8مارچ ،حقوق نسواں کا عالمی دن اور اسلام
خاطرات: امیرجان حقانی
دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ممالک میں 8 مارچ خواتین کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا،پھر 1975میں اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا ، تب سے اب تک خواتین کے نام پر عجیب و غریب سلسلے شروع ہوچکے ہیں۔حقوق نسواں کا شاید سب سے زیادہ ڈھنڈروا پیٹا گیا ہے،تاہم سچ یہ ہے کہ آج بھی مشرق کی طرح،مغرب میں بھی خواتین سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔یہ ہماری بدقسمتی ہوئی ہے کہ ہم شعبہ زندگی کے تمام شعبوں میں پستی کا شکار ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت و تجارت غرض ہر چیز پر ہمارا لیبل تھا،ہم ہی دنیا کے بڑے فیصلہ ساز تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ہم سے ہمارا سب کچھ چھن گیا یہاں تک کہ اب اسلام کی تفہیم کے لیے بھی ہمیں مغرب کا سہارا لینا پڑھ رہا ہے۔ہم صرف مرثیہ خواں رہ گئے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ ”خواتین کے حقوق” کا بھی ہوا۔آج ہم خواتین کے حقوق بھی امپورٹ کرنے کے چکر میں ہیں۔ان امپورٹڈ حقوق کے لیے ایسے ایسے خوش نما نعرے اور پروگرام وضع کیے جاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اس کے ردعمل میں ”یوم حیا” منانے کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔میر دانست یہی ہے کہ ردعمل میں کیا جانا والا عمل فروٹ فل نہیں ہوتا۔ غرض عام انسان ہر ایک کے نرغے میں ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ جانبین سے نعرہ بازیوں ، مارچوں اور ریلیوں کا تانتا بندھنے والا ہے۔کاش اس سب کے بجائے ہم خواتین کے وہ سب حقوق بیان کرتے جو پیارے حبیب ﷺ نے اپنی زندگی میں عطا کیے ہیں اور پھر ہم سب دل وجان سے ان کو تسلیم بھی کرتے اور خواتین کو ان پرعمل پیرا ہونے کا خوش دلی سے موقع بھی دیاجاتا، تو ہمیں باہر سے خواتین کے حقوق امپورٹ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی حیا مارچ یا یوم حیا منانے کی قباحتوں میں پڑ جاتے ۔آج کی محفل ان چیدہ چیدہ حقوق کے لیے خاص ہے جو آپ ﷺ نے اپنے دور میں عملی طور پر اقدام کرکے خواتین کو عطا کیے ہیں۔آپ آخر تک ساتھ رہیے گا۔ نشست مفصل ہونے کا بھی خطرہ ہے کیونکہ آپ ﷺ نے عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق پر اتنی وسعت رکھی ہے جو ہمارے جیسے کم ذہنوں میں سمانا مشکل ہوجاتاہے۔
عورت کے وجود سے کسی انسان کو انکار نہیں ہوسکتا اور نہ ہی آج کے جدید اور مصائب و مسائل پر مشتمل دور میں عورت کے سماجی، سیاسی، معاشی اور گھریلوی کردار سے کسی کو فرار ممکن ہے۔ایک کامیاب اور صحت مند معاشرے کے قیام میں ہر دور میں عورت کا بہترین کردار رہا ہے۔اس کے بغیر اس کا قیام ممکن بھی نہیں۔یاد رہے عورت کے بارے میں وہی بات مسلمان کے لیے حرف آخر ہے اور قول فیصل ہے جو پیارے حبیب ﷺ نے بتلایا ہے یا خود کرکے دکھلایا ہے۔نبوی زندگی اور عہدرسالت میں عورت زندگی کے ہر شعبہ میں برابر شریک تھی۔عبادت سے لے کر معاملات اور جنگوں تک خواتین موجود تھی، ان امور کی شہادت احادیث اور سیرت سے ملتی ہے۔عورتیں مساجد میں باجماعت نماز ادا کیا کرتی تھیں۔آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے اور اسی طرح نماز جمعہ باجماعت پڑھ لیتی تھیں۔
”جب تم سے تمھاری عورتیں رات کومسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو اجازت دے دیاکرو۔(صحیح بخاری)۔اسی طرح اُمِ ہشام بنت حارث نے فرمایا کہ” میں نے سورہ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سن کر ہی یاد کی ہے کہ ۔آپؐ ہرجمعہ کو خطبہ میں منبر پرپڑھاکرتے تھے”۔(صحیح مسلم)
اسلام نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنا کا نہ حق دیا ہے بلکہ ان کی مکمل تربیت اور اس کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے، اُس کے لیے جنّت ہے”۔(سنن ترمذی)۔خواتین کی تعلیم و تربیت پر احادیث رسول زبان زد عام ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے عورت کو امان دینے کا حق بھی دیا ہے۔ام ہانی رضی اللہ عنہا نے ایک مشرک کو پناہ دی تو آپ ﷺ نے ان کی پناہ برقرار رکھتے ہوئے فرمایا ” اے امّ ہانی! جس کوتم نے امان دی، اس کوہم نے امان دی”۔(سنن ابوداؤد)۔اسی طرح آپ ﷺ نے جہاد میں شرکت کا حق دیا بلکہ ازواج مطہرات کو اپنے ساتھ غزوات میں لے جاتے رہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّ سلیم کوجہاد میں لے جاتے تھے اور انصار کی کئی اورعورتوں کوبھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔جب صحابہؓ جہادکرتے تویہ عورتیں ان کوپانی پلاتیں اورزخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں”۔(سنن ابوداؤد)
