سید مبارک الموسوی، ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: اسلم ناز شگری
چھوترون شگر سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین سید مبارک علی شاہ الموسوی 19 ستمبر کی دوپہر کو ہزاروں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کی رحلت کے ساتھ ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔علمی دنیا کے افق پر چمکتا دمکتا یہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاک نشین ہوگیا۔ اْن کی علمی اور معاشرتی خدمات ناقابل فراموش ہیں لہٰذا آج کی تحریر اْن کے نام۔ وہ سید علی آغا الموسوی چھوترون کے فرزند تھے۔ علم، حلم، تقویٰ، پرہیزگاری اور ایمانداری گویا انہیں وراثت میں ملی تھیں۔ وہ انیسویں صدی عیسوی کے جید عالم دین سید عباس الموسوی النجفی مرحوم کے پوتے تھے۔ مرحوم سید عباس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خطہ بلتستان خصوصاً وادی شگر میں اگر آج مسلمان بستے ہیں تو یہ ان کی مرہونِ منت ہے۔ ان کے بارے میں ایک تفصیلی کالم راقم نے پچھلے سالوں میں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔ (خواہشمند قارئین میریفیس بک وال پر یہ کالم ملاحظہ فرما سکتے ہیں) ان کے بعد ان کے فرزند ارجمند اور اپنے عہد کے پہنچے ہوئے عالم، شاعر، منصف، خطیب، استاد اور ذاکرِ اہلبیت سید محمد طہٰ الموسوی نے دین کی ترویج کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے چھوترون محکمہ شرعیہ کو وہ مقام و مرتبہ ملا کہ بڑے بڑے ججز بھی یہاں کا نظام دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان کے بعد ان کے برادر اور سید مبارک علی شاہ مرحوم کے والد گرامی سید علی آغا الموسوی نے دینِ مبین کی خدمت میں اپنی زندگی گزاری۔ بعد ازآں یہ گراں ذمہ داری سید مبارک علی شاہ الموسوی کے کندھوں پر عائد ہوئی۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلو قابلِ رشک رہے۔ نجف اشرف جیسے مقامات ترک کرکے علاقے کے مومنین کی خدمت کے لئے واپس چھوترون تشریف لائے اور اپنی پوری زندگی واقعی میں لوگوں کی دینی خدمت میں گزاری۔اپنے اجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے علاقے میں دینی علوم کا دیا جلائے رکھا اور علومِ آلِ محمد عام عوام تک پہنچانے کی خاطر زندگی بھر چھوترون شگر کی مرکزی جامع مسجد چھوترون شگر کو اپنا مسکن بنائے رکھا جہاں پر علاقے کی سب سے بڑی محافل و مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ آپ مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور امام جمعہ و جماعت رہے جہاں پر کئی کئی کلومیٹرز سے لوگ پیدل سفر کرکے روز ان کی مجالس سننے آیا کرتے تھے۔ اور جمعہ کے اجتماعات میں تو لوگ ایک خاص عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ ساتھ ہی آپ شگر کے مختلف علاقوں میں محافل میں شرکت فرماتے تھے۔ اور مومنین کو کسب فیض پہنچاتے تھے۔ مصائبِ آلِ محمد بیان فرمانے کا اپنا ایک منفرد لب و لہجہ اپنایا ہوا تھا، لوگوں پر رقت طاری کردیتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں تک انتہائی شدید علالت کے باوجود محافل میں شرکت فرماتے رہے۔ جب آپ کے گٹھنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تو ہاتھوں میں عصا لئے اور لوگوں کے کندھوں کے سہارے بھی مجالس میں پہنچتے تھے اور سخن رانی فرماتے تھے۔
ان کی شخصیت کا دوسرا تابناک پہلو معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی اور معاشرے کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے حوالے سے تھا۔ آپ کے پاس بلتستان بھر سے بالعموم اور شگر کے مختلف علاقوں سے بالخصوص لوگ اپنے تنازعات لے کر آپ کے پاس آتے تھے۔ آپ ہمیشہ سے تصفیہ اور صلح و صفائی کے ذریعے ان تنازعات کو حل فرماتے تھے۔ ان فیصلہ جات کو ایسے مضبوط طریقے سے آغا طٰہٰ الموسوی کے قائم کردہ نظام کے تحت رجسٹر میں درج فرماتے تھے اور بڑے بڑے عدالتی نظاموں کے مترادف ان کے ریکارڈ محفوظ رکھتے تھے۔ بوقت ضرورت اپنے مخصوص کاتبین کے ذریعے ان فیصلہ جات کی نقل جاری کرواتے تھے اور ان پر نقل بمطابق اصل کی مہر ثبت کرتے تھے۔ اس طرح لوگوں کے تنازعات، لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات کو شرعی موازین کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ آپ کے دولت کدے پر شب و روز درخواست گزاروں و مدعی و مدعا علیہان کا مجمع لگا رہتا تھا۔ ان اعصاب شکن معاملات کو آپ بطریق احسن نمٹاتے رہے۔ اس کے علاوہ سال میں ایک بار مختلف علاقوں کا دور بھی فرماتے تھے۔ ہر گاؤں میں ایک دن یا دو دن قیام فرماتے اور بہت سارے تنازعات ان ایام میں موقع ملاحظہ فرما کر یا پھر گواہان کو بلا کر حل فرماتے تھے۔ ان فیصلہ جات کے لئے الگ رجسٹر موجود ہیں۔ گلگت بلتستان کے مختلف عدالتوں میں آپ کے جاری کردہ فیصلہ جات پیش ہوئے اور کسی کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا۔ حتیٰ کہ کئی ایک معاملات میں عدالتی نظام کے لئے آپ کے جاری کردی فیصلے ممد و معاون ثابت ہوتے رہے۔
