کالمز

تنقید کا فقدان، خوش آئند یا خطرہ؟

ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ

آج جس موضوع پر لکھنا چاہ رہا ہوں، وہ  خودایک اہم تنقیدی موضوع یا قابل تنقید موضوع ہے، یعنی اس پر تنقید کی کھلی دعوت ہے، یا یوں کہیں کہ یہ مضمون تنقیدی رویّوں کی تشکیل نو ، نشو ونما، اور تحریک کے لیے ایک ضمیمہ ہے۔

لفظ ’تنقید‘  پر تبصرے سے قبل ہمیں چند بنیادی ملفوظات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

  • بحیثیت مسلمان ، ہمیں معلوم ہیں کہ اعتقادی اعتبار سے مخصوص ہستیوں کے علاوہ ، کوئی دیگر انسان فطری طور پر معصوم عن الخطا نہیں یعنی مذکورہ ہستیوں کے علاوہ تمام انسانوں سے کوتاہیوں اور غلطیوں کی گنجائش موجود ہے، خواہ وہ دانستہ ہوں یا نا دانستہ (موجودہ  تقریباً آٹھ ارب انسانوں کی آبادی میں معصوم تلاش کریں تو    شاید ایک یا دو یا   پانچ سے کم یا ایک بھی نہیں ملے گا)۔
  • ہماری کوتاہیاں ہم سے زیادہ دوسرے افراد بہتر دیکھ سکتے ہیں۔
  • ہماری کوتاہیوں ، خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی ایک نہایت مثبت تعاون ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں، یا ہونا چاہیے۔
  • تنقید پر خفا ہونا بھی ایک فوری فطری ردِّ عمل ہے، تاہم حقیقت پر مبنی مثبت تنقید کو تسلیم کرنا پختہ فکر کی علامت ہے، جبکہ اس پر ناراض ہونا، غصے میں آنا اور مخالفت میں انتقامی سوچ پالنا، نا پختہ فکر، کم ہمت اور انتہائی کمزور شخصیت کی علامات ہیں، خواہ اس میں ہم اپنے آپ کو کتنا ہی طاقتور سمجھیں، شاید یہ ہماری بھول ہے۔

تنقید کا انداز، لہجہ، طریقہ کار، وقت کا انتخاب  اور ذریعہ یا چینل (موقع) سبھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ اور بروقت، بجا قسم کی مہذب تنقید افراد، گروہوں اور پورے معاشرے کے لیے نہایت مفید ہوتی ہیں، جبکہ  بے وقت، بے جا اور تہذیب کے دائرے  سےباہر قسم کی تنقید کئی سطحوں پر نہایت ضرر رسان ہو سکتی ہیں۔ اب اس بات کا فیصلہ کیسے ہوگا کہ کونسی تنقید بروقت ہے یا بے وقت، بجا ہے بے جا، مہذب ہے  یاغیر مہذب؟ ان باتوں  کا فیصلہ کوئی غیر جانبدار پارٹی یا فرد کر سکتا ہے، تاہم یہ فیصلہ بھی چند معروضی حقائق پر مشتمل ہوں گے، جیسے، کیاجیسا کہا گیا ویسا واقعاً ہوا ہے یا نہیں؟۔ الفاظ کا چناؤ کس قدر ادب و تہذیب کے دائرے میں ہیں؟ تنقید کرنے والے کا کوئی ذاتی مفادات تو نہیں؟ کیا اس تنقید سے مفاد عامہ کی حصول میں مدد مل سکتی ہے، یا مفاد عامہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ

ہمارے ہاں بالخصوص موجود ہ دور میں اور سوشل میڈیا کی وجہ سے مسئلہ  یہ ہے کہ  ان باتوں کا غیرجانبدار جائزہ لینے اور تنقیدی رویوں کو فروغ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آج کل سوشل میڈیا پر تو کسی کے تنقید کی پہلے جملے پر ہی سب کچھ جھاڑ دینا  بہادری سمجھا جاتا ہے۔ جب تک  تنقیدی فکر و نظر کی تربیت نہ دی جائے۔ یہاں جو تنقید کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ جس قدر دوسرے کی بے عزتی ممکن ہو، ہوجانی چاہیے ۔ اس کے لیے   خواہ بات کا بتنگڑ بنانا پڑے یا  مبالغہ آرائی کی جو بھی حدود ہوں ان کو چھونا پڑے، یا اس طرح طوفان ِ بد تمیزی پیدا کی جائے ، جس کا ردِّ عمل گالیوں کی ٹرینڈ کے علاوہ ممکن نہ ہو۔

