کالمز

ریاست بلور کی گمشدہ تاریخ – آخری قسط۔

تحریر و تحقیق۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ

آٹھویں صدی عیسوی میں تبت اور چین کی رساکشی نے ریاست بلور کے اندرونی معاملات کو متاثر کیا اور بیرونی دراندازی نے اس ریاست کے سیاسی نقشے
کو کافی حد تک تبدل کردیا جس کی نشاندہی تبتی ذرائع کے ذریعے اور تصدیق شدہ چائنیز رپورٹس سے کی گئی ہے۔

بقول پروفیسر آسکر وان ہنبر” بلور ریاست کے حکمران پلولا شاہی خاندان کی حکومت کا 745 صدی عیسوی میں اس وقت خاتمہ ہوگیا جب پھیلتی ہوئی تبت کی سلطنت نے بلور شاہی بادشاہت پر حملہ کرکے اسےفتح کیا اور بلور شاہی ریاست میں بادشاہوں کے چندے سے تیار کیے گیے برونز( کانسی) کی نایاب تصاویر اپنے ساتھ تبت لے کر گئے۔ اس طرح تبت کے فتح کے بعد بلور ریاست ٹوٹ گئی اور آٹھویں صدی کے اوائل کے دوران بدھ مت کے بادشاہ  باقی نہیں رہے تھے

ریاست بلور کا اخری بادشاہ شری بدت تھا مقامی روایات کے مطابق شری بدت کو آدم خور بادشاہ کا نام دیا گیا ان کے دادا کا نام Bagartham and Vajraditya تھا ۔ ہنزہ چٹان کے نوشتہ کے مطابق Chandra Sri Deva Vikramaditya گلگت کا آخری حکمران تھا جس سے گلگت کے مقامی لوگ عام طور پر شری بدت کے نام سے جانتے ہیں ۔ چٹانون پر نقش نوشتوں کے مطابق شری بدت کا دور حکومت 749صدی عیسوی میں تھا-
تبتی باشندوں نے اپنی توسیع کو محدود نہیں کیا۔ جب انہوں نے فتح حاصل کی اور گریٹ بلور میں گھس آئے تو انہوں نے مزید مغرب کی طرف بھی اپنا اثر بڑھا دیا۔ بدلے میں چین نے خطرناک اور نقصان دہ مداخلتوں کی قیمت پر بھی ،چھوٹے بلور کی سالمیت اور آزادی کو بچانے کی کوشش کی۔

ایس-چی-لٹچے کے مطابق سن 747 ء میں لیٹل بلور میں چین کی مداخلت عمل میں آئی اور گلگت میں تبت کے حامی بادشاہ کو چینی فوج نے قیدی بنا لیا لیکن آخر کار اسے معاف کردیا گیا۔ اسی عرصے میں ، سلطنت کی ایک اور شاخ نے گریٹ بلور (بلتستان )میں حکمرانی کی۔ اس طرح تبتی نہ صرف چھوٹے بلور کو اپنی خودمختاری کے تحت لانے میں کامیاب ہوئے بلکہ وادی کنار میں اپنا تسلط بالترتیب چترال تک ہی برقرار رکھا۔

تبت سے چین کو خطرہ تھا اس لیے چینی سلطنت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ تبتی حملہ آوروں کو بالائی سندھ اور آکسس سے دور رکھے۔ تبتی شمال اور مغرب میں لداخ ، بلتستان ، گلگت ، وادی یاسین کے راستے واخان میں داخل ہوئے۔اس دوران چینی مدد کرنے آئے اور تبتوں کو شکست دی اور گلگت میں پٹوولا شاہیوں/ بلور شاہیوں کی حکمرانی بحال کی۔ لیکن تبت بلتستان کو زیر نگین کرنے میں کامیاب رہا۔

ٹی می انگو چو“ میں چھوٹے بلورکے بادشاہوں کے پورے سلسلے کے نام دیئے گیے تھے۔ مو کن منگ ، ان کے بیٹے نان ہائے ، مولائی ہی اور نان ہائے اور سو چی لی ٹکے کے بڑے بھائی کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں۔
حیرت انگیز طور پر اس بات کی کوئی تاریخی شواہد نہیں ہے کہ گلگت پر کبھی جنوب سے حملہ کیا گیا ہو ۔
بقول کارل جیٹمار بلور کا نام پورے میلینیم یعنی ایک ہزار سالہ دور میں استعمال ہوا ہے لیکن آخر کار اس علاقے تک ہی محدود رہ گیا تھا جو نویں صدی میں اس ریاست کے مغربی علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ منتقلی شاید گلگت کو بھیانک دائرہ میں شامل کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

اگر پرانے بلور خاندان نے گلگت میں دارادوں یا ان کی مدد سے نئے آنے والوں کے لئے اپنا اقتدار ختم کردیا تو یہ بات قابل فہم ہے کہ ورثاء نے مغربی حصے کےکھوئے ہوئے علاقےمیں قدم جمانے کی کوشش کی اور وہاں دوبارہ حکومت قائم کرنے کی امید میں ایک نیا دارالحکومت قائم کیا۔ درحقیقت چترال کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس ملک کا ایک پرانا خاندان سلطنت گلگت کے بادشاہوں سے وابستہ تھا۔ حکمرانوں کا دارالحکومت کے بارے میں جسے ایس۔ایل۔ملک کہتے ہیں کہ یہ مستوج کے قریب واقع تھا ۔ ان کی طاقت کچھ وقت کے لیے گلگت تک پہنچی۔

یہ حقیقت ہے کہ Little Bolor کو تبی باشندوں خصوصی طور پربروزا کے نام سے پکارتے تھے۔

جیٹمار کا کہنا ہے کہ درحقیقت لاؤفر نے پہلے ہی سوچا تھا کہ بروزا یا بروشال جیسے اظہار جو قدیم تبتی ٹیکسٹ میں باربار ملتے ہیں ۔ جیسا کہ کسی ملک کی اسکی زبان سے متعلق کیا جاتا ہے اس لیے اس کا برموسکی اور بروشاسکی بولنے والوں کی سرزمین سے کچھ تعلق ہونا ضروری ہے۔
ہفمین کے مطابق اس ملک کا ذکر پہلے ہی ساتویں صدی میں ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تبتی باشندوں نے ریاست کا سرکاری نام مقامی آبادی کے نام پر رکھ دیا۔ بقول کارل جیٹمار ساتویں سے نویں صدی عیسوی کے دوران وادی گلگت بروشوز کے ہاتھ میں تھی ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے محکوم ، امتیازی سلوک یا شیرین زبان کے داعیوں کے ذریعے بے گھر ہوگئے تھے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس بات کی کوئی تاریخی اطلاع نہیں ہے کہ گلگت کو کبھی بھی جنوب سے حملہ کرکے فتح کیا گیا تھا۔ البتہ بہت سارے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دردستان کسی زمانے میں امن اور تہذب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ واضع رہے دردستان کا نام ڈاکٹر لیٹنر نے رکھا تھا ۔
حدود العالم کا مصنف اس ملک بلور کے بارے میں لکھتے ہیں ” بلور ایک وسیع ملک ہے جس کا بادشاہ خود کو سورج کا بیٹا کہتا ہے“۔ حدود العالم میں لکھا گیا ہے کہ دسویں صدی کے آخر میں بلورین شاہ کو سورج کے بیٹے کی حیثیت سے قبول کیا گیا ہے اور اسے طلوع آفتاب سے پہلے اپنے بستر سے اٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔

ایک مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ بدھ مت کے بعد درمیانی دور میں گلگت اور اس کے آس پاس کا علاقہ زرتشتی حکمرانوں کے زیر اقتدار آیا۔ حدودالعالم میں لکھا ہے کہ مقامی حکمران سورج (دیوتا) کے پیروکار تھے۔

”قراقرم کے قبائل“ نامی کتاب کے مصنف جان بڈولف کے مطابق وادی آکسس زرتشت مذہب کا گہوارہ رہا ہے اس لئے جنوب میں واقع علاقے اس کے زیر اثر آئے۔ جان بڈولف کا ماننا ہے کہ ”ٹیلنی“ فیسٹیول کے مطابق ماضی میں گلگت ، ہنزہ اور بلتستان میں آگ کی پوجا کی رسم موجود تھی۔ ہنزہ میں اسے ”تم گولہ باری“ کہا جاتا ہے ، استور میں ”لومی“ اور چلاس میں اسے ”ڈائیکو“ کہا جاتا ہے۔

John Mock & KimberleyChand O’Neil شری بدت پر اپنا PhD کا مقالہ بعنوانShri Badat The Cannibal King

میں لکھتے ہیں ” گلگت کے آخری بدھ مت بادشاہ شری بدت کو آدم خور بنا کر پیش کرنے کا مقصد پرانے معاشرتی نظام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ ماضی سے عوام کے تعلق کو توڑ کر نئے معاشرتی نظام کی توثیق اور قبولیت کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکے “۔

تیرہ صدی عیسوی کے آخر میں اسلام ، کشمیر ، وسطی ایشیا اور سوات / کاغان سے ہوتے ہوئے چودہ صدی کے آغاز میں اس خطے میں آیا تھا.
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حیرت کی بات نہیں کہ گارگاہ گلگت میں واقع بدھا کے مجسمے کو شنیا زبان میں یشئنی یعنی بدروح کا نام دیا گیا۔ اس تبدیلی کے ساتھ منسلک گلگت پر خواتین کی بادشاہی کے بارے میں بدھی افسانہ کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ شری بدت کی بیٹی عذر جمشید کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ اس کے لوہے کے جسم کے باوجود اس کے والد کو مارا جاسکتا ہے۔ چنانچہ آذر جمشید نامی ایک شخص نے شری بدت کی حکمرانی کا خاتمہ کیا اور اس نے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

غیر ملکی مبصرین کی نظر میں شری سے منسوب آدم خوری والے افسانہ کی جو بھی حقیقت ہے کم از کم بلور کی سرکاری روایت ایک طویل عرصے تک غیر منقسم رہی۔
تاہم ، روحانی طاقت اور سیاسی طور پر پاولا/ بلور بادشاہوں کی عظمت تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس طرح بلور شاہی ارٹ اور حکومت کا خاتمہ ہوا اور پھر ہزار سال( ایک ملینم) کے بعد ارٹ کے یہ نمونے تبت سے واپس دنیا کے سامنے ارہے ہیں۔

کارل جیٹمار لکھتے ہیں کہ شاہراہ قراقرم اب ایک نیا ٹرانس اشیئن کنکشن بنا ہوا ہے جس سے گلگت کے علاقے کو ایک ہزار سال پہلے کی طرح اہمیت ملی ہے جس سےساتویں عیسوی کی صورتحال واضح طور پر ذہن میں آتی ہے۔ اور شاہراہ قراقرم وسطی اور جنوبی ایشیاء کے مابین تجارتی خطے کی حیثیت سے اپنی سابقہ اہمیت کو بحال کرے گا۔

انیسویں صدی کی اپنی کتاب ”دی گلگت گیم“ میں ایکسپلورر جان کی نے گلگت کے خطے کو ”فلکرم آف ایشیا“ ، ”مرکز“ تاج کا گھونسلا اور "ایشیاء کے فلیش پوائنٹ“ کے طور پر بیان کیا ہے جب کہ چین کے لکھاریوں نے گلگت بلتستان کو ایشیا کا محور قرار دیا ہے۔