راقم کو یہ شرف حاصل رہا کہ آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا قریب سے مشاہدہ کروں۔ آپ کو ہمیشہ ذکرِ خدا میں مشغول پایا۔ عبادت کے اوقات کے انتہائی پابند تھے۔ تقوی ٰ و پرہیزگاری کے بنیادی اصولوں پر کاربند رہے۔ سجدوں کے اثر سے جبین ہمیشہ نشان زدہ رہتے تھے۔ مخصوص اذکارِ الٰہی سے آپ کو خاص شغف تھا۔ بستر علالت پر ہونے کے باوجود بھی دعائے توسل اور زیارت عاشورہ کی روزانہ تلاوت فرماتے تھے۔
جہاں تک اجتماعی اور ملی معاملات کا تعلق ہے تو آپ ان سے بھی لاتعلق نہیں رہے۔ ملی امور پر ہمیشہ نظر رکھتے تھے۔ کئی ملی تنظیموں کے مرکزی قیادت آپ سے رابطے میں رہے اور ملی امور میں آپ سے مشاورت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ضلعی سربراہان بھی مختلف معاملات میں آپ سے مشاورت سے کام لیتے تھے اور امن و امان کے قیام میں آپ کو کردار کو سراہا کرتے تھے۔
آپ کی شخصیت کا وہ پہلو جو آپ کی زندگی کو چار چاند لگاتی ہے وہ آپ کی عالمانہ سوچ کے ساتھ ساتھ عوامانہ رویہ تھا۔ ہنس مکھ چہرے کے مالک تھے اور مزاح کی حس سے بھرپور طرزِ گفتگو آپ کا طرہ امتیاز رہا۔ جوان ہوں یا بوڑھے، بچے ہوں یا بزرگ، ہر ایک سے ہنسی خوشی ملنا آپ کی عادت تھی۔ فنِ مزاح سیمحفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر اچھی طرح سے جانتے تھے۔ سخت ترین زہنی دباؤ کے معاملات کے دوران بھی سائلین کے ساتھ خوش مزاجی سے ملتے تھے۔ لوگ آپ کی نرم طبیعت کے گرویدہ تھے۔ اسی لیے آپ کو ہر طبقے کے لوگوں کا اعتماد حاصل تھا۔راقم گاہے بگاہے ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوتا رہتا تھا۔ ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے ملتے پایا۔ 29 جنوری 2021 کی صبح جب آپ علیل تھے تو عیادت کے لیے پہنچا تو دیکھا کہ آپ کی طبیعت کافی بہتر ہے۔ میں نے آپ کی زبانی چند سوالا ت کے جواب کو ویڈیو کی شکل میں محفوظ کرنے کی خوہش ظاہر کی تو فوراً حابی بھرلی مگر مختصر رکھنے کی شرط پر۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی خوش نصیبی سمجھ کر موبائل نکال کر ریکارڈنگ شروع کروائی۔ جو کہ سوشل میڈیا پر اب بھی موجود ہے۔
آپ کا وجود ہر طرح سے علم و شعور رکھنے والوں کے لئے ایک نعمتِ عظیم سے کم نہیں تھا۔ اہلِ علم ہمیشہ سے آپ کے قدردان رہے۔ انتیس ستمبر کی دوپہر کو جب آپ اس دارِ فانی سے ابدی سفر پر روانہ ہوئے تو یہ خبر ان کے عقیدت مندوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ شگر کے مختلف کونوں سے آپ کے چاہنے والے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے چھوترون کی سرزمین پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ حتیٰ کہ سکردو، گول، روندو اور گلگت سے بھی آپ کے عزیز و اقارب یہاں پہنچ گئے اور تاریخ کا سب سے بڑا نماز جنازہ رات کی تاریکی میں ادا ہوئی۔ ان کی غریب پروری کا نتیجہ تھا کہ ہر شخص نوحہ کناں تھا اور اشک ان کے آنکھوں سے رواں تھے۔ ان کے عقیدت مند جنازے پر بین اور آہ و بکا کے ذریعے آپ کو خراجِ عقیدت پیش کررہے تھے۔لوگوں کے دلوں میں یہ محبت آپ کی پر کیف زندگی کا ماحصل ہے۔ رات گئے انہیں ہزاروں افراد کی موجودگی میں اپنے اجداد کے آستانے کے احاطے میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ یوں اس عہد ساز شخصیت کی زندگی کا اختتام ہوا لیکن ان کی تعلیمات کا اثر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ جسمانی طور پر تو آپ دنیا کی نظروں سے اوجھل تو ہوگئے لیکن لوگوں کے دلوں میں آپ زندہ رہیں گے۔ ان کی وفات پر بلتستان بھر سے علماء کی ایک بڑی تعداد، ممبران گلگت بلتستان اسمبلی، سیاستدان، کاروباری شخصیات اور دیگر چاہنے والوں نے تعزیت اور فاتحہ خوانی کی خاطر چھوترون شگر کا رخ کیا اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ اس کے علاوہ اندرون ملک اور بیرون ملک جہاں جہاں تک یہ خبر پہنچی سب نے سوشل میڈیا کے ذریعے دکھ اور رنج کا اظہا رکیا۔ اور خانوادہ سادات سے تعزیت و تسلیت کا اظہار کیا۔ خدا اس جید عالم دین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