تنقید ی فکر در اصل مزاحمتی مزاج کی عکاسی کرتی ہے، جو معاشرے میں موجود نا ہمواریوں پر بے چینی کا اظہار ہے اور ان کی نشاندہی کے ساتھ ان کو ٹھیک کرنے کی ایک علمی، عملی اور شعور ی کوشش ہے۔ فی زمانہ تنقیدی فکر اور مزاحمتی مزاج کا آپس میں ربط بھی نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔

دوسری طرف یہ حال کہ ہر زمہ دار فرد اپنے آپ کو سو فیصد معصوم ، فرشتے سے ذرا اوپر یا نیچے، ہر خامی، کوتاہی، غلطی اور گناہ سے بالکل پاک ظاہر بلکہ ثابت کرنے پر اڑا ہوا۔ جس کو چھوٹی سی تنقید بھی ہظم نہیں ہوتی ، البتہ کھانے پر آئے تو انسان ہظم کر جاتے ہیں۔ کسی نے ہمارےکے کسی فیصلے ، عمل ، رویے یا تقریر و تحریر پر تنقید کیا کی، وہ سیدھا سیدھا غدار، منافق، کالی بھیڑ  اور نہ جانے کیا سے کیا ٹھیرائے گئے۔ دیکھا ہماری ہمت، حوصلہ، شخصیت اور قوتِ برداشت کا عالم!

 اگرچہ ہمیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ واقعی تنقید نگار کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں، بے شک لفاظی پر تھوڑا بہت اعتراض ممکن ہے، لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں نے چھوٹی سی بھی غلطی تسلیم کی تو نہ جانے لوگ ہم سے کیا سے کیا تسلیم کروائیں گے اور یوں بالکل تسلیم نہ کرنا اور اپنے آپ کو غیر فطری طریقے سے معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرنا ، دراصل یہی ہماری کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے ۔ اور ہم ہر طریقے سے تنقیدی تبصروں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جیسے  فیس بک یا واٹس ایپ پر کمنٹ ڈیسیبل رکھنا ، ادارے کی کوئی بھی خبر سنسر شپ کے بغیر باہر نہ جانے دینا۔ میڈیا پر مارشل لائی سنسرشپ  عائد رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔

تنقید کو روکنے کا ایک مؤثر طریقہ کار صاحبان اقتدار کے ہاں ان دنوں بہت مقبول ہے اور وہ ہے، تنقید کرنے والوں کے اصل سرغنے کا سراغ لگایا جائے اور معمولی سی مراعات، جیسے کوئی چھوٹی سی ملازمت، کسی کی ٹرانسفری، کسی کا پروموشن یا کسی کے لیے کوئی  تخفہ ، کوئی اعزازی لقب یا سند  وغیرہ یا کچھ تنقید نگار جو اپنے آپ کو اس زمانے کے بے تاج صحافی سمجھتے ہیں ، ایک آدھ پارٹی یا کھانے کی تقریب سے بھی خاموش ہو سکتے ہیں، اور ہو رہے ہیں۔  وجہ یہ ہے کہ ان کی مزاج مزاحمتی نہیں، ان کا لہجہ تنقیدی ہے، جسے تھوڑی سی مٹھائی منہ میں رکھ دی جائے تو بدلا جا سکتا ہے۔

یہ رویے ہمیں مملکت، حکومت اور سیاسی پارٹیوں سے لے کر سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور تنظیمات  سبھی میں کسی نہ کسی حد تک نظر آتا ہےاور  ہماری قوم اس طرح کی عدم برداشت کے نتائج بگھت رہے ہوتے ہیں۔  چھوٹی اور معمولی باتوں کے عوض بڑے نظریات اور فکر و نظر کی قربانی دی جاتی ہے، بڑے حقوق کو کھلے عام غصب کرنے کی  اجازت دی جاتی ہے اور مزاحمت نہیں کرتے ۔ حکمرانوں کے ہاں ایک جملہ عموماً بولاجاتا ہے، یار ’’فلان کا منہ بند کردو‘‘۔ ’’فلان کو خاموش کردو ‘‘ اورایسے جملوں کے معنی سے ان کے پیروکار بخوبی واقف ہوتے ہیں، یا کچھ کھلاتے ہیں، بلکہ کچھ پلاتے ہیں ، جس میں  مخصوص مشروبات کے علاوہ ڈانٹ  یا دھمکیاں وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

لازمی بات ہے جب آپ تنقیدکے ہرممکن دروازے کو بند کرنے کی کوشش کریں گے ، تو ممکن ہے تنقید کا رجحان اور تعداد کم ہو جائے،جس سے آپ خود غلط فہمی کے شکار ضرور ہوں گے لیکن اس کے خطر ناک نتائج سے بالکل بے خبر ہوں گے۔ اور ممکن ہے کہ اپنی خواہشات  اور ترجیحات پر مبنی کاموں، فیصلوں اور  رویّوں کو درست سمجھنا شروع کر دیں حالانکہ حقیقت میں ویسا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ایسا ہی ہے، کہ آپ جسم کے کسی حصے پر کوئی خطرناک زخم ہو اور وہ بڑھتا جائے لیکن آپ کو درد محسوس نہ ہو، اور آپ سجھیں کہ بالکل صحت مند ہے۔ کیونکہ درد آپ کو پرہیزگاری ، احتیاط اور اور علاج معالجے یا دوائی پر مجبور کرتی ہے، جبکہ درد کا احساس ختم ہو جائے تو  بیماری آزاد ہوتی ہے یہاں تک ایک دن اچانک جسم کا وہ حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، کیونکہ آپ نے اس کی دیکھ بھال نہیں کی ہوتی۔

تنقیدہمیں محتاط رکھتی ہے، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں یا غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان کے اصلاح کا موقع دیتی ہے، لیکن جب ہم تعریف کے دلداہ ہو جائیں،   رعونت شخصیت کا حصہ بن جائےاور تنقید کو برداشت کرنے کی عادت چھوڑ دیں، تو لازمی بات ہے، لوگ جھوٹی تعریفیں کرکے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یا انتقام کی خوف سے تنقید سے گریز کریں گے ، اور یوں ہمیں یہ بھی معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ہمیں اپنے کس عمل ، رویے یا  عادت کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے، کہ تنقید کا فقدان ، سپیڈ بریکر نہ ہونے کی مترادف ہے، ہم ایکسلیٹر پر پاؤں رکھ کر چلتے جائیں  گے، سپیڈ بڑھاتا جائے گا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے کا کنٹرول ممکن نہ ہوگا اور خطرناک حادثے کا شکار ہوگا۔ اسی طرح  بسا اوقات کچھ لوگ  جو اپنے زعم میں بہت ہوشیار ہیں، اپنے آپ کو تنقید کی چبھن سے بچانے یا اس پر مرہم رکھنے کے لیے درباری قصیدہ خوانوں کو بھرتی کر لیتے ہیں جو ان کی تعریفوں کے ایسے پُل باندھتے ہیں  کہ بندہ واقعی میں اپنا پتہ ہوتے ہوئے بھی  اپنا پتہ بھول جاتے ہیں۔

 اس طرح کی  وضیفہ خوار قصیدے درد کش دوائیوں کی طرح ہوتے ہیں جس کے زیادہ استعمال سے اس کی لَت پڑ جاتی ہے، انہیں نشہ ہوتا ہے، ہمیں معلوم ہے کہ ایسی دوائیاں بیماری ٹھیک نہیں کرتی درد کی شدت میں افاقہ دیتا ہے، یعنی درد کی احساس کو کم کرتا ہے، جس  کےسائڈ ایفیکٹ اگر معلوم ہو تو بندہ شایدہ درد کو زیادہ ترجیح دے۔ ایسے پین کِلر pain killerقصیدوں اور تعریفوں سے بندے کو  قصیدہ خوان کی باتوں پر خود اپنی ذات اور ضمیر سے زیادہ بھروسہ ہونے  لگتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ  کسی کویہ مقام  نصیب ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پین کِلر دوائی کی نشئی بن چکا ہے۔ آگے کیا لکھوں نشئیوں کی حالات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ لیکن یہ تمام  واردات دل ، دماغ، سوچ، رویوں ، روحانی آسودگی، عادتوں، کردار، رفتار، فیصلوں اور   عمل رد عمل کی نمونوں میں واقع ہوتا ہے جو کبھی کبھار دل اور دماغ کی طبعی اعضا پر بھی آسانی سے اثر انداز ہوجاتے ہیں۔

ہم نے تاریخ میں کتنے ہی خوش آمد پسندوں، تنقید پر غصہ آنے والوں، رعونت پسند اور میڈیا بلیک آؤٹ کرکے ’’ سب ٹھیک ہے ‘‘ کا و ِرد کرنے والے حکمرانوں، سربراہوں،  لیڈروں، افراد اور گروہوں کو بُری طرح تنگ گلی میں بند ہوتے دیکھا ہے، جن کی حالت بعد میں اس قدر قابل رحم ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ جب تنقید کی دروازوں کو بند کرنے والی قوت سلب ہو جاتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گھر کے قصیدہ خوانوں نے بھی  تنقیص اور صلواتوں کی اچھی بھلی پوٹلی تیار کر رکھی تھی۔