مارکو پولو سے لارڈ کرزن تک ، انیسویں صدی کے سبھی مہم جوُ اس خطے سے بہت متاثر ہوئے تھے اور اس طرح انہوں نے اس علاقے کو اسٹریٹجک اور جغرافیائی و سیاسی سنسنی خیز ناموں سے تعبیر کیا ہے جیسے: دنیا کی چھت ، گیٹ وے ٹو انڈیا ، جہاں تین سلطنت ملتی ہے ، جہاں مرد اور پہاڑ ملتے ہیں ، ایشیاء کا کاک پٹ ، ہندوستان کا واچ ٹاور وغیرہ۔ 19 ویں اور 20 ویں صدی عیسوی کے دوران ، روس (یو ایس ایس آر) کی دھمکیوں کی وجہ سے یہ علاقہ برطانوی ہند کے توجہ کا مرکزی نکتہ بن گیا تھا۔
جب میں اس کی پیچیدہ تاریخ اور اسٹریٹجک جغرافیے پر غور کرتا ہوں تو یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ وسطی ایشیاء میں یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد اور وسطی ایشیائی ممالک یعنی تاجکستان ، ترکمنستان ، ازبکستان ، کرغزستان ، قازقستان اور آذربائیجان کی آزادی کے بعد گلگت کےعلاقے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے اس طرح اب یہ ”کئی دروازوں کی چابی“ یا ” بہت سے تالے کھولنے کی کلید ہے“ گلگت بلتستان تمام راہداریوں کا مرکز ہے۔

گلگت بلتستان کی جیو اسٹرٹیجک اہمیت کے بارے میں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے بانی و ممبر گلگت بلتستان اسمبلی نواز خان ناجی کا کہنا ہے گلگت بلتستان میں کوئی مذہبی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ راستوں کی جنگ ہے ۔ چین کو اورمچی سے گوادر تک جبکہ امریکہ کو دہلی سے دوشمبے تک راستہ چاہیے۔

ریاست بلور کے بارے میں ان تاریخی حوالوں سے یہ بات بلکل واضع ہوتی ہے کہ ریاست بلور ساتویں صدی میں ایک اہمیت کی حامل ملک تھا جس کے دو حصے تھے ایک حصہ گریٹ بلور(بلتستان )کہلاتا تھا جس کا درالحکومت سکردو جبکہ دوسرا حصہ لیٹل بلور کہلاتا تھا جو وادی گلگت میں واقع تھی۔
اسی تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوۓ گلگت بلتستان کی نئی نسل کو اپنی صدیوں پرانی حقیقی تاریخ بتانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ خود لکھنی چاہے۔ بحیثیت ایک قوم اور ایک اہم خطے کے اپنے آپ کو آج کے دور کی متحارب طاقتوں سے بچانے کے لیے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو نئے چیلنجوں کے لیے تیار رہنا چاہے۔

چونکہ1840ء کے بعد بیرونی استبدادی دور میں ہم اپنے روایتی اقدار، اپنی تاریخ ، زبانیں، ثقافت اور مذہبی رواداری کو کھونے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو کہ نہایت تشویش کا باعث ہے۔
لہذا آج کے جدید مہذب دور میں ہر قوم کو اپنی تاریخ لکھنے کا حق ہے۔ ہم کسی اور کے نظریے کے سائے میں نہیں رہ سکتے اس لیے ہماری مشترکہ وسیع تاریخ ہی ہماری علاقائی سالمیت کے لیے اہم ہے چونکہ یہ ہمارے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے اور ہماری دولت ہے۔
باہر سے کسی نے بھی ہمیں یہ زمین نہیں دی ہے گلگت بلتستان درحقیقت ہمارے آباوآجداد کے خوابوں کا وطن ہے جس کی تاریخ ہمارے لیے بہت اہم ہے ۔
گلگت بلتستان میں موجود متعدد اہم تاریخی مقامات جو گلگت بلتستان کا قومی ورثہ ہیں اور اس برباد ہونے والے ورثے کے تحفظ کے لئے کوششیں کرنی ہونگیں۔ خاص طور پر ضلع دیامر میں آثار قدیمہ کے مقامات کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ دیامر باشا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ دریا برد ہوجائیں گے۔ حکومت گلگت بلتستان کو فوری طور پر اس قومی ورثے کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button