عالمی یوم خواتین کا پیغام!
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
ہم گذشتہ پانچ سالوں سے ایک ایسی خاتون کا کیس دیکھ رہے ہیں جو مکمل بے گھر ہے۔ اس خاتون کو ان کے میاں نے پانچ سال قبل طلاق دی تھی۔ یہ خاتون جب اپنے بھائیوں کے ہاں گئ تو انہوں نے ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر سے نکال دیا۔ اس وقت سے یہ خاتون بے گھر ہے اور مختلف مخیر حضرات نے ان کو مختلف اوقات میں اپنے گھر پر پناہ دے رکھی ہے۔ اس دوران یہ خاتون بچوں سے بھی دور رہی اور گھر کی تلاش میں سرگرداں رہی۔ یہ خاتون وراثت میں اپنا شرعی و قانونی حق مانگنے کو روایات کے خلاف سمجھتی تھی اس لئے اس نے بھائیوں سے حق نہیں مانگا مگر خود کو پانچ سالوں تک شدید مشکلات سے دوچار کرتی رہی جس کا احساس ان کے بھائیوں کو کھبی نہیں ہوا۔
سخت نامساعد حالات نے اس خاتون کی تربیت کی اور بالاخر اس خاتون نے اپنے شرعی حق کے لئے مقامی عدالت سے رجوع کیا۔ اس وقت ان کا کیس مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ اس کے باوجود ان کے سابقہ شوہر اور بھائیوں کا خیال ہے کہ یہ عورت ہی بری ہے کیونکہ یہ اپنا حق مانگتی ہے۔ ہر حق مانگنے والی عورت سماج کو اس لئے بری لگتی ہے کیونکہ سماج نے ابھی تک عورت کو انسان کا درجہ نہیں دیا ہے۔ ان پانچ سالوں میں یہ خاتون خون کے آنسو بہاتی اور دربدر پھرتی رہی ہے۔ اس خاتون کو آج کے دن اس لئے خراج تحسین پیش کرنی کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے خودکشی کرنے کی بجائے اپنے شرعی و قانونی حق کی جنگ لڑنے کو ترجیح دی۔
ہمارا خیال ہے کہ جب تک خواتین کو معاشی تندگدستی سے نہیں نکالا جاتا ہے، جب تک ان کو وراثت میں حق نہیں دیا جاتا ہے اور جب تک ان کے معاشی حقوق تسلیم نہیں کئے جاتے ہیں تب تک وہ یوں ہی مشکلات کا سامنا کرتی رہیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جہیز کی فرسودہ روایت کو ختم کر کے بیٹیوں کو والدین کی طرف سے وراثت میں ان کا شرعی و قانونی حق دیا جائے تاکہ وہ سرد گرم حالات سے گزرتے ہوئے بے گھر ہوکر ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ عالمی یوم خواتین پر ہم خواتین کے اس ایک حق کو تسلیم کریں گے تو باقی کئ حقوق کی خود بخود حفاظت ہوجائے گی۔ آج کے دن کی مناسبت سے ہم نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار جانے والی تمام خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جبکہ سخت ترین مشکل حالات میں زندگی کی جنگ لڑنے والی تمام بہادر خواتین کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں