گلگت بلتستان میں سردی کی ابتدائی اور شدید لہر کے بعد قدرتی آفات کے متاثرین اور بے گھر افراد کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ روندو، تانگیر، شیرقلعہ، بوبر، گورو جگلوٹ، اشکومن، یاسین، ہنزہ، نگر ، کھنبری اور دیگر مقامات پر حالیہ سیلاب اور زلزلہ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کی تاحال مکمل بحالی کا کام شروع نہیں ہوسکا ہے، ایسے میں شدید سردی اور برف باری نے ان علاقوں کو گھیر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ افراد ذہنی کوفت کا شکار ہوگئے ہیں۔ بروقت اقدامات نہیں کئے گئے تو خوراک کے بحران کے علاوہ ان علاقوں میں جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ اور انسانی جانوں کے ضیاع کے واقعات پیش آسکتے ہیں۔ خاص طور سے متاثرہ علاقوں کے بچے، خواتین، بزرگ اور افراد باہم کے مسائل باقی افراد کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ہمارے ہاں روایت ہے کہ کسی بھی قدرتی آفت کے رونما ہوتے ہی ابتدائی امداد کے بعد ان متاثرین کی طرف حکومت کی توجہ کم ہوجاتی ہے جبکہ اصل کام ان متاثرین کی مکمل بحالی کا ہے۔ ٢٠١٠ کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کےمتاثرین کی بڑی تعداد پہلے سے بے یارو مدد گار تھے ایسے میں حالیہ قدرتی آفات کے متاثرین بھی ان کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ان متاثرین کی مکمل بحالی کے لئے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کرے۔ بحالی کے کام کے مکمل ہونے تک ان متاثرین کے لئے وینٹر پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ شدید سردی میں انسانی جانوں کو درپیش خطرات میں کمی لائی جاسکے۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں گذشتہ ایک سال میں قدرتی آفات کے کل 171 واقعات رونما ہوئے تھے جن میں 803 گھر مکمل جبکہ 450 گھر جزوی طور پر تباہ ہوگئے تھے۔ ان واقعات کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں جو کہ تاحال عارضی کیمپوں یا راشتہ داروں کے ہاں قیام پذیر ہیں اور اپنی مکمل بحالی کے شدت سے منتظر ہیں۔ قدرتی آفات اور حکومتی عدم توجہ کے ستائے ہوئے ان بے گھر اور متاثرہ افراد پر اب سردی کی صورت میں ایک اور قدرتی آفت حملہ آور ہوگئ ہے۔