آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چترال کاچالیس سالہ سفر
تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (اے کے آر ایس پی) کےقیام کے چالیس سال کاسفر مکمل ہونے پر اے کے آر ایس پی ریجنل آفس چترال میں سہ روزہ رنگارنگ تقریبات 24نومبر2022کواختتام پذیرہوگئیں ۔اس تین روزہ تقریبات میں اعلیٰ سیاسی ،سماجی اورمذہبی رہنماوں نے شرکت کی۔ا ے کے آرایس پی گذشتہ چالیس سالوں سے چترال میں علاقے کی تعمیروترقی،خواتین کے حقوق، نوجوان نسل کی کردارسازی کے ساتھ ساتھ تخلیقی سوچ اورمثبت طرزعمل کوپروان چڑھانے کے لئے اپنی توانائیاں بروئے کارلاتے ہوئے سماجی اورمعاشی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے جوقابل ستائش ہیں ۔ اے کے آر ایس پی نے جس نامساعد حالات اور مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے چترال اورگلگت بلتستان میں کام کیا وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر لوئر چترال انوار الحق نے کہا کہ اے کے آرایس پی واحد این جی او ہے جو خطے میں کسی بھی دوسری تنظیم سے زیادہ کام کر رہی ہے اور کمیونٹی کو بااختیار بنانے اور اس کی بھر پور شراکت سے پائیدار ترقی کے منزل کا حصول اس کا طرہ امتیاز ہے۔انہوں نے ادارے کو 40 سال مکمل کرنے پر مبارکباد پیش کی، اور گلگت بلتستان اور چترال میں اس کے نمایاں کردار کو سراہتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ہرقسم کی تعاون کی یقین دہانی کی۔ اس موقع پر کمیونٹی کی طرف سے سابق چیرمین ضلع کونسل الحاج خورشید علی خان، سابق آر پی ایم انجینئر سردار ایوب، صاحب نادر ایڈوکیٹ، شکور محمد، عماد الدین، رحمت غفور بیگ اوردوسرے معززین نے اے کے آرایس پی کی چالیس سالہ کارکردگی کوسراہا۔
تقریب کے دوسرے روز’بااختیارخواتین اوربااختیارمعاشرہ’کے موضوع پرجاری پروگرام سے خطاب کرتےہوئے ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئرآفیسرچترال نصرت جبین،پاپولیشن ویلفیئرکے ایک ذمہ دارخاتون حاجیہ بی بی ، سوشل ایکٹوسٹ اور شاعرہ فریدہ سلطانہ ، پبلک پراسیکوٹر راحیلہ کنول اوردوسروں نے بتایاکہ اگرچہ گورنمنٹ میں خواتین کی تحفظ اور انکی ترقی کے قوانین موجود ہیں مگر زیادہ تر خواتین کو ان قوانین سے آگاہی نہیں ہے۔ جب تک ہم اپنی قوم کی خواتین کو تعلیم کے زیورسے آراستہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری معاشرتی،علمی اور قومی ترقی کا حصول ممکن نہیں ہو گا۔ تعلیم کی کمی، نفسیاتی مسائل اور خواتین کے اندر جدید مارکیٹ کی صلاحیتیوں کا نہ ہونا ایک شدید مسئلہ ہے۔۔انہوں نے کہاکہ خاص کر چترال میں کم عمری میں شادیاں، اور گھریلو تشدد خواتین کا ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ملکی قوانین میں موجود مختلف شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملکی قوانین خواتین کے حقِ وراثت، انکی نوکریوں اور انکی عائلی قوانین کے حوالے سے بالکل واضح ہیں۔ انہوں نے ان قوانین کے حوالے سے آگاہی حاصل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ بااختیارخواتین اوربااختیارمعاشرے کامقصد چترال کے اندر خواتین کو درپیش سماجی اور اقتصادی مشکلات کا جائزہ لینا اور انکے حل کے لئے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنا ہے ۔
اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی ڈائریکٹر این سی ایچ ڈی چترال محمدافضل تھے- اس پروگرام کا انعقاد صرف نوجوانوں کے لئے کیا گیاتھا۔ پروگرام کومعیاری بنانے کے لئے ایک پینل ڈسکشن کاانعقاد کیاگیا۔پینل ڈسکشن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دورحاضرسے ہم اہنگی اور دوسرے عنوانات پر بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا اور ان کا مباحثہ سنتے ہوئے سامعین نے کئی سوالات اٹھائے جن کے مفصل جواب پینلسٹ نے دیا۔ پینل ڈسکشن ایک ایسا فارمیٹ ہے جو کانفرنسوں اور اجلاسوں میں استعمال ہوتا ہے جہاں ایک مخصوص موضوع پر تجربہ کار اور ہنر مند افراد کا ایک گروپ سامعین کے سامنے بات چیت یا بحث مباحثے میں مشغول ہوتا ہے۔پینل ڈسکشن میں پروفیسر ڈاکٹرسفیراللہ ،پروفیسرطارق،پروفیسرمقصودانور،پروفیسرمنصوراللہ بیگ یونیورسٹی اف چترال،پروفیسرشوکت کامرس کالج چترال،ڈائریکٹرمحکمہ زراعت ناصراللہ،سیدحریرشاہ،اے کے آرایس پی کے حمیدالاعظم اوردوسرے شامل تھے ۔پروگرام کے آخرمیں مہمان خصوصی ڈائریکٹراین سی ایچ ڈی چترال محمدافضل نے اے کے آرایس پی کے چالیس سالہ تقریبات پرمبارک باد دیتے ہوئے کہاکہ اعلیٰ معیار کی تعلیم و تربیت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم اور معاشرہ اپنے مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ باشعور قوم ہی ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتی ہے اور تعلیم کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ آج کے اس جدیددورمیں ملازمت کی اتنی ضرورت نہیں ہے – نوجوان نسل جدیدٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاکررزق کمانے کی بھرپورکوشش کریں۔
اے کے آر ایس پی کے ریجنل پروگرام منیجر اختر علی نے کہاکہ آج سے چالیس سال پہلے چترال اورگلگت بلتستان کے عوام سماجی اوراقتصادی ترقی کےلئے ہمارے ساتھ کندھے ملا کر چلے تھے اورآج تک ہمارے ساتھ شانہ بشانہ چلے آرہے ہیں- ہم اُن کی خدمات کوبنیادی طورپرپہنچاننا چاہتے ہیں اوریہ سلسلہ ابھی شروع ہواہے اوراگلے سال تک مختلف اوقات میں اورمختلف طریقوں سے اُن کی خدمات کواُجاگرنے کی کوشش کریں گے۔اے کے آرایس پی اپنے مخصوص کام کی وجہ سے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیامیں مشہورہوچکاہے۔اورہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اے کے آرایس پی کو اس مقام تک پہنچانے کےلئے یہاں کی کمیونٹیز اورلوگوں کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے پچھلے دونوں سے مختلف مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوں کویہاں مدعو کیاتاکہ ہم اُن کے زرین خیالات سے فائدہ اٹھاسکیں۔آج کادن ہمارے نوجوانوں کے لئے وقف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والاوقت آپ کاہے توہم آپ کوکیسے بھول سکتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کی خدمات کوبھی دیکھیں وہ ہم سے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، پھربھی انہوں نے وہ کام کرکے دکھایاکہ شاید ہم وہ کام کبھی کرپائیں یانہ پائیں کیونکہ دنیاکے حالات اب یکسرتبدیل ہوچکے ہیں اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کوتیاررکھناچاہیے۔آج ہم اے کے آرایس پی کاچالیسواں سالگرہ منارہےہیں اس موقع پرتمام حاضریں کوخوش آمدیدکہتاہوں اورامیدکرتاہوں کہ آپ ہماری خوشیوں میں بھرپورشامل ہوں گے۔
آرپی ایم چترال اخترعلی نے اے کے آر ایس پی کے جنرل منیجر جمیل الدین کا پیغام سناتے ہوئے کہاکہ 40 سال کی مثالی کمیونٹی سروس مقامی کمیونٹیز کے مسلسل تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی جوکہ تنظیم، ہنر اور بچت کے تین زرین اصولوں کے ذریعے خود کو بااختیار بنانے میں مقامی کمیونٹیز نے اپنی مدد آپ کی۔ انہوں نے کہاکہ اپنے قیام کے بعد سے اے کے آر ایس پی نے12لاکھ 63ہزار مردوں اور خواتین کو مختلف تکنیکی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں تربیت دی ہے اور کمیونٹی انفراسٹرکچر کے 4706 پروجیکٹس مکمل کیے ہیں، جن سے 383,421 گھرانوں کو فائدہ پہنچا ہے اور اس نے 39 ملین جنگلاتی درخت اور 40 لاکھ پھل دار درخت لگائے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اب تک اس ادارے نے 5249 دیہی تنظیمیں بنائی ہیں جو 78فیصد سے زیادہ گھرانوں کی نمائندگی کرتی ہے اور ان تنظیموں کی مجموعی بچت 2ارب روپے سے ذیادہ ہے۔
