کالمز

وزارت داخلہ حکومت پاکستان  اورچیف سکریٹری گلگت بلتستان کے نام

تحریر ۔نیلوفر بی بی

 کچھ دن پہلے ایک خبر نظروں کے سامنے سے گزری  کہ  چیف سکریٹری گلگت بلتستان کا گلگت شہر میں واقع اکلوتے پارک کا دورہ  ،  جدید  لائیٹس اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کی ہدایات کی۔ محترم چیف سکریٹری گلگت بلتستان  !  لگے ہاتھوں گلگت شہر میں واقع  تمام گورنمنٹ کے اداروں میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگا دیجئے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں پر مہربانی ہوگی۔ تاکہ  پتہ چلے اور  کیمرے کی آنکھ سے نظر آئے کہ   بد اخلاق سرکاری عملہ  اور کام چور،   کاہل بیوروکریٹس کا عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے۔  ان کے  دفتر  آنے کے اوقات کیا ہیں اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے  گلگت بلتستان کے  مجبور عوام سرکاری دفتروں کے باہر کس طرح دھکے  کھانے پر مجبور ہیں ۔

سابقہ چیف سکریٹری گلگت بلتستان کے آفس کے عملے کا عام شہریوں کے ساتھ برتاؤ دیکھ کر ہم پر جو فرعون نما بیوروکریسی مسلط ہے صرف اتنا کہ سکتے ہیں کہ اللّٰہ انہیں عام شہریوں کو انسان سمجھنے کی ہدایت دیں۔
گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں سے مسائل کے حل کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو آنکھوں میں آنسو لیے   کس طرح مجبوری کی حالت میں  زندہ لاشوں کی طرح  سرکاری دفاتر کے باہر  چکر لگاتے  ہوئے دیکھا ہے میں نے  زندگی میں کبھی مرد کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھا تھا لیکن گورنمنٹ آف گلگت بلتستان کے دفتروں کے باہر دل چیرنے والا یہ منظر  بھی دیکھنے کو ملا ۔
کیوں یہ بے حس ،فرعون نما آفیسرز  بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر کا چولہا  عوام کے ٹیکس کے دیئے ہوئے پیسوں سے چلتا ہے  ان کی اولین ذمہ داری عوام کی خدمت ہے ۔
پھر پہ عوام کی خدمت کی کرسی پر بادشاہ بن کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں جیسے عوام ان کے زر خرید غلام ہوں۔
کیوں عوام کی جانب سے دی گئی درخواستوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے ۔
سال کے آخر میں کیوں جائزہ نہیں لیا جاتا  ہے کہ عوام کی جانب سے مسئلوں کے حل کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئی  اور حکومتی اداروں کی جانب سے عوام کو کتنا ریلیف ملا۔
جو مسئلے حل نہیں ہوئے آئندہ کے لیے لائحہ عمل کیا ہوگا۔
 محسن انسانیت، رحمتہ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ٫ قوم کا حاکم قوم کا خادم ہے۔، اسلامی جمہوری معاشرے کے فرد کی حیثیت سے کیا ہمیں اس حدیث کے مفہوم کی سمجھ  بھی ہے۔  قرآن مجید میں یہودیوں کے جو منفی واصاف بیان کیے گئے ہیں آج یہ  تمام برائیاں کیا ہم میں موجود نہیں ہے۔ پھر ہمیں شرم  کیوں نہیں آتی۔
وزارت داخلہ حکومت پاکستان! اسلامی جمہوری ریاست کے شہری سرکاری آفیسر ز  کے سامنے کسی ظلم بادشاہ کے ہاتھوں ستائے ہوئے مجبور، بے کس  رعایا کی طرح کیوں پیش ہوتے ہیں ۔
محترم چیف سکریٹری گلگت بلتستان ! ایک سی سی ٹی وی کیمرہ ڈپٹی کمشنر گلگت کے آفس میں بھی لگا دیجئے تاکہ نظر آئے جب عام شہری بغیر سفارش کے  آپنے مسئلوں  کے حل کے لیے  درخواست  دیں تو کس طرح  نہایت غیر سنجیدگی اور لاپرواہی سے ان کی  درخواست سرد خانے میں ڈال دی جاتی ہے اور پھر وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب کردی جاتی ہے ۔
 مجبور عوام فاتحہ پڑھ کر، اللّٰہ کی رضا سمجھ کر صبر کرتے ہیں۔اور کوئی چارہ نہیں۔
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی  عوام آپنے مسائل کے حل کے لیے سرکاری دفتروں کے باہر دھکے  کھارہے ہوتے ہیں۔ اور آفیسرز میڈیا اور کیمرے لیے دوروں پر نکال جاتے ہیں۔ روزانہ اخبارات ان کام چوروں کی منحوس تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔  ویسے  اگر ہمارے سرکاری دفاتر میں  سی سی ٹی وی کیمرے  لگا دیئے جائیں  تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کے نیچے سرکارِ کے دفتر میں بیٹھ کر سیگریٹ پھونکنے والے آفیسر ز کا کیا بنے گا۔
بااثر   ،بدمعاش لوگوں کو سرکاری دفتروں میں جو  وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے ،چائے پیسٹریوں سے جو تواضع کی جاتی ہے۔ اس کا کیا بنے گا۔
یہ  بااثر سفارشی  اپنے گھروں سے چائے پیکر  کیوں نہیں آتے ہیں ۔یہ اتنے بھوکے کیوں ہوتے ہیں۔
کتنا عجیب ہے سرکار کے دفتر کے باہر عوام آپنے  مسائل  کے حل کے لیے کہی کہی دنوں، کہی سالوں سے دھکے کھارہے ہوتے ہیں اور سرکاری آفیسرز  بااثر  لوگوں کے ساتھ دفتر میں بیٹھ کر پیسٹریاں ٹھونس رہے ہوتے ہیں۔۔ اس بات کی تسلی ضرور ہے کہ یہ سب  حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کے نیچے ہو رہا ہے زوز محشر وہ اس کا  ضرور حساب لیں گے ۔
سابقہ چیف سکریٹری عوام سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے تھے۔  ان  دفتروں میں ہمارےاپنے علاقوں کے خوشامدی درباریوں کے روپ میں آفیسرز  عوام کو تکلیف دینے میں غیر مقامی آفیسرز  سے دو ہاتھ اگے ہیں موجود بداخلاق   ہوم سیکرٹری گلگت بلتستان کے  آفس میں  اگر  سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوتا کہ  کس  طرح  موصوف  عام شہریوں سے گفتگو فرماتے ہیں اس سے زیادہ تمیزدار ہمارے محلے میں  کوڑا  اٹھانے والا میوسپل کارپوریشن کا عملہ ہیں ۔
مجھے موصوف کی معلومات اور ڈکشنری پر حیرت ہیں  عجیب منطق سمجھائی  ہے کہ  لیبر صرف کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو کہتےہیں اور لیبر قوانین کا اطلاق صرف کارخانوں پر ہوتا ہے
جب سابقہ چیف سکریٹری گلگت بلتستان اور موجود ہوم سیکرٹری گلگت بلتستان کے سامنے اس مسلے کو اٹھایا کہ گلگت بلتستان میں خاص طور پر انٹرنیشنل پرائیویٹ اداروں اور این جی اوز میں ملازمت کے نام پر ملازمین کا جس طریقے سے استحصال ہو رہا ہے، ان اداروں میں خواتین کو جس طریقے سے ہراساں کیا جاتا ہے ۔
کیوں  ان اداروں کی رجسٹریشن کے وقت اور ان کے نام پر این ۔او  ۔ سی  جاری کرتے وقت  حکومت کی جانب سے ملازمین کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ ،لیبر قوانین کی پاسداری اور خواتین کے لیے باعزت روزگار کے مواقعوں کی فراہمی  کے لیے  ان اداروں کے ساتھ  کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ۔خلاف ورزی کی صورت میں یہ ادارے حکومت کے سامنے جواب دہ کیوں نہیں ہوتے ۔ہمارے اداروں میں ہراسمنٹ کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان میں کوئی فورم کیوں موجود نہیں ہے؟
کیوں گلگت بلتستان میں گورنمنٹ کی طرف سے برائے نام  اور  بدحال  ہیومن رائٹس کا ادارہ  موجود ہے ؟
جو گلگت بلتستان میں ہیومن رائٹس کی پامالی کرنے والوں کا حامی ہے۔
 ہوم سیکرٹری گلگت بلتستان خواتین کو مشورہ دیتے ہیں  کہ وہ تھانے جائیں ۔
ہمارے یہاں شریف مرد آپنے مسئلوں کے حل کے لیے تھانے نہیں جاتے۔ ایسے میں ایک خاتون کیسے تھانے جاسکتی ہے۔
بے حسی کی انتہا دیکھئے ایک طرف مافیاز کو کھولی چھٹی دینا اور دوسری طرف ان کے  ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کو عدالت اور تھانوں کے مشورے دینا ۔فرعون کی سلطنت میں   ظلم  کا ایسا نظام ہوتا ہو گا۔ ہماری خواتین  اس طرح کے مسائل کا گھر والوں کے سامنے ہی  ذکر نہیں کرتی  ۔
پرائیویٹ اداروں کے بارے میں ہماری ایک غلط فہمی یہ ہے کہ پرائیویٹ ادارے اپنے معاملات میں آزاد ہوتے ہیں۔ صرف ایک وڈیرہ آپنی جاگیر پر آزاد ہو سکتا ہے ۔وڈیرے کی جاگیر پر کام کرنے والے غلاموں میں اور کسی ادارے میں کام کرنے والے ملازمین میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ مہذب معاشروں میں گھریلو ملازمین کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
اقوام کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق، انٹرنیشنل لیبر قوانین کے تحت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی رو سے دنیا میں کوئی فرد یا ادارہ اپنے ملازم کی عزت نفس کو مجروح کرنے،ملازمت کے نام پر تزلیل اور استحصال کا حق نہیں رکھتا ہے۔
وزارت داخلہ حکومت پاکستان! کیا یہ سب کتابی باتیں ہیں یا عملی زندگی میں ان کی کوئی حیثیت اور اہمیت بھی ہے ؟  معاشرتی زندگی میں عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور پاسداری حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔
خواتین مجھ پر ہنستی ہیں کہ آپ کے ساتھ کچھ بھی  نہیں ہوا ہے ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہم خاموش ہیں۔ یہ ہماری کم عقلی ہے شوہر کی ذرا سی ڈانٹ برداشت نہیں  کرتے  اور کام کی جگہ پر  ذہنی مریض  مردوں کے  کیسے کیسے رویے برداشت کرتے ہیں ۔اگر آج ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو کل ہماری آنے   والی نسل کو  باعزت طریقے سے آپنی اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر معاشرے میں باعزت روزگار کا موقع ملے گا۔
ہوم سیکرٹری گلگت بلتستان کے مطابق  جب تک کسی ادارے کی جانب سے  پاکستان اور امن و امان کو  خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے۔ ہم کسی ادارے کے خلاف ایکشن نہیں لیتے ہیں ۔
 ہوم سیکرٹری گلگت بلتستان!  آپ پاکستان کی فکر مت کیجئے  پاکسان کی حفاظت کے لیے  دنیا کی سب سے بہترین فوج موجود ہے۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر گلگت بلتستان کے سپوت ہیں۔
جہاں تک امن و امان کی بات ہے اگر میں انصاف کے لیے عوام کی عدالت سے رجوع کروں کیا آپ گلگت بلتستان میں امن و امان کی ضمانت دے سکتے ہیں ۔
آپ کو یہاں گلگت بلتستان کے لوگوں کے مسائلِ کے حل کے لیے بھیجا گیا ہے۔آپ آپنا یہ فلسفہ اپنے پاس رکھیں اور یہ دیکھیں کہ کیوں ایک اسلامی جمہوری معاشرے کے اداروں میں خواتین کے لیے باعزت روزگار کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔کیوں خواتین ذہنی مریض مردوں کے جوتے چاٹ کر نوکری کرنے پر مجبور ہیں جو ایسا نہیں کرتی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کردیا جاتاہے۔
کیا باعزت روزگار کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق نہیں ہے؟
وفاقی اداروں کی جانب سے مجھے مشورہ دیا جارہا ہے کہ میں آپنا مسئلہ  میڈیا کے ذریعے اٹھاؤں تو   ایکشن لیا جائے گا۔
دنیا کے زندہ اور غیرت مند قومیں اپنے مسائل اداروں کے اندر حل کرتے ہیں ۔
جبکہ ہمارے ادارے عوام کو اتنا مجبور کردیتے ہیں خاص طور پر خواتین آ پنے مسائل کے حل کے لیے رودھو کر میڈیا  پر آجاتی ہیں ۔ہم کیوں آپنے ہی ہاتھوں سے  دینا کے سامنے آپنے ملک کی عزت اور  خوداری کا جنازہ نکالتے ہیں۔
آخر کب ہم  مہزب قوموں کی طرح عوام کے مسائل اداروں کے اندر حل کرنا سیکھ لیں گے۔
وزارت انسانی حقوق حکومت پاکستان کی جانب سے مجھے مشورہ دیا گیا کہ حکومت پاکستان کو آ پنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا احساس ہے جس کے لیے اسلام آباد میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے نام سے ادارہ موجود ہے ۔ادارے کے چیرمین کے پاس سوموٹو ایکشن لینے کا اختیار بھی ہے ۔
مجھے چیرمین کے نام درخواست دینے کو کہا گیا ۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ادارے سے میری درخواست واپس کردی گئی کہ میں گلگت بلتستان کی شہری ہوں کچھ آئینی پیچیدگیوں کی وجہ سے ادارہ ایکشن نہیں لے سکتا ہے۔
کتنی منافعقت ہے پاک دھرتی کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر  ہمارے دلیر  سپاہی جانوں کے نذرانے پیش کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کیا ہے ۔
پاکستان سے محبت اور وفاداری گلگت بلتستان کے لوگوں کے دین ایمان کا حصہ ہے۔غذر ،یاسین میں ہر دوسرے گھر میں شہیدوں کے یتیم بچے اور بیوہ موجود ہے۔
جب آپنے مسئلوں کے حل کے لیے قومی سطح پر رابط کرتے ہیں تو  ہمیں  بتایا جاتا ہے  کہ ہم پاکستانی نہیں  ہے۔