آپ ﷺ جہاد اور دیگر مواقع میں خواتین سے بہت سارے کام لیتے تھے اور خواتین اسلام بھرپور انداز میں طبی خدمات اور دیگر سماجی کام کیا کرتی تھیں۔حضرت خالد بن ذکوان کابیان ہے کہ حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ نے فرمایا کہ” ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریکِ جہاد تھے، چنانچہ مسلمانوں کوپانی پلانا،ان کی خدمت کرنانیز شہیدوں اورزخمیوں کومدینہ منورہ پہنچاتے تھے”۔(صحیح بخاری)۔
آپ ﷺ خواتین کا حق مشاورت نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ خود عمل بھی کرتے ۔” اُمّ سلمہؓ صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔صلح کے بعد آنحضرتؐ نے حکم دیاکہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں۔ لیکن سب اس قدردل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اُٹھا۔تین مرتبہ باربارکہنے پربھی کوئی آمادہ نہ ہوا (چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں) اس لیے تمام لوگ رنجیدہ تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیمے میں تشریف لے گئے اورحضرت امّ سلمہؓ سے لوگوں کے رویہ کاذکر کیا۔تب اُمّ سلمہؓ نے فرمایا: ’’آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں،بلکہ باہرنکل کرخودقربانی کریں اور احرام اُتارنے کے لیے بال منڈوائیں‘‘۔ آپؐ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے۔اب جب لوگوں کویقین ہوگیاکہ اس فیصلے میں تبدیلی نہیں ہوسکتی توسب نے قربانیاں کیں اوراحرام اُتارا۔ہجوم کایہ حال تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے اور عجلت اس قدرتھی کہ ہرشخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا”۔ (صحیح بخاری)اس واقعہ سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ خواتین کی مشاورت کا کتنا احترام کرتے تھے۔
سید الابرار ﷺ نے خواتین کو بے شمار تمدنی حقوق عطا کیے ہیں۔ چند ایک کا ذکر کرتا ہوں۔نکاح میں عورت کی رضامندی لازم قرار دیا۔”حضرت خنساء بنت خزام انصاریہؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کانکاح کردیا، جب کہ یہ شوہر دیدہ تھیں اوراس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ پس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئیں۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ نکاح نہیں ہوا”۔(صحیح بخاری)۔آپ ﷺ نے بیٹی کے نکاح میں ماں سے مشورہ لینا کا حکم صادر فرمایا اور اسی کو معتبر قرار دیا۔حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” مشورہ لوعورتوں سے ان کی بیٹیوں کے نکاح میں”۔(سنن ابودائود)۔آپ ﷺ اپنی ازواج پر بہت مہربان تھے اور اپنی امت کو بھی مہربانی اور شفقت کا حکم فرمایا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ” تم میں سے بہتروہ ہے جواپنی بیوی کے لیے بہترہو اورمیں اپنی بیوی کے لیے بہتر ہوں”۔(سنن ابن ماجہ) ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف، مال کے عوض خلع کا حق، مطلقہ کا بیٹے پر حق،بیوہ کا حق،مال کے ذریعے خلع لینا کا حق، بیوی کی معاونت کا حکم، حائضہ عورت کے ساتھ انس و محبت اور بہترین سلوک وبرتاؤ جیسے بہت سارےسماجی و تمدنی معاملات میں خواتین سے حسن سلوک اور ہمدردی کرنے کے ارشادات آپ ﷺ سے مروی ہیں ۔
آپ ﷺ کی سیرت اور کتب حدیث میں سینکڑوں احادیث عورت کے معاشی حقوق پر موجود ہیں۔”حضرت حکیم بن معاویہ القشیری ؓ سے مروی ہے کہ میں نے کہا: یارسولؐ اللہ! ہمارے اوپر بیوی کاحق کیاہے؟آپؐ نے فرمایا جب توکھانا کھائے تواس کو کھلا اور جب توکپڑاپہنے تواس کوپہنا اوراس کے منہ پرمت مار اوربرامت کہہ اورسوائے گھر کے اس سے جدامت رہ”۔(سنن ابوداؤد)۔ اسی طرح حق مہر،حق ترکہ،حق تجارت،شوہر کے مال اور کمائی سے خرچ کرنے کی نہ صرف اجازت بلکہ ثواب کا مژدہ،کنجوس شوہر کے مال میں بغیر اجازت تصرف کا حق،مالی امور و معاملات پر دخل دینے کا حق وغیرہ، ان میں سے ہر عنوان کے لیے باقاعدہ فرامین مصطفیٰ ﷺ موجود ہیں۔عورت کے ہر طرح کے معاشی حقوق کا اسلام نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ نگہبان بھی ہے۔
سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ نے خواتین کو بہت سارے معاشرتی حقوق بھی عطا کیے ہیں۔عورت کو سیر وتفریح اور گھر سے باہر نکلنےکا بھرپور حق حاصل ہے۔ام المومنین سیدہ عائشہؓ روایت کرتی ہیں۔” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے حجرے کے دروازے پردیکھااور حبشی مسجد میں کھیل رہے تھے۔ آپ ؐ نے مجھے بھی اپنی چادرکی اوٹ میں کھڑاکرکے کھیل دکھایا”۔(صحیح بخاری)۔عورت کو ہر وقت گھر میں قید نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ ضرورت کے وقت انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں۔”ایک موقع پر آپ ﷺ ”فرمانے لگے:تمھیں(خواتین) ضروری حاجت کے تحت باہرنکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔”(صحیح بخاری)۔عورتیں محرم کے ساتھ بڑے سے بڑا سفر بھی کرسکتی ہیں۔حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” کوئی عورت تین دن کاسفر نہ کرے، مگریہ کہ کوئی محرم رشتہ دار اس کے ساتھ ہو”۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح احادیث رسول میں مذکور ہے کہ خواتین تعزیت کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہیں، خواتین کو مسجد کی صفائی،حائضہ خواتین کو مہندی لگانے، اپنے مال میں صدقہ و خیرات کرنے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا حق رسول اللہ نے عطا کیا ہے۔دور نبوی میں جتنے بھی معاشرتی لوازمات تھے ان میں سے کسی سے بھی آپ ﷺ نے خواتین کو محروم نہیں رکھا ہے۔
میرے پیش نظر بہت ساری احادیث اور دور نبوی ﷺ کے واقعات ہیں۔کچھ کا ذکر کیا ہے باقی حقوق کا عنوانات کے ذریعے صرف اشاہ کیا ہے۔اگر تمام احادیث اور واقعات کو ذکر کرتا تو تحریر مفصل ہوجاتی جس کی گنجائش موجود نہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرتی، سماجی، قانونی، سیاسی ،علمی اور شعبہ ہائے زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں خواتین کو جو حقوق اسلام اور آپ ﷺ نے دیے ہیں۔ پھر عہد رسالت میں آپ ﷺ کی سرگرمیوں سے جوکچھ معلوم ہوجاتا ہے تو دور حاضر میں ہم ان سرگرمیوں سے استفادہ و اسنتباط کرکے خواتین کے حقوق بیان کیے جاسکتے ہیں۔اہل علم نے بہت کچھ لکھا بھی ہے مگر بدقسمتی سے اس کا شہرہ نہیں ہوپاتا اور نہ ہی وہ حقوق ذکر کیے جاتے ہیں ۔جب ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو معاشرہ بالخصوص دو طبقات میں منقسم ہوجاتا ہے۔ ایک نعرہ لگاتا ہے ”میرا جسم میری مرضی” اس کے ضد میں آکر دوسر ا نعرہ لگاتا ہے ” میرا جسم رب کی مرضی”۔پھرمسلمانوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ اور خوب مغلظات بکے جاتے ہیں اور ان دونوں نعروں کی ایسی تشریح کی جاتی ہے کہ الامان والحفیظ
”میرا جسم میری مرضی” دراصل ایک پورے طرزحیات کی ترجمانی کرتا ہے۔اسی طرح ”میرا جسم رب کی مرضی” بھی ایک مکمل فلسفہ حیات کی ترجمانی کررہا ہے۔ اہل مذہب کو چاہیے کہ مغرب سے امپورٹڈ اس ”طرز حیات ” کا علمی جائزہ لیں نہ کہ اس کے مقابلے میں ویسے ہی نعرے وضع کرکے اپنا مقدمہ کمزور کریں۔اور اپنا مقدمہ عورت کے جملہ حقوق جو رسول اکرم ﷺ نے عطا کیے ہیں کو بیان کرکے مزید پختہ کریں نہ کہ ضد میں آکر خواتین کے حقوق کا ہی انکار کر بیٹھیں۔بدقسمتی سے دو طرز فکر و فلسفہ حیات کے لوگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ان دونوں کی پوری بنیادیں ہیں مگر جو لوگ نعرے لگاتے ہیں وہ دونوں طرز فکر اور فلسفہ حیات سے نابلد ہیں۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں اب تو مارچ شروع ہونے والے ہیں۔ کوئی حیا مارچ کرے گا تو کوئی خواتین مارچ کرے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں طبقات کو ان جملہ حقوق کا جائزہ لینا چاہیے جو اللہ ، اس کے رسول اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خواتین کے تسلیم کیے ہیں اور اپنے ادوار میں تنفیذ بھی کیے ہیں۔اللہ کرے خواتین کے بارے ہم عدل و انصاف سے کام لیں، خواتین کے حقوق ہوں یا حقوق کے نعرے، سب کچھ اعتدال سے کریں۔