کالمز

واخان کوریڈور : تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی پس منظر

از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشد

 واخان کو واخان کوریڈور، واخان پٹی اور وخان راہداری بھی کہا جاتا ہے۔ واخان پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے یعنی گلگت بلتستان، چینی صوبہ سنکیانگ، افغانی بدخشان اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے اور علاقہ افغانستان کے صوبے بدخشان کا ایک دور افتادہ ضلع ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں بہت کم میسر ہیں۔ در اصل واخان ایک ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو ان ممالک کے درمیان تنگ دروں پر مشتمل ہے۔ اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310 کلو میٹر اور چوڑائی 13 کلو میٹر ہے اور ایک مقام پر سکڑ کر 10 کلو میٹر رہ جاتی ہے، واخان کا دریا آب پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیر سے نکلتا ہے اور دریائے آمو سے جا ملتا ہے۔واخان سے کئی درے دوسرے علاقوں اور ملکوں تک جاتے ہیں۔ ان میں سے چار درے ایسے ہیں جو واخان کو پاکستان سے ملاتے ہیں۔ درہ بروغل واخان کو چترال اور یاسین سے ملاتا ہے (جبکہ دورہ پاس چترال کو بدخشان سے ملاتا ہے)، درہ قرمبر ضلع غذر کی تحصیل اشکومن کو واخان سے جوڑتا ہے جبکہ درہ ارشاد ہنزہ اور واخان کو ایک دوسرے سے قریب لاتا ہے۔ بلاشبہ یہ درے صدیوں سے ان علاقوں کے درمیان آمد و رفت کا ذریعہ رہے ہیں۔ لیکن ماضی کی عظیم بازیوں(Great games) نے ان انتظامات کو منتشر اور الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور 1893ء میں برطانوی حکومت ہند، زار شاہی حکومت روس اور افغان حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسےڈیورینڈ لائن کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت واخان کو ایک غیر جانبدار دار علاقہ (Buffer Zone ) قرار دیا گیا۔ چنانچہ اسے واخان کوریڈور، واخان راہداری اور واخان پٹی کہا جاتا ہے۔ بہر صورت، اس تقسیم کاری سے یہ علاقہ اور اس کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور سیاست بری طرح متاثر ہوئی۔
واخان میں زیادہ تر آبادی وخی زبان بولنے لوگوں پر مشتمل ہے، تاہم دوسری قومیں بھی آباد ہیں، جیسے کرغز جو مال مویشی چراتے ہیں۔ وخی وسطی ایشیا کے خطہ ترکستان کے قدیم ایرانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی زبان قدیم ہند ایرانی گروہ کی ایک شاخ ہے۔
واخان کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے، بلکہ یہ سینکڑوں، ہزاروں سال پر محیط ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق  واخان کی سیاسی شروعات چھٹی صدی قبل مسیح میں ہخامنشی بادشاہ سائرس اول کے عہد میں ہوئیں، اور چوتھی قبل مسیح میں اسکندر اعظم نے اسے فتح کیا۔ چھٹی صدی عیسوی کے اوائل میں معروف چینی زائر ہیون سانگ سریقل سے یودیانہ (بالائی سوات) جارہے تھے تو اثنائے راہ واخان سے بھی گذرے اور اس کا نام پو۔ ہو ( Po- Ho) دیا۔ نیز تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ تانگ حکمران خاندان کے عہد (غالبا ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں)میں واخان چین کے کنٹرول میں گیا.
واخان میں اسلام پانچویں صدی ہجری / گیارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں معروف اسماعیلی فاطمی داعی سیدنا حکیم ناصر خسرو (متوفی۔ 481ھ / 1088ء)کی تبلیغی کوششوں کے نتیجے میں پہنچا۔ یہاں کے لوگوں نے اسماعیلی مذہب قبول کیا اور اس وقت سے اب تک یہاں کا غالب مذہب شیعہ امامی اسماعیلی رہا ہے۔ ساتویں صدی ہجری/ تیرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں اطالوی سیاح مارکو پولو منگول بادشاہ قبلائی خان کے دربار جاتے ہوئے راستے میں واخان سے بھی گزرے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مسلمان ہیں اور جنگ و جدل میں بہت بہادر ہیں۔
انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں بشمول بدخشان واخان اور دوسرے پامیری علاقوں پر قندوز کے ازبک حکمران قابض رہے۔ جبکہ اسی صدی کے نصف آخری میں واخان پر ایک اور حکمران خاندان داد حکمرانی دیتا تھا، جو مذہبی اعتبار سے اسماعیلی تھے، اور میران ہنزہ کی طرح اس خاندان کے حکمران بھی میر کہلاتے تھے۔ چنانچہ میر فتح علی خان 1863ء تک واخان کے میر رہ چکے تھے۔ میر فتح علی خان یا فتح علی شاہ کی بیوی میر آف ہنزہ میر غضنفر علی خان (متوفی۔ 1865ء) ابن میر سلیم خان ثانی (متوفی۔1824ء) کی بیٹی مسمات نسیم خاتون تھیں۔ ایک بیٹے میر فتح محمد خان بھی واخان کے میر رہے جبکہ میر فتح محمد خان کے بیٹے میر علی مردان واخان کے آخری میر تھے۔
لیکن اسی صدی کے آخری عشروں میں افغانستان میں ڈرامائی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں صدیوں سے قائم ریاست واخان افغانستان کے بادشاہ امیر عبد الرحمان خان کے ہاتھوں ختم ہوئی اور واخان سمیت پورا بدخشان افغانستان میں ضم ہوا جس کے بعد کابل کی مرکزی حکومت کے اثرات کے نتیجے میں اس علاقے میں سنی مذہب بھی پھیلنے لگا۔ تاہم، واخان کے آخری حکمران میر علی مردان خان بہت سے وخیوں کے ساتھ براستہ بروغل پہلے یاسین پہنچے اور پھر  اشکومن میں قیام پذیر ہوئے، جبکہ اشکومن اس وقت مہتر چترال کی عملداری میں تھا۔ علی مردان خان کی بیوی مہتر چترال امان الملک کی بیٹی تھیں، لہٰذا مہتر موصوف نے علی مردان خان کو اشکومن کا راجہ مقرر کیا اور ان کے ساتھ آئے ہوئے وخیوں کو بھی اشکومن، خاص طور پر ایمت اور اس کے گرد و نواح میں بسایا۔
نیز یہ کہ ہنزہ کے بالائی حصے، جسے اب گوجال بھی کہا جاتا ہے، زیادہ تر واخان سے آئے ہوئے وخی آباد ہیں۔ اس لحاظ سے گوجال کی ثقافت واخان ہی کی ثقافت ہے۔ زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہداری کے ساتھ تجارت کے لئے استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کو ملانے والا دروازہ پاس افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارت کے لئے بند ہوگیا۔ لیکن چہ پرسن اور واخان کے درمیان تعلق اور آمد و رفت کا سلسلہ برقرار رہا اور صاف طور پر اس کا سبب ارشاد پاس کے قدیم راستے تھے جو براستہ چہ پرسن ہنزہ کو واخان سے ملاتے تھے۔ اس کے علاوہ کلک اور منتکا کے دروں سے بھی ہنزہ سے واخان اور چینی ترکستان تک رسائی حاصل تھی اور لوگوں کا آنا جانا ہوتا تھا۔ اس ضمن میں شاہ خان نام کے ایک مقالہ نگار اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ: ” بدخشان، ترکستان (سنکیانگ) اور دوسری ریاستوں کے ساتھ واخان کے تاریخی تعلقات کے علاوہ ہندوکش کے جنوب کی ریاستوں، خاص طور پر چترال اور ہنزہ کے ساتھ بھی اس کے بہت قریبی تعلقات رہے تھے۔ یہ دونوں ریاستیں دروں کے مذکورہ ریاست کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں جو آزاد تجارتی نقل و حمل اور سیاسی روابط کی ترغیب دیتے تھے۔”
