گلگت بلتستان مستقل صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
جی ہاں یہ سوال بجا ہے کہ عبوری کیوں گلگت بلتستان پاکستان مستقل صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟ سوچنے والوں نے یقنناً اس پر تفصیلی غور و خوص کے بعد ہی صوبہ کے ساتھ عبوری کا لاحقہ لگا دیا ہوگا تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں گلگت بلتستان کے مقامی لوگ گومگو کی کفیت میں مبتلا ہیں ۔ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی یہاں کے باسیوں کے ساتھ ہاتھ ہونے کی صورت لوگوں میں پائی جانے والی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
2009 میں تمام پاکستانیوں کو بتایا گیا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بن چکا ہے۔ عام آدمی نظام حکومت کی موشگافیوں سے واقف نہیں اس لئے درجنوں پاکستانی دوست اب ہم سے روز استفسار کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو تو بہت پہلے صوبہ بنایا گیا تھا اب دوبارہ یہ عبوری صوبے کی کیا کہانی چل رہی ہے؟ ایسے دوستوں کو سمجھانے کے لئے ہمیں پھر کہانی شروع سے دہرانی پڑتی ہے۔
یعنی یکم نومبر 1947 سے قبل گلگت بلتستان مہاراجہ کمشیر کے زیر حکمرانی ریاست کشمیر کا ایک صوبہ تھا۔ جس کا آخری گورنر گھنسارا سنگھ تھا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد گلگت شہر سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر دور بونجی کے مقام پرتعینات ریاست کشمیر کی ریگولر آرمی یعنی کشمیر انفنٹری اور گلگت شہر میں تعینات انگریز کمانڈنٹ میجر براون کی قیادت میں مقامی پیراملٹی فورس یعنی گلگت سکاوٹس نے مہاراجہ کشمیری کی حکومت کے خلاف یکم نومبر 1947 میں علم بغاوت بلند کیا۔ جس کے نتیجے میں گلگت میں تعینات آخری کشمیری ڈوگرا گورنر گھنسارا سنگھ کو جب گرفتار کر کے قیدی بنا دیا گیا تو مقامی انقلابی کونسل نے گلگت کے مقامی راجہ کی سربراہی میں اپنی ایک عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن صرف 16 دنوں کے اندر اندر پاکستان کی حکومت نے سردار عالم نامی اپنا نمائندہ یہاں بھیجا جس نے بحثیت پولیٹیکل ایجنٹ چارج سنھبالتے ہی مقامی حکومت کو معزول کردیا ، مقامی حکومت کے سربراہ کو سول سپلائی آفیسر کی نوکری پر لگا دیا اور گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد کی ایک ایجینسی کے طور پر انتظام چلانے لگا۔ 1949 میں معاہدہ کراچی (جو کہ آذاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان ہوا تھا) کے بعد گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد سے الگ کر کے نئ وجود میں آنے والی وزارت امور کمشیر و گلگت بلتستان کے سپرد کیا گیا۔ تب سے لیکر اب تک گلگت بلتستان وفاق کے زیر انتظام ایک انتظامی یونٹ کے طور پر چلایا جاتا رہا ہے۔ ان ستتر سالوں کے دوران جی بی میں کئ انتظامی اصلاحات متعارف کرائے گئے جن میں انیس سو ستر کی دہائی میں گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے نظام کا خاتمہ اور مشاورتی کونسل کا قیام، اٙسی کی دہائی میں مقامی حکومتوں کا قیام ، نوے کی دہائی میں قانون ساز کونسل کا قیام اور پہلی دفعہ جماعتی بینادوں پر انتخابات اور سن دوہزار کے بعد جی بی اسمبلی اور کونسل کا قیام شامل ہیں۔
مذکورہ تمام ادوار میں یہاں کا سیاسی و انتظامی نظم و نسق چلانے کے لئے وفاق کی طرف سے عارضی انتظامی آرڈرز جاری کئے جاتے رہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران مقامی لوگوں نے آئینی حقوق اور گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے اور آئینی حقوق کے مطالبات کے ساتھ سیاسی تحریکیں چلائیں لیکن نہ تو صوبہ بنایا جاسکا اور نہ ہی آئینی حقوق کا قضیہ حل ہوسکا، تاہم یہاں کا نظم نسق چلانے کے لئے وفاق کی طرف سے مختلف ادوار میں ایل ایف اوز اور گورننس آرڈرز کا اجراء کیا جاتا رہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس علاقہ کا مسلہ کمشیر کا حصہ ہونے کے ساتھ متنازعہ حیثیت تھی۔ موجودہ وقت میں گلگت بلتستان میں انتظامی و سیاسی طور پر کم و بیش ایک صوبے کا ڈھانچہ تو موجود ہے مگر یہ سب آئین پاکستان میں درج نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک غیر آئینی صوبہ ہونے کے ساتھ محض ایک انتظامی یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ستر سالوں میں گلگت بلتستان میں انتظامی طور پر کچھ تبدیلیاں رونما ضرور ہوئی ہیں لیکن اس علاقہ کی سیاسی حیثیت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے گلگت بلتستان پارلیمنٹ آف پاکستان اور دیگر آئینی اداروں میں نمائندگی نہیں رکھتا اور نہ تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی حیثیت واضح طور پر یہ ہے کہ یہ علاقہ تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادوں کی روشنی میں عارضی طور پر پاکستان کا ایک عبوری وفاقی انتظامی یونٹ ہے۔
اب آجکل اس انتظامی یونٹ کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی بات چل رہی ہے۔ عبوری کا لفظ اس کی سیاسی و متنازعہ حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گویا اصل کہانی ہی عبوری کے لفظ میں چھپی ہوئی ہے۔
ماضی کی انتظامی و سیاسی اصلاحات کی طرح آنے والا پیکیج بھی عارضی ہی ہوگا مگر ماضی کی نسبت اس دفعہ اس پیکیچ میں نیاء یہ ہے کہ اس علاقہ کو آئین پاکستان میں چند تبدیلیوں کی مدد سے قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر قومی پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ اختیار اس علاقہ تک بڑھایا جائیگا۔ جس پر ان دنوں زور و شور سے مشاورت جاری ہے ۔ اگر آئین پاکستان میں تجویز کردہ ترامیم قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہوجاتی ہیں تو یہ علاقہ وفاقی انتظامی یونٹ کی بجائے آئندہ عبوری آئینی صوبہ کے نام سے لکھا اور پکارا جائیگا۔ لیکن لفظ عبوری کی وجہ سے اس کی خصوصی متنازعہ حیثیت بحال رہے گی ۔ پارلیمنٹ آف پاکستان سے آئین پاکستان میں چند ترامیم کے بعد اس کو عبوری صوبہ بنائے جانے کے باوجود اس کی خصوصی حیثیت میں فرق نہیں آئے گا۔ خصوصی حیثیت میں تب تبدیلی آئے گی جب پاکستان اور بھارت اِدھر ہم اّ دھر تم کے تحت اپنے اپنے زیر انتظام کشمیر کو مستقل اپنا حصہ بنائینگے اور تنازعہ کمشیر حل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے دونوں ممالک مستقل سرحدات کا تعین کرینگے۔ جو کہ فی الحال ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اس لئے گلگت بلتستان میں جو بھی اصلاحات متعارف ہونگی وہ عبوری و عارضی طور پر ہونگی مستقل نہیں ہونگی۔
بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی جو سرحد کشمیر اور گلگت بلتستان میں موجود ہے وہ مستقل سرحد نہیں ہے بلکہ عبوری اور عارضی سرحد ہے جس کو لائین آف کنٹرول کہا جاتا ہے جہاں دونوں ممالک کی افواج تعینات ہیں۔ نیز پاکستان اور چین کے درمیان بھی سر حد عارضی و عبوری ہے جو کہ ساٹھ کی دہائی میں طے ہونے والے پاک چین سرحدی معاہدہ میں درج ہے۔ ان سرحدات کا عبوری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کے درمیان کشمیر بشمول گلگت بلتستان متنازعہ ہیں۔ بھارت نے کمشیر کے اوپر اپنے موقف کو تقویت دینے کے لئے اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنے آئین کا حصہ بنا دیا ہے جبکہ پاکستان کے زیر اانتظام کشمیر کو بھی وہ اپنا حصہ کہتا ہے ۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کمشیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ ہے اس لئے اس مسلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہے۔ پاکستان کے موقف کی روشنی میں جب تک کشمیر کا تنازعہ موجودہ رہے گا یہاں ہر معاملہ عبوری و عارضی ہے اس لئے موجودہ پیکیچ کو ماضی کی طرح عبوری و عارضی سمجھا، لکھا اور بولا جائیگا۔ تاہم ان عبوری اصلاحات کے فوائد یا نقصانات پر تفصیلی بات ہوسکتی ہے کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں ان اصلاحات کے کوئی خاطر خواہ مثبت اثرات پڑنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ بظاہر یہ عالمی اداروں سے قرضہ لینے کے لئے ایک کاغذی کارروائی معلوم ہوتی ہے جو کہ عبوری کا لاحقہ لگنے کے بعد شاید کسی خاص کام کی نہیں ہوگی . عبوری صوبہ کا ایک مثبت پہلو جو موجودہ وفاقی و صوبائی حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان ستتر سالوں سے پاکستان کے زیر انتظام ہے مگر پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی کے بغیر یہ رشتہ چل رہا ہے اب پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی سے یہاں کی سیاسی محرومیاں یکسر ختم ہو جائینگی، جبکہ مقامی قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ عبوری آئینی صوبہ بنانے کی آڑ میں یہاں کی خصوصی حیثیت کی بنیاد پر ملنے والے فنڈذ اور سبسڈیز ختم کی جائینگی، ڈیموگرافی تبدیل کی جائے گی، وفاق کا شکنجہ مزید سخت کیا جائے گا اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوجائے گی جس سے یہاں کی محرومیوں میں مزید کئ گنا اضافہ ہوجائے گا۔
یہ تمام باتیں کتنی غلط ہیں یا کتنی درست یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم وفاق کے لئے گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت کو مستقل بنیادوں پر تبدیل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔ اس لئے ارباب اختیار نے متنازعہ کے ساتھ "عبوری” کے لاحقہ سے فی الحال جیسے تیسے گزارہ چلانے کی ٹھان لی ہے۔