکول منٹھوکھا سے پھر مڈل سکول مادھوپور سے آٹھویں جماعت پھر میٹرک ہائی سکول مہدی آباد سے پاس کیا اس وقت اعلی تعلیم حاصل کرنا آج کل کے دور میں کے ٹو سر کرنے کے مترادف تھا اس کیباوجود انہوں نیاپنی محنت و لگن اور ہمت وحوصلے سے اپنے تعلیمی شوق کو نہ صرف پورا کیا بلکہ وہ اعلی تعلیمی مراحل کو بھی طے کرنے میں کامیاب ہوئے. وہ مزید اپنی تعلیمی تشنگی کو بجھانے کی خاطر کراچی چلے لے گئے اور عائشہ باوانی کالج میں ایڈمیشن لیا اور وہاں سے ایف۔ ایس۔ سی کرنے کے بعد اسلامیہ کالج سے بی کام کیا۔اس تعلیمی سفر کے دوران آپ نیاپنی مدد آپ کے تحت پڑھائی اور ملازمت دونوں کو ساتھ ساتھ جاری رکھا. بی کام مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ایک ادارے میں پانچ سال ملازمت کی اور ساتھ ساتھ اپنی فیلڈ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مختلف کورسسز بھی کرتے رہے. ہمت مرداں مدد خدا وہ ہمیشہ سے ایک پروفیشنل بندہ ہیں اور ہے اس وجہ سے اس ملازمت کو اپنی آخری منزل اور امیدسمجھنے کی بجائیمختلف ملکوں میں سکالرشب کے لیے اپلائی کرتے رہے بالآخر وہ اپنے کزن محمد حسن صاحب کی مدد سے سٹوڈنٹ ویزے پر امریکہ میں سکالرشب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے انہوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے وہاں اپنی اعلی تعلیم شروع کی اور چار سال اپنی بھرپور صلاحیت کو برویکار لاتے ہوے CA Equivalent ڈگری حاصل کی۔دوران تعلیم ایک ادارے میں کام بھی کرتے رہے. ان کی قابلیت اور جستجو کو دیکھتے ہوئے انہیں اس ادارے کا سربراہ بھی منتخب کیاگیا لیکن انہوں نے جب اپنی پڑھائی مکمل کی تو اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہوئیامریکہ میں ہی اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا امریکہ جیسے ملک میں جانے کوہی لوگ فخر سمجھتے ہیں چاہے کوئی بھی کام کرناپڑیلیکن وہ اپنی انتھک محنت کے کارن وہاں بھی ان کے باسیوں کے مقابلے میں عزت دار اور قابل رشک ذندگی گزار رہے ہیں. ایک کاروبار کی کامیابی کو انہوں نے حرف آخر نہیں سمجھا بلکہ کچھ سال گزرنے کے بعد بلکل اسی نوعیت کا دوسرا بزنس شروع کیا مگر کامیابیوں کیاس سفر کے دوران کبھی ایک لمحے کیلئے بھی انہوں نے اپنیآبائی وطن کو نہیں فراموش نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اس کی تعمیروترقی کے لئے فکر مند رہے اور لوگوں کی بھلائی کیلئے غور فکر میں مصروف رہے. وہ اپنے دو آفسسز کے پریزیڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ، شاربہ فاونڈیشن کے چیرمین ہیں، آخوندیان ویلفیر ٹرسٹ کے بانی و صدر ہیں، یہ دونوں انجمنیں اپنی اپنی خدمات معاشرے میں بہتر انداز میں کر رہی ہیں. نیسٹ پبلک سکول آخونپہ کے بانی و مینیجنگ ڈائریکٹر، نیسٹ ایلیمنٹری سکول ملیر کراچی کے بانی و مینیجنگ ڈائریکٹر، فاونڈر اینڈمینیجنگ ڈائریکٹر نیشنل ایجوکیشنل ٹرسٹ نیویارک جیسی ذمہ داریوں کے باوجود انہوں نے کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ ان سب اداروں کاانتظام وانصرام اللہ کی مدد سے اپنے بل بوتیپر کیا اوراب بھی یہی کر رہے ہیں.
ان کانظریہ یہی رہاہے:
کوئی رستہ کوئی منزِل اْسے دشوار نہیں
جِس جگہ جاؤ۔۔۔ محبّت کے سہارے جاؤ
ہم تو مٹّی سے اْگائیں گے محبّت کے گْلاب
تم اگر توڑنے جاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سِتارے،جاؤ
ہماری اللہ سے دعا ہے کہ غلام حیدر آخوندی بھائی کو اسی طرح دین و ملت کی خدمت کرتیرہنے کی توفیق عطافرمائے اور زندگی میں ہرقدم پر مزید کامیابیاں ان کے سنگ ہوں.
آمین