ہنزہ اور واخان کے ان قریبی تعلقات اور بعض دیگر تاریخی شواہد کی بنیاد پر سابقہ ریاست ہنزہ نے ایک مرتبہ  واخان کے قلمرو  کے مشرق میں اور پامیر خورد ( Little Pamir) کے بڑے حصوں  پر دعوی کیا۔ میر غضنفر خان کی حکومت کے دوران 1860ء کے عشرے میں ہنزہ کے قلمرو میں قیاسا گوجک اور بوزائی گمباز  بھی شامل تھے جو واخان کے علاقے تھے۔ تاہم، ہنزہ کے دعوے کو اس وقت نظر انداز کیا گیا جب واخان کی آزاد ( Buffer) حیثیت کی تشکیل ہوئی۔ مستقل سرحدوں کے تعین کا ایک نتیجہ اس صورت میں مرتب ہوا کہ شمال میں ہنزہ کو مشرقی پامیر میں مالامال چراگاہوں میں اپنی مال مویشیوں کو چرانے کے حقوق سے ہاتھ دھونا پڑا۔
(D. Shah Khan. Wakhan in Historical and Political Seting”, Afghanistan: Past, Present and Future, p.309)
نیز چترال کی تحصیل گرم چشمہ کے سرحدی علاقہ بروغل کے باسی بھی وخی ہیں اور ان کی نسلی، لسانی اور ثقافتی وابستگی براہ راست واخان سے ہے۔ ان کی آمد و رفت عشروں صدیوں سے واخان تک رہی ہے۔اور چترال کے حکمران خاندان کی رشتہ داریاں میران واخان سے تھیں۔ خود میر علی مردان خان کی بیوی مہتر چترال کی بیٹی تھیں۔
ضلع غذر کی تحصیل اشکومن کے بالائی حصوں میں بھی وخی نسل کے لوگ آباد ہیں جو علی مردان خان کے ساتھ وخان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔بلکی روایات کے مطابق اشکومن اور واخان کے مابین تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔ کیونکہ اشکومن خاص ایک بڑا قبیلہ خلفئے کا نسلی تعلق بھی واخان سے ہے، شاید بہت عرصہ پیشتر واخان سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ اسی طرح واخان کے میر علی مردان خان نے 1924ء میں اپنی موت تک اشکومن پر حکومت کی ہے اور ان کے قابل اعتماد وزیر قاضی سرور بھی اشکومن میں ان کے وزیر تھے اور ان کے خاندان کے آخری وزیر شاہ فقیر تھے جو 1972ء میں پاکستان کی اس وقت کی وفاقی حکومت کی جانب سے شمالی علاقہ جات (آج کے گلگت۔ بلتستان) سے راجگی نظام کے خاتمے کے حکم کے ساتھ ان کی وزارت بھی ختم ہوئی۔ پس اشکومن اور واخان کا رشتہ اس طرح استوار ہے کہ اسے کسی طور جدا نہیں کیا جا سکتا۔
ان مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واخان ویلی کی ایک طول تاریخ ہے، اس پر بیرونی حملے بھی ہوئے، اس کی اپنی ایک منظم ریاست اور راجگی تھی اور اس کی اپنی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کا اپنا طریقہ تھا۔نیز یہ کہ اس کے باشندوں کے دیگر کئی ہمسایہ علاقوں اور ملکوں کے علاوہ ہنزہ، غذر اور چترال کے ساتھ تعلقات صدیوں پرانے تھے اور یہ تعلقات طبعی جغرافیائی اور زمینی راستوں کے لحاظ سے بھی استوار تھے اور نسلی، لسانی، سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے بھی مستحکم رہے ہیں۔ لیکن انیسویں صدی عیسوی کی عظیم بازیوں  (Great games) کے نتیجے میں ڈیورینڈ لائن کی تشکیل کے باعث واخان کوریڈور یا واخان راہداری کی لکیر اور سرحد قائم کی گئی جس کے سبب اس پورے خطے کا جغرافیائی،تاریخی، سیاسی، معاشی اور سماجی و ثقافتی حلیہ بگڑ کر رہ گیا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button