گلگت بلتستان میں کام کرنے والے بچوں کا تناسب زیادہ کیوں؟
سرور حسین سکندر
تانگیر سے تعلق رکھنے والا 15 سالہ عزیر والد کے قتل کے بعد گلگت شہرمیں دیہاڑی پرکام کرتا ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے کم عمری میں ہی کام پر لگ گیا۔
عزیرکا کہنا تھا کہ، "ہمارا تعلق تانگیر دیامر سے ہے۔ والد خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑگئے۔ خاندان میں کئی اور لوگ بھی خاندانی دشمنی کی وجہ سے قتل ہوئے۔ خاندانی دشمنی سے تنگ آکر گاوں چھوڑا تھا۔ اب ہم والدہ کے ساتھ گلگت شہر میں رہتے ہیں۔ گھر کا بڑا بیٹا ہوں۔ معاشی حالات بھی ٹھیک نہیں رہے۔ اس لئے اخراجات پوری کرنے کے لئے لنڈا مارکیٹ میں دیہاڑی پر کام "کرتا ہوں دن بھر کچھ پیسے کماتا ہوں تو شام کو گھر جاکے والدہ کو دے دیتا ہوں جس دن کام پرنہیں پہنچ پاتا ہوں تو اس دن کی اجرت سے بھی محروم رہتا ہوں۔”
"سکول جانا چاہتا ہوں لیکن گھر والوں نے مجھے کہا ہے کہ اخراجات پورے نہیں ہوتے اسلئے سکول جانے کی بجائے کچھ کما کے گھر کی زمہ داری پوری کرو ۔ مجبوری تھی کہ کام کرکے گھریلو اخراجات پوری کرلے”
صرف عزیر ہی نہیں بلکہ گلگت شہر میں ایسے سینکڑوں مزدور بچے نظرآتے ہیں جو گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ہر تین میں سے ایک بچہ خاندانی دشمنی یا والد کے قتل کے بعد ہی مزدوری کی طرف آیا ہے پورے صوبے میں ہر چار میں سے ایک بچہ محنت مزدوری کرتے دکھائی دیتا ہے بچوں میں مزدوری کی اگر تناسب نکالے جائے تو پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں گلگت بلتستان سر فہرست پہ نظر آتا ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان چائیلڈ لیبر سروے کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے جس کے مطابق صوبے میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی ہے سروے رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ضلع شگر کے 28 فیصد بچے محنت مزدوری کرتے ہیں ضلع نگر 24 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پرآتا ہے جبکہ ضلع گنگچھے میں 23 فیصد استور 21 فیصد سکردو 16 فیصد غذرہنزہ اور کھرمنگ 9 فیصد گلگت 7 فیصد اور سب سے کم دیامر میں 5 فیصد کام کرنے والے کم عمر بچے پائے جاتے ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق سروے میں صوبے کے دیہی اور شہری علاقوں کے 5 سے 17 سال کے 400،000 بچوں سے تفصیلات پوچھے گئے ان میں سے 50،000 بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور سخت موسمی حالات میں یہ بچے مشقت کرتے ہیں اور گھریلو ضروریات پورے کرتے ہیں دریں اثنا گلگت بلتستان کے 30 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
کام کرنے والے بچوں کی حقوق پر کام کرنے والے ماہر ممتاز گوہرکے مطابق "پاکستان کے تمام صوبوں کے مقابلے میں گلگت بلتستان سب سے زیادہ کام کرنے والے بچوں کی تعداد رکھنے والا صوبہ ہے” اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ممتاز گوہر کا کہنا تھا کہ، "گلگت بلتستان چونکہ پہاڑی علاقہ ہے آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے کاشت کاری کرنے کے لئے زمینیں کم ہیں بڑوں کو کام کرنے کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہے جس سے غربت کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے غربت ہی بنیادی وجہ ہے گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بچے کام کرنے لگ جاتے ہیں اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کام کرنے والے پچاس ہزار بچوں میں سے زیادہ تر سکول نہیں جاتے تعلیم کی سہولیات کا فقدان بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے گلگت بلتستان کے ہر گاوں سطح پر پرائمری سکول کی سہولت موجود نہیں ہے بچے انتہائی سخت موسمی حالات میں 8، 10 کلومیٹر پیدل چل کر قریبی علاقوں کے سکولوں میں جاتے ہیں سکول دور ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچے تعلیم کو جلدی خیر باد کہتے ہیں اور محنت مزدوری کی طرف چلےآتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ ہر گاوں میں کم از کم پرائمری لیول کے سکول ہو تاکہ بچے پڑھ سکے اورمزدوری کی طرف کم سے کم جائے کہا کہ کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے قوانین کا سخت نا ہونا اور قانون پر عملدر آمد نہ کرنے سے بھی لوگ بچوں کو محنت مزدوری کی طرف لے جاتے ہیں”۔
ممتاز گوہر نے مزید کہا کہ، "کارخانوں دکانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ اس لئے ہوتے ہیں کہ بچے کم اجرت پہ کام کرتے ہیں اور ان کو اپنے حقوق کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا ہے ان سے مختص دورانیئے سے زیادہ کام لیتے ہیں اور آور ٹائم کی اجرت کا تقاضا بھی نہیں کرتے ہیں اس لئے مالکان بچوں سے کام کروانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ مالکان زیادہ پیسے کمائے جاسکے”
گلگت بلتستان کے معروف سماجی شخصیت ڈاکٹرشجاعت حسین میثم نے بھی گلگت بلتستان میں کام کرنے والے بچوں کہ تعداد بڑھنے کی بڑی وجہ غربت کو قرار دیا کہا کہ، "دیگر صوبوں میں بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن گلگت بلتستان میں صرف غربت ہی اس کا زمہ دار ہے مزید برآں اس کے بڑھنے کی وجوہات مہنگائی، عام لوگوں کو بنیادی ضروریات نا دینا، آبادی میں کنٹرول نہ کرنا اور بے روزگاری ہیں” انہوں نے اس کی ادراک کے لئے سخت قانون بنانا اور قانون پر عملدرآمد کرانے کو زور دیا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بھی حکومت کو تمام دیہی علاقوں میں تعلیم کی سہولیات پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا ہے کہا کہ، "گلگت بلتستان میں لوگوں کو نوکریوں کے مواقع نکالنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو سرکاری نوکریوں کے علاوہ کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ہے حکومت نجی زرائع سے بھی روزگار کے مواقع پیدا کریں تاکہ بے روزگاری کی شرح میں کمی آئے غربت کم ہوجس سے لوگوں کی معیار زندگی بھی بہتری کی طرف آئے گی اور لوگ اپنے بچوں کو پڑھانے کی طرف لے جائیں گے جس سے خود بخود کام کرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔”