کالمز

رقص المرگ

آصف خان دیوان

آپ کسی کو دیکھتے ہے،اسے پہنچانتے ہے مگر آپ کا دل ِملن کے لیے نہیں کرتا اور پھر آپ اس کو یوں نظرانداز کرتے ہے جیسے وہ آپ کے لیے اجنبی ہو اور آپ اس سے کبھی ملے ہی نہیں۔ پہاڑوں کے باسیوں  میں یہ ناگوار رویہ آج کل کثرت سے پایا جاتا ہیں، الباتہ ان تلخ اقدار نے اس دور سے پہلے کبھی پہاڑی روایات میں سراعت نہیں کی تھی اور اگر پاٸ بھی جاتی تھی تو وہ بھی کم۔۔۔۔ جی ہاں بہت نایاب۔

اگر ہم صرف ایک دہاٸ پیچھے چلے جاۓ تو ہمارے سامنے حال اور ماضی میں پہاڑی باشندوں کے اجتماعی  رویوں میں مرطب آنے والے فرق کی تصویر واضع ہوجاتی ہیں۔ بہت کچھ بدل چکا ہیں مگر غم اس بات کا ہے کہ ِان سماجی تبدیلیوں نے معاشرے پر منفی اثرات مرطب کیں ہیں۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف ناخوشگوار ،  بیہورا، بے مروت اور ناگوار ہیں بلکہ ساتھ  ساتھ ناپسندیدہ اور  واہیات بھی ہیں۔

”بھاٸ چارہ، محبت ، شفقت اور باہمی احترام“  یہ وہ اقدار تھیں جن کی بنیاد پر ہمارا معاشرتی نظام قایم تھا مگر آج ان اقدار کے فقدان کی وجہ سے ہمارے معاشرتی نظام کے  ڈھانچے میں دراڑ سا پڑھ گیا ہے۔

اگر ہم اپنی نٸ نسل سے اس سماجی بگاڑ  کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو وہ یک زبان ہو کے ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ ” ہمارے پاس وقت نہیں“۔ اگر ہم ‘وقت کی کمی’ کے معاملے پر ( اس میں کوٸ شک نہیں کہ وقت آجکل نایاب ہے) کڑی نظر ڈالے تو ہم دیکھتے

کہ جو لوگ وقت کی کمی اور سخت مصروفیت کا رونا روتے ہیں، وہ دراصل اپنی خواہش کے مطابق سماج سے دور رہنا چاہتےہیں اور وقت کی کمی کا بہانہ بناتے ہیں۔

آٸیں اپنے اصل موضوع کی طرف جاتے ہیں،جس کے لیے میں نے مندرجہ بالہ تمہید باندھی ہے تاکہ آپ سیاق و سباق سے آگاہ ہوسکے۔  اُن تبدیلیوں میں ایک  رسم بھی شامل ہے یعنی ”انسان کے آخری رسومات “۔ جی ہاں آخرت کا سفر۔ بعد از مرگ سب حاضر ہوجاتے ہیں۔ وہ رنگ، نسل، ذات پات، عمر کے فرق سے مبرّا ہوکے آپ کی لاش پہ حاضری لگاتے ہیں۔ آجکل ”حاضری“ کا آغاز سماجی رابطوں اور تار کے ذرایعے سے ہوتا ہے۔ جیسے ہی آپ کی روح پرواز کرجاتی ہے تو یہ لوگ لمحہ کا ضیا کیے بغیر تمام ذرایعوں (جن میں فیسبوک سرِفہرست ہے) کو بروکار لاتے ہوۓ جہاں تک اُن کی رساٸ ہو، آپ کے موت کی خبر پہنچاتے ہیں اور اپنے غم اور رنج کا برملا اظہار کرتے ہیں۔

~دور محفل میں و گاتا رہا تنہا تنہا

ساز پر سوگیاسر رکھ کر سحر سے پہلے

پھر یہی رنج میں مبتلا لوگ آپ کے پُرمیل اور بے حس جسم کو غسل دینے کے لیےتیار ہوجاتے ہیں اور اپنا روحانی فریضہ سمجھ کر آپ کے جسم کو غسل دیتے ہیں بغیر یہ دیکھے کہ آپ نے اپنے جسم کو پہلے کس برینڈ کے صابن سے دھویا ہے۔

اس عمل کے بات ”کھداٸ والے“ متحرک ہوجاتے ہیں۔ کھداٸ بُلڑوذر یا عکسویٹر کے ذریعے نہیں کی جاتی بلکہ مقامی لوگ محظ بیلچے اور دوسرے آلات کا استعمال کرتے ہوۓ زمین کے اندر ایک چھوٹا سا کمرہ کھودتے ہیں تاکہ آپ اپنے آخری آرام گاہ میں سکون سے سوسکے۔ مگر اس کمرے میں نہ کھڑکی ہوتی ہے نہ دروازہ اور نہ ہی کوٸ سوراغ  کیونک اگر آپ کہی اس طرح ننگے باہر نکل گیے تو آپ ان لوگوں کے لیے باعثِ شرمندگی ہونگے۔

~ زندگی جس کا بڑا نام سنا جاتا ہے

ایک کمزور سی ہچکی کے سوا کچھ بھی نہیں

پھر آپ کے گھر میں سیاح کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اور ان سے میری مراد ہمردر اور ماتم کرنے والے ہے۔ یہ لوگ مہنگا لباس پہنے ،اپنی بیویوں کے ساتھ مہنگی گاڑی میں آپ کے گھر پہنچتے ہیں اور آپ کے خاندان کے سامنے پہلے سے رٹی رٹاٸ جملے ادا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ اِن جملوں کو اتنے بلند آواز میں بولتے ہیں کہ کانوں میں تکلیف شروع ہوجاتی ہیں اور کچھ اتنی نحیف آواز میں یہ فریضہ ادا کرتے ہیں کہ سننا ہی محال ہوجاتا ہے۔ یکایک آپ کے بارے میں باتیں شروع ہوجاتی ہیں اور وہ لوگ آپ کو محنت کش، مخلص، عاجز ، عابد اور سخی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ اگر آپ بعد از مرگ ان باتوں کو سن سکتے تو آپ کو اپنے کانوں پر یقین نہ آتا۔

~  یہ جو ہمدرد ملتے ہے نا وسی

یقین مانو انھی سے درد ملتا ہے

پھر لوگوں کا ہجوم آتا ہےاور آپ کے تابوت کو کندھا دیا جاتا ہے اور آپ کو اپنے آخری آرام گاہ کی طرف رواں کیا جاتا ہے۔ اس آرام گاہ کی یہی حقیقت ہے کو وہ زمین کے اندر چار خانہ سوراخ ہے جہاں آپ کے جسم نے گِل جانا ہے اور اندرونی زمینی مخلوقات کا خوراک بن جانا ہے۔ اور جیسے لوگ کہتے ہے ”خاک سے آۓ ہے اور خاک بن جاناہے“۔ آپ کے تابوت کو جیسے اٹھایا جاۓگا، آپ ایک باشاہ کی طرح لگیں گے جسے اس کے غلام  اٹھاۓ پھر رہے رہے ہیں۔  وہ مصنوعی غم میں نڈھال کبھی یہ نہیں چاہنیگے کہ آپ دوبارہ زندہ ہو کیونکہ ان کے پاس اس عمل کو دہرانا

کے لیے وقت نہیں ہیں۔

~پڑھی نماز جنازہ بھی میرے غیروں نے

میرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے

پھر آپ کے تابوت کو  اس کھودے ہوۓ سوراغ میں بڑے احتیاط اور محبت سے ڈال دیا جاتا ہے اور مٹی سے اسے بھرا جاتا ہے اور آپ کو اکیلا وہاں رکھا جاتا ہے۔ اور ہاں! آپ کے قبر کے عقب میں ایک لالٹین یا  ،بِلا بجلی کے بل یا لوڑشیڈنگ کے خوف کے، ایک بلب نصب کیاجاتا ہے تاکہ آپ کو تاریکی میں کوٸ مسلہ نہ ہو۔ کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہیں کہ آپ اندر تاریکی میں ہے اور باہر اجالہ؟

