کالمز

گوبل وارمنگ میں سرمایہ دار ممالک کا کردار

تحریر: نیلوفر بی بی
دنیا میں ہتھیار بنانے اور فروخت کرنے والے ممالک میں تمام بڑے صنعتی اور سرمایہ دار ممالک شامل ہیں ۔
تمام  چھوٹے پسماندہ اور غریب ممالک ان ہتھیاروں کے خریدار ہیں۔
دنیا میں امن و امان کو خراب کرنے والے،دنیا میں تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے ممالک میں دنیا کے ترقی یافتہ اور سرمایہ دار ممالک  شامل ہیں۔کیوں کہ ان کی معیشت کا انحصار ہی ہتھیاروں کی تجارت پرہے۔
 جبکہ دنیا میں  جنگ وجدل سے متاثر ہونے والے  ترقی پذیر اور غریب ملک کے شہری ہیں۔پھر یہی سرمایہ دار ممالک جنگ و جدل سے متاثرہ ممالک میں امن کے لیے دیا جلاتے ہیں ۔خود کو امن کی فاختہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
ایک طرف دنیا میں  ان کی مہربانیوں سے جہالت اور غربت میں  اصافہ ہورہا ہے دوسری طرف  غربت کے خاتمے کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں۔
ایک طرف  منشیات کے تمام بڑے کارخانوں کے یہ ما لک ہوتے ہیں دوسری طرف غریب ممالک میں منشیات کے خلاف  شعور و آگاہی کے لئے این جی او  بھی قائم کرتے ہیں۔
 دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں سب سے زیادہ کردار ان سرمایہ دار ممالک کا ہوتا ہے اس کے باوجود دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کے تحفظ اور پاسداری کر کے لیے ہیومن رائٹس کے ادارے بھی یہی ممالک چلارہے ہوتے ہیں۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کر و ہو      ،   کہ کرامات کرو ہو
مگر  ہمیں ان سرمایہ دار،صنعتی ممالک کی یہ دوہری چال اور منافقت نظر نہیں آتی اور ہم دوسروں کے پیدا کردہ مسائل کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔آپس میں دست و گریباں ہیں ۔
مجھے ترقی پذیر ،پسماندہ ممالک کی حکومت،پالیسی میکرز اور ماہرین پر ہنسی آجاتی ہے جو  عوام کے ٹیکس کا پیسہ فالتو میں خرچ کر کے بڑے بڑے ہوٹلوں می گوبل وارمنگ کے متعلق اجلاس اور سیمیناز کرتے ہیں۔
درخت لگانے کی تبلیغ کرتے ہیں۔
میرے بھائی اگر پورے پاکستان میں سرسبز جنگل ہی جنگل  اگاۓ جائیں تب بھی آپ دنیا کے صنعتی اور سرمایہ دار ممالک کے پھلاۓ ہوئے گند اور آلودگی کو صاف نہیں کر سکتے۔
مالدیپ میں درخت ہی درخت اور سبز ہی سبز ہیں کارخانے اور آ لودگی بھی انتہائی کم ہے اس کے باوجود اگلے چند سالوں میں سمندر میں ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔
مالدیپ  کسی اور کے پھلاۓ ہوئے گند  سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔
گوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ گرین گیسسز کا اخراج ہے۔
ان زہریلی گیسسز سے دنیا کے قدرتی نظام کو متاثر کرنے والے ،دنیا کے قدرتی حسن کو خراب کرنے والے دنیا کے صنعتی ممالک ہیں ۔
گلگت بلتستان میں کونسے کارخانے ہیں،پاکستان میں بجلی ہوتی نہیں  کارخانے بند ہیں پھر کیوں ہمارے گلیشیر  کو خطرات لاحق ہیں۔
دنیا میں کاربن کے اخراج کرنے والے ممالک میں سر فہرست دنیا کے ترقی یافتہ اور بڑے صنعتی ممالک شامل ہیں۔اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔
  ترقی پذیر ممالک میں غربت کی بنیادی وجہ قدرتی آفات ہیں جس کی زمہ دار دنیا کے بڑے صنعتی ممالک ہیں ۔
یہ غریب ممالک  ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے پھر انہی سرمایہ دار ممالک سے بھاری سود پر قرض   کے حصول کے لیے ہاتھ جوڑتے ہیں۔ملکی اثاثے گروی رکھ کر سود پر یہ قرض حاصل کرتے ہیں  ۔یوں اس قرض کے چنگل سے پھر کبھی نہیں نکلتے ہیں۔
قدرتی آفات کی صورت میں آپنے ملک کی حکومت پر تنقید کرنے والوں پر مجھے  حیرت ہوتی ہے۔
ہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جتنی تیاری اور منصوبہ بندی کریں ، جتنے درخت لگائے ترقی پذیر ممالک گوبل وارمنگ کو نہیں روک سکتےہیں۔
چونکہ گوبل وارمنگ اور قدرتی آفات  سے زیادہ  متاثر ہونے والے دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہیں اس لیے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو عالمی سطح پر گوبل وارمنگ کے خلاف  ، گرین گیسسز  کے اخراج میں کمی، صنعتی مصنوعات کو ماحول دوست بنانے اور گرین گیسسز کے اخراج میں کمی اور متبادل کی تلاش کے لیے ایک جاندار تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے صنعتی اور سرمایہ دار ممالک کو گوبل وارمنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے ۔قدرتی آفات میں ترقی پذیر ممالک کا جو نقصان  ہوتا ہے اس کا ازالہ کرنے کی ذمہ دار  دنیا کے صنعتی اور بڑے سرمایہ دار ممالک کی ہو
خاص طور پر قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے پسماندہ ممالک کے بیرونی قرضے معاف ہونے چاہیے۔
دنیا اور انسانیت کی بقاء اس میں ہے کہ صنعتی اور سرمایہ دار ممالک کو گوبل وارمنگ میں کمی اور خاتمے میں آ پنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button