ہمارے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کے خلاف ہم  انصاف کے لیے کہاں جائیں گے۔کیا آپ صوبہ بلوچستان کے عوام کی طرح گلگت بلتستان کے لوگوں میں بھی قومی احساس محرومی پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
میں نے انہیں بتا دیا ہے  میڈیا پر میں اپنا ذاتی مسئلہ لے کر  نہیں آؤں گی۔   ستر سال سے جس طریقے سے  ہمیں ہمارے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔میں اس مسلے کو اٹھاؤں گی۔
چیف سیکرٹری گلگت بلتستان! عام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور پاسداری حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پھر  کیوں گلگت بلتستان میں انٹرنیشنل پرائیویٹ اداروں میں  ملازمین کے ساتھ ملازمت کے نام پر غلاموں سے بدتر سلوک ہو رہا ہے۔ اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہے؟
ہم ایک حیرت کدے میں جی  رہے ہیں گلگت بلتستان میں یہ انٹرنیشنل این جی اوز آ پنے ملازمین کے ساتھ  جو سلوک کرتے ہیں۔ مغرب میں کوئی آپنے پالتو کتوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا۔اب نوبت یہاں تک پہنچی ہیں یہ ملازمین کے خلاف بے بنیاد ایف آئی آر تک کاٹ دیتے ہیں۔
ایک طرف حکومتی اداروں کو بلیک میل کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں ۔ جبکہ عملی طور پر گلگت میں  ایک انٹرنیشنل  تعلیمی  ادارے کے تمام خواتین ملازمین  وزیراعظم احساس پروگرام کے مستحقین  میں  سے ہیں۔
حقیر سی تنخواہ کے ساتھ خواتین کو گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں جہاں پر ادارے کی جانب سے ہاسٹل ،سیکورٹی وغیرہ کی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی یہ خواتین گاؤں والوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں پھیلی غربت اور بے روزگاری کا یہ ادارے جس طریقے سے ناجائز فایدہ اٹھا رہے ہیں  یہ سب انسانیت کی توہین  اور  پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
میری وزارت داخلہ حکومت پاکستان سے گزارش ہے :-
1.پاکستان میں  تمام پرائیویٹ ادروں  اور  انٹرنیشنل این جی اوز کی رجسٹریشن اور این او سی کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ان پر لیبر قوانین نافذ کیے جائے اور ہر صورت میں ان اداروں میں ملازمین کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
2. پاکستان میں پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی محتسب کی طرح کسی ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کسی بھی ادارے  اور ملک کی ترقی اور کامیابی کی بنیاد صحت مند اور خوشحال محنت کشوں اور محفوظ روزگا سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔
3.اداروں میں خواتین کے لیے باعزت روزگار کے حصول کو  ہر صورت میں ممکن بنایا جائے۔
4.گلگت بلتستان میں ہراسمنٹ کے معاملات کو دیکھنے کے لیے پروفیشنل سٹاف پر مشتمل فعال ڈپارٹمنٹ قائم کیا جائے۔
5.گلگت بلتستان کی عوام دشمن بیوروکریسی کو عوام دوست بنانے  اور بغیر سفارش کے عوام کے مسائل کے فوری حل کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں جائیں۔
6. میری جانب سے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے نام لکھی گئی درخواست کی بنیاد پر میرے مسلئے کے حل کے لیے  فوری  طور پر چیف سکریٹری گلگت بلتستان کو ہدایات جاری کیئے جائیں۔
.میری درخواست گزشتہ تین ماہ سے بغیر کسی پیش رفت کے سیکرٹری ایجوکیشن گلگت بلتستان کے آفس  کے سرد خانے میں موجود ہے ۔جہاں سے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے  گا۔ بغیر سفارش کے جائز طریقے سے دی گئی درخواستوں کے ساتھ گورنمنٹ آف گلگت بلتستان کے دفاتر میں  کچھ ایسا سلوک ہوتا ہے۔
محترم چیف سکریٹری گلگت بلتستان  عوام کے مسائل جو حکومتی اداروں اور حکومت گلگت بلتستان کی غفلت کی وجہ سے کہی کہی سالوں سے حل نہیں ہو رہے ہیں انسانی ہمدردی کے ناطے عوامی شکایت کے فوری حل  کے لیئے کھلی کچہری  لگائیں ۔ اللّٰہ پاک آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button