~دبا کے چل دیے سب قبر میں دعا نہ سلام

ذرا سی دیر کیا ہوگٸ زمانہ کو

پھر بناوٹی اظہارِ ہمدردی کے بعد رنگ برنگی لباس میں ملبوس، ہاتھوں میں کھانا لیےخواتین  نمودار ہوتیں ہیں۔ شہروں میں اس کے برعکس کھانا لواحقین کے گھر ہی پکتا ہے اور مصنوعی ہمدردوں کی پلاٶ اور دیگر طعام سے خاطر توازہ کی جاتیں ہیں۔ یہاں اُن خواتین کے گھر کے پکے کھانوں پہ آپ کے گھر والے اور مہمان ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ یہ عمل کچھ دنوں تک جاری رہتا ہے۔

پھر آہستہ آہستہ لوگ آپ کو ایسے بھول جاٸنگے جیسے آپکا وجود کبھی تھا ہی نہیں۔ لوگ بشمول آپ کے خاندان والے اپنے روزمرہ کے مصروفیت میں لگ جاٸنگے۔ یہ دنیا کا دستور ہے کہ کوٸ بھی اپنی زندگی  کسی کے غم میں رو کر نہیں گزارتا۔

~ بس اتنی سی حقیقت ہے خیالِ خواب ہستی کا

کہ سانسیں بند ہو اور آدمی افسانہ بن جاۓ

اگر آپ کے بس میں ہوتا کہ آپ ان تمام معاملات اور کارروٸٸ کو خود دیکھتے تو آپ پر سکتہ طاری ہوجاتا اور آپ کے ذہن میں ہزاروں سوالات گردش کرتے۔

آپ پھر اپنے آپ سے پوچھتے ۔۔۔۔۔

یہ لوگ کیوں زاروقطار رورہے ہیں اور میرے انتقال کی خبر کو فیسبوک پہ مصنوعی رنج کا اظہار کرتے ہوۓ اور رٹی رٹائی جملوں کے ساتھ  اتنی اجلت میں کیونکر  پھیلا رہے ہیں؟ ہہی لوگ کہاں تھے جب میں اپنے زندگی کے مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ یہ لوگ کہاں تھے جب میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا اور مجھے بات کرنے کے لیے ساتھی چاہٸے تھا؟ یہی لوگ مجھے سڑکوں اور چوراہوں پہ کیوں نظرانداز کرتے تھے جب میں ان سے ملنا چاہتا تھا؟

یہ لوگ جو آج مجھے بِلا جھجک دوگز زمین آخری گھر (قبر) بنانے کے لیے دے رہے ہیں تب کہاں تھے جب میں اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا گھر بنانا چاہتا تھا۔

یہ لوگ جنھوں نے آج گاڑیوں کا ہجوم میرے گھر کے سامنے کھڑا کیا ہے کہاں تھے جب مجھے سفر کے لیے گاڑی کی اشد ضرورت تھی؟۔

آج یہ لوگ کیوں میرے ناکردہ نیکیوں کی تعریفوں میں زمین وآسمان ِملا رہے ہیں جبکہ ِانھوں نے میری حوصلہ آفزاٸ نہیں کی تھی جب میں لگن کے ساتھ اپنے معاشرےاور خاندان کے لے کچھ اچھا کرنا چاہتا تھا۔

یہ لوگ جو آج پیسوں کی بھرمار کررہے ہیں تب کہاں چھپے تھے جب میں معاشی مشکلات کے دلدل مہں پھسا ہوا تھا اور مجھے روٹی اور کپڑے کے لالے پڑے ہوۓ تھے۔

یہ خواتین جنھوں نے ہر قسم کے کھانوں سے میرے گھر کو سجایا ہے تب کہاں تھیں جب میرے گھر میں فاقہ پڑا ہوا تھا اور کھانے کو روٹی تک نہیں تھی۔

آپ یہ سوال بار بار  پوچھتے رہٸنگے مگر جواب۔۔۔۔ندارد

پھر آپ اصل موت اکا ذائقہ چکھ لینگے

~  مل جل کے جسے برہنہ دنیا نے کیا ہے

اس درد نے اب میرا بدن اوڑھ دیا ہے

میں رات کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا تھا

اس شہر کا پانی تو یزیدوں نے پیا ہے

میں صاحبِ عزت ہوں میری لاش نہ کھولو

دستار کے پرزوں سے کفن میں نے سیا ہے

قتیل شفاٸ

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button