اگر بندہ زندگی میں کڑوی چیزیں کھانے سے زیادہ گریز کریں تو شوگر کا عارضہ لاحق ہونے کی امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ حدیث پاک ہے کہ حق کڑوی ہوتی ہے، اسے تسلیم کرنےاور ہظم کرنے والا ہی  فکری زیابیطس سے بچ سکتا ہے ۔ ۔اداروں پر تنقید اچانک کم ہو جائے تو تحقیق کر لینی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟، کیونکہ ہو سکتا ہے، کہ لوگوں نے آپ کے ادارے سے وابستہ توقعات  ختم کر لے ہوں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ اگرلوگوں نے تنقید چھوڑ دی تو ممکن ہے، لوگ اصلاح ِ حال کے لیے مایوس ہو چکے ہوں، جو کہ اس سے بھی خطرناک علامت ہے۔

جامعات میں تنقیدی تفکر Critical thinking کو فروغ دینے کے لیے مضامین پڑھائے جاتے ہیں، لیکن عملی تربیت وہاں بھی نہیں ہوتا۔ اسی مضمون کے استاد سے چند تند و تیز سوالات پوچھیں تو لگتا ہے،  ان کے اندر تنقید برداشت  کرنےکی صلاحیت طلبا سے بھی کم ہیں۔

کچھ تعلیمی اداروں میں تنقیدی فکر کی نشو و نما اور تربیت خاص انداز سے ہوتی ہیں اور وہا ں تربیت یافتہ افراد کی رویوں اور تقریر و تحریر میں ایک خاص قسم کی نکھار  ہوتی ہے، وہ نشتر بھی چلاتے ہیں لیکن اس سے چبھن کے ساتھ گُدگُدی ہوتی ہے۔ مرحوم شیخ غلام حسین سحرؔ کی طرح  جواپنے کلام کے ذریعے  ہمیں خوب ہنسانے کے ساتھ رونے اور سوچنے پر مجبور کرتا تھا۔

جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ذیر تعلیم تھا تو وہاں کئی ادبی تنظیمیں ہوتی تھیں جو نو آموز لکھاریوں، ادیبوں، افسانہ نگاروں اور  شعرا   کی تخلیقات پر نقد و نظر کے عنوان سے اس کے محاسن اور عیوب کی نشاندہی کرتے۔ سینئر اساتذہ اور طلاب جہاں دل کھول کر داد دینے میں کنجوسی نہیں کرتے تھے، وہیں نو آموز تخلیقات کی پوسٹ مارٹم کرنے میں بھی بخیل نہیں تھے، اور یوں ایک کلچر فروغ پاتا تھا۔ جس کی تنقید میں زیادہ جان ہوتی ، طلبا انہیں کو اپنا استاد مانتے۔ یوں  طلبا آہستہ آہستہ ادیبوں کی صف میں شامل ہوتے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ اس  تعلیمی ادارے نے  ملک کو کس کس قسم کے انسان فراہم کیے، اقبالؔ جیسے، فیض ؔ جیسےجو رومانوی انقلاب کے نقیب ٹھیرے، جن کے لہجے میں   حلاوت ، بات میں وزن، طرزِ اد ا میں محبت اور پیغام میں  مزاحمت اوربغاوت ہوا کرتی تھی۔ تعلیمی ادارے ایسے ہوتے ہیں جہاں فیضؔ جیسی شخصیات جنم لیں، جو زندان کی صبح و شام کو بھی طلسماتی بنانے کا ہنر جانتے ہوں، جو انسان کیا، انسان نما جانوروں  کوبھی خود داری سکھانے کا سلیقہ جانتا تھا۔

یہ گلیوں کے بے کار آوارہ کتے

کوئی ان کی سوئی  ہوئی دُم ہلا دیں

کوئی ان کو احساسِ ذلت دلادیں

پھر

غمِ جہاں ہو، رُخ یار ہو، کہ دستِ عدو

سلوک ہم نے کیا ، جس سے عاشقانہ کیا

جس کے اندر جتنی حلاوت ہوگی، باہر کی تمام تلخیوں کے با وجود  ان کے ظرف سے شیرینی ہی ٹپکے گا۔ لیکن  تلخ مزاج لوگوں کی کوشش ہوتی ہے، کہ شیرین مزاجوں میں بھی اس طرح  تلخیاں بھر دیں کہ  کبھی کبھار وہ بھی تھُو تھُو کرنے پر مجبور ہو جائے۔

ہاں تلخئی ایام ابھی اور بڑھے گی ۔

ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے۔

منظور یہ تلخی ، یہ ستم ہم کو گوارا

دم ہے تو مدائے الم کرتے رہیں گے۔

 اور جب فیض ؔ کو اس حد مجبور کیا جاتا ہے تو فرماتا ہے:

لب پر ہے تلخئی مئے ایام ورنہ فیضؔ

ہم تلخئی کلام پہ مائل ذرا نہ تھے۔

ہماری دعا ہے خدا کرے کہ کسی بھی شیرین سخن پر تلخئی کلام کی نوبت نہ آئے۔ ویسے احباب کو نرم گفتاری پر بھی خوب شکوہ رہتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button