اے کے آرایس پی چترال کے پسماندہ علاقوں میں مختلف شعبوں ہیلتھ ، ایجوکیشن، کمیونٹی انفراسٹرکچر ، سکل ڈویلپمنٹ، ثقافت کے تحفظ ، ایگریکلچر ، لائیو سٹاک کی افزائش،پینے کی صاف پانی ،آبپاشی ،آبنوشی کی اسکیمیں ،شجرکاری ،پن بجلی گھر، خواتین کوگھریلوسطح پرسبزیات اُگانے ،کسانوں کومعیاری فضل اُگانے کےلئے سرٹیفائڈ سیڈ،کھاد، قدرتی آفات میں نوجوانوں کو بہتر پارٹنر کے طور پر تیارکرنے کی تربیت دے رہےہیں۔صحت وصفائی کے بارے میں آگاہی پھیلانے اورکمیونٹی کی استعدادکارکوبڑھانے کے ساتھ ان کومطلوبہ وسائل بھی فراہم کررہی ہے جن میں بے روزگارغریب نوجوانوں کومختلف شعبوں میں فنی تربیت دینے کے بعدان کی مالی تعاون کرتے ہیں تاکہ وہ محنت کرکے اپنے حالات زندگی بہتربناسکے۔ ابتدائی طور پر سوشل موبلائزیشن ، تنظیم سازی کے بعد نوجوانوں کو بر سر روزگار بنانے کیلئے مختلف ہنر کی تربیت دی اور اُن کو سامان فراہم کئے ۔جس سے کئی نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر باعزت آمدنی حاصل کرکے اپنے خاندانوں کی مد دکر رہے ہیں ۔
چترالی تہذیب وثقافت اورزبان وادب تحفظ کے حوالے سے آگاہی پروگرام بھی منعقد کئے گئے ۔ جس میں محفل مشاعرہ اور میوزیکل شو کے انعقاد کے ساتھ باہمی مشاورت سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ چترال میں رہائش پذیر تمام کمیونٹی کے لوگوں کا کلچر اُن کے اباؤ اجداد کی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہیں جو اُنہیں ورثے میں ملے ہیں ۔ اس لئے ان ثقافتوں کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے اقدامات کرنا کمیونٹی کے لوگوں کا ہی کام ہے ۔ خصوصا معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کی بقاء کےلئے کام کرنے کی اشدضرورت ہے ۔ منعقدہ پروگراموں میں شعرو ادب اور ثقافت سے وابستہ افراد کے مسائل کو یکجا کرنے کیلئے آگہی کا عمل شروع کیا گیا ۔
اے کے آرایس پی چترال اور گلگت بلتستان میں جس قابل قدر کام میں مصروف ہے، اس سے آنے والی نسلوں کی تقدیریں بدل سکتی ہیں کیونکہ دیہی تنظیمیں وہ کام سرانجام دیتی ہیں جوکہ حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے۔ دیہی تنظیمات کے ذریعے وہ کام سرانجام پاتے ہیں جوکہ نمایاں ہوکر تبدیلی کا احساس سب کو دلاتے ہیں اور یہ کام خود ان ہی کے ہاتھوں سے انجام پاتے ہیں۔کمیونٹی کی اشتراک سے مکمل ہونے والے منصوبوں کو اس طرح پذیرائی ملی کہ دوسرے علاقے ان کاموں کو سراہتے ہوئے یہ امید کرتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں بھی اگر اس طرح کے کام کئے جائیں تو یہ ان کے علاقوں میں معاشی و معاشرتی ترقی کی راہ ہموار کردے گی۔
چترال کے دورافتادہ اورپسماندہ دیہی علاقوں میں تنظیمیں بنا کر خواتین کو اپنے پا وں پر کھڑا کرنے سمیت دیہی علاقوں کے تعمیر وترقی اور انکی زندگیوں میں تبدیلی لانے اور قدرتی آفات میں چترال کی مخصوص جعرافیائی حالات کے تناظرمیں چیلنجوں اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے تربیت دے رہے ہیں ۔ اے کے آرایس پی چترال میں معاشی اور معاشرتی پیچیدگیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے گھرگھرآگاہی دینے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کے جال بچھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑا ہے۔