گلگت بلتستان ریونیو اتھارٹی اور مسلہ کشمیر کے تناظر میں اسمبلی کے اختیارات
شیر علی انجم
گلگت بلتستان میں عام طور سیاسی جلسوں،سرکاری تقاریب یہاں تک کہ مذہبی اجتماعات میںبھی یہی سُننے کو ملتا ہے کہ گلگت بلتستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ۔ہم نے آذادی لیکر پاکستان کے ساتھ الحاق کی ہے۔لیکن جب خطے میں حکومت کی جانب سے کسی قسم کے ٹیکس کی نفاذ اور گندم سبسڈی میں کٹوتی کی بات چھڑ جائے تو یہ بیانیہ ایک دم تبدیل ہوجاتا ہے اور یہی لوگ احتجاج کرکے کہہ رہے ہوتے ہیں ہمارا خطہ متنازعہ علاقہ ہے یہاں کسی قسم کے ٹیکس کے نفاذ کو جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہوتے کسی کو اختیار نہیں۔
اس مسلے کو قانونی زاوئے سے دیکھیں تو گلگت بلتستان قانونی طور پر آج بھی سابق ریاست جموں کشمیر کی اکائی کے طور پر متعارف ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہو یا کراچی ملٹری ایگریمنٹ یا آئین پاکستان کا کے آرٹیکل 257 ، سمیت سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کشمیر سے جدا نہیں۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلگت لداخ نے مہاراجہ کی ریاست سے یکم نومبر 1947 کو آذادی حاصل کر لی تھی جو 16 دن تک قائم بھی رہے لیکن تسلیم نہیں ہوا ،لیکن تسلیم نہ ہونے کے باوجود اس خطے کی آذادی کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے ایک قرارداد جو 13 اگست 1948 کو پاس ہوئی جس پر پاکستان اور ہندوستان دستخط کار نہیں،یہ حکم دیا تھا کہ مسلہ کشمیر کی حل کیلئے رائے شماری تک خطے میں لوکل اتھارٹی حکومت کو یقینی بنائیں اور پاکستان اپنے فورسز کی انخلاء کو یقینی بنا کر اقوام متحدہ کے امن فوج کو تعینات کریں۔ گلگت اور سکردو میں اقوام متحدہ کے دفاتر آج بھی موجود ہیں ۔
بدقسمتی سے گلگت بلتستان لوکل اتھارٹی حکومت تو آج تک قائم نہیں ہوئے البتہ مختلف پارٹیوں کے سہولت کار، حکومت کے نام پر بیوروکریسی آج بھی راج رقص کرتی ہے جسے یہاں جمہوریت کہتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلسل اصلاحات کے زریعے خطے میں جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش مسلسل ہورہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جمہوریت کی بنیاد بھی قانونی طور قائم نہیں ہوئے ۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی اس حوالے سے متعدد بارخدشات کا اظہار کی ہے۔گلگت بلتستان اسمبلی آج جس بیساکھی کے سہارے کھڑی ہے وہ معاہدہ کراچی ہے جو 28 اپریل 1949 کو کشمیری قیادت پاکستان کے وزیر محکمہ مشتاق گورمانی کے درمیان طے پایا تھا اور اسی معاہدے کی ایک شق کے تحت خطے کا نظام انصرام کراچی سرکار کے سپرد کردیا تھا اور اسلام آباد آج تک اسی بنیاد پر خطے کو صدارتی حکم نامے کے زریعے چلا رہا ہے۔ پس ہماری خواہشات اور توقعات کے برعکس پاکستان اور ہندوستان دونوں کشمیر کے دعویدار ہیں اور دونوں ممالک اس بات کو قطعی طور تسلیم کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا اس حوالے سےمسلسل بیان بھی میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ایسے میں اگر ہم گلگت بلتستان اسمبلی کی بات کریں تو اس اسمبلی کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ یہ اسمبلی خطے کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کیلئے کسی قسم کا قانون منظور کرائیں۔ اس عمل کیلئے پورے خطے میں رائے شماری ہونا لازمی ہے ۔
اس صورتحال میں اسمبلی اپنی اصل ذمہ داریوں سے منہ پھیر کر ہمیشہ غیر ضروری معلات میں عوام کو الجھائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے آجخطے میں صحت،انفراسٹکچر،ماحولیاتی آلودگی، تعلیم،زراعت ،مائننگ کے شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں۔البتہ کرپشن، اقرباء پروری، لوٹ مار بہت ترقی کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ خطے ہر کوئی سیاست میں آنا چاہتا ہے کیونکہ اس میں پیسہ ہے۔ اب اگر ہم بات کریں حالیہ ریونیو اتھارٹی اور گندم سبسڈی کے خاتمے کی توجس طرح اربات اقتدار کہتے ہیں کہ ٹیکس سے معاشرے کا نظام نظام چلتا ہے، ٹیکس دینا مہذب قوم کی علامت ہوتی ہے، ٹیکس دینے سے ملک میں ترقی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جیسے اوپر لکھا یہ یہ باتیں گلگت بلتستان میں نافذ عمل نہیں۔ ویسے بھی اگر عام آدمی پر ٹیکس نافذ کرنے سے کوئی خطہ ترقی کرسکتا ہے تو بلوچستان مکمل آئینی صوبہ ہونے کے ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہیں لیکن بلوچستان کی صورتحال گلگت بلتستان سے بھی بدتر بتایا جاتا ہے۔ اسی طر ح سوات مینگورہ وغیرہ جو باقاعدہ طورپر پاکستان کے آئینی قانونی شہری اور علاقے ہیں قومی اسمبلی اور سنیٹ میں نمائندگی بھی حاصل ہے لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے لیکن گلگت بلتستان سے ذیادہ ترقی یافتہ ہے۔
پس معلوم یہ ہوتا ہے کہ اصل مسلہ قیادت کا ہے جو گلگت بلتستان کو آج تک نصیب نہیں ہوئے ۔بقول نواز خان ناجی کے، یہ خطہ ایک جنگل ہے اس جنگل سے لکڑی کاٹ کر کلہاڑی کا دستہ بنا کر اُسی کلہاڑی سے جنگل کی کٹائی کرنے والوں کو گلگت بلتستان میں سیاسی قیادت کہتے ہیں۔ ورنہ براہ راست ٹیکس تو ماچس سے لیکر سیمنٹ کی بوری تک پر لے رہا ہے، سوست گلگت بلتستان کا علاقہ ہے باقاعدہ ڈرائی پورٹ بنا ہوا ہے اور روزانہ کروڑوں ٹیکس وصول کرتے ہیں لیکن اس ٹیکس کا حساب لینے والا کوئی نہیں جس نے واپس گلگت بلتستان کے قومی خزانے میں جمع ہونا تھا۔ اسی طرح پاکستان میں ٹیکس کی وصولی اور رائلٹیز کی تقسیم کیلئے این ایف سی کا ادارہ قائم ہےمگر گلگت بلتستان کو خطے کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے وہاں نمائندگی ہی حاصل نہیں ۔ ایسے میں براہ راست عوام کے جیب پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش سے پہلے اس حوالے سے میکنزم بنانا حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے جسے نبھانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔جو باتیں آج خالد خورشید کر رہا ہے یہی باتیں بھٹو دور میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کیلئے کی تھی جس کیلئے باقاعدہ مذہبی منبر کا سہارا لیا آج گلگت بلتستان کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ ہمارے لئے موت اور زندگی کا مسلہ ہے۔کیونکہ بیورکریسی خالصہ سرکار کی غلط تشریح کرکے جب چاہئے جہاں چاہے عوام کو اپنی زمینوں چراگاہوں سے بیدخل کرنا معمول بن گیا ہے۔ایسے میں ٹیکس دراصل عوام کو مزید گھیرا تنگ کرنے کی سازش ہے کیونکہ حکومت کے پاس ٹیکس کی نفاذ کا کوئی اختیار نہیں۔حکومت کو چاہئے کہ رائلٹیز کیلئے اسلام آباد سے ڈائیلاگ کریں اگر خطے کی آبی ،معدنی ، سیاحتی اوردیگر وسائل آزاد کشمیر والوں کی طرح سے اسلام آباد سے لینے میں کامیاب ہوتا ہے تو گلگت بلتستان کے عوام کو کسی قسم کے گندم سبسڈی کی ضرورت نہیں۔ اس وقت گندم سبسڈی حق سے ذیادہ انسانی بقاء کی ضرورت بن چکی ہے کیونکہ آج تک کی حکومتوں میں خطے میں گندم کی کاشت کیلئے کسی بھی اضلاع میں کوئی کام مواقع ہونے کے باوجود نہیں کیا،دوسری طرف عوام نے گندم سبسڈی کی خوشی میں کاشتکاری کو خیرباد کہہ دی ہے۔ لہذا گندم سبسڈی جہاں عوام کیلئے مضر ہے وہیں اس وقت بقاء کی ضرورت بھی ہے جو یہاں کے عوام پر کسی قسم کا احسان نہیں بلکہ شملہ معاہدے کا حصہ ہے۔لہذا حکومت کو چاہئے کہ جو اتھارٹی بنائی گئی ہے وہ خستہ حال معاشرے کے غریب عوام پر نافذ کرنے کے بجائے اسلام آباد کر رُخ کریں اور سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ مانگیں ۔اسی کام کیلئے عوام نے آپکو ووٹ دی ہے نہ کہ غریب عوام کو ٹیکس لگانے کیلئے۔
ہماری حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان اس وقت عالمی گریٹ گیم کے گرداب میں ہے۔ایک طرف چین پاکستان لابی دوسری طرف امریکہ ہندوستان لابی سمیت دیگر عالمی طاقتوں کی نگاہیں چار ایٹمی ملک کے سنگم پر واقع اس خطے پر ہے اور ہندوستان کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ یہاں اگر پانی کیلئے بھی کوئی احتجاج کریں تو وہاں کا مین اسٹریم میڈیا سوشل میڈیا سے ویڈیو اُٹھا کر ہیڈ لائن کا حصہ بناتے ہیں ۔ دوسری پاکستان میڈیا کا صورتحال یہ ہے کہ ہر سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بربادی آجاتی ہے لیکن اُنہیں خبر نہیں ہوتے۔لہذا حکومت کی بچگانہ حرکتیں خطے کی بقاء کیلئے مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔حکومت چاہئے کہ خطے میں انارکی پھیلانے کی کوشش کرنے کے بجائے خطے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