خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہم گلگت بلتستان کی ان تمام ماوں اور بہنوں سے اظہار یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو گذشتہ کئ مہینوں سے ناقص و مضر صحت آٹے کی فراہمی اور پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے گلگت بلتستان کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کرتی رہی ہیں۔
اس موقعے پر ہم ان تمام خواتین کو بھی خراج عقیدت و خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو معاشرے کے ظلم و جبر کا شکار ہوکر قتل کی گئیں، تشدد کا نشانہ بنائی گئیں،جنسی درندگی کا نشانہ بنائی گئیں، تعلیم ، صحت اور انصاف تک رسائی سمیت دیگر تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کی گئیں اور ان کو بھی جنہیں ستم ظریفانہ رویوں کی بھینٹ چڑھا کر خودکشی پر مجبور کیا گیا!ایک بڑی تعداد میں خواتین آج بھی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کے علاوہ مہنگائی، بےروزگاری، غربت، قدرتی آفات سمیت دیگر تمام سماجی ، معاشی، سیاسی و معاشرتی مسائل میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں جن کے کندھوں پر صدیوں سے اپنے گھروں میں موجود بچوں ، افراد باہم معذوری، بزرگوں اور اہل خانہ کو سنھبالنے کی بھاری ذمہ داریاں ڈالی جاتی رہی ہیں۔
مذکورہ مسائل کے انبار میں دھنسی یہ محنت کش اور جفا کش خواتین گھریلو تشدد، زچگی کے دوران ہونے والی اموات، غیرت کے نام پر ان کے خلاف ہونے والے جرائم ، زبردستی و کم عمری کی شادی، جنسی و جسمانی تشدد، معاشرے کی تنگ نظری، طعنہ زنی، کام کی جگہ اور پبلک مقامات پر ہراسانی، وراثتی جائیداد سے محرومی سمیت اپنی روزمرہ ذندگی میں بلاناغہ مردوں کی ہوس بھری نظروں اور خوفناک رویوں کا بھی سامنا کرتی ہیں۔
وہ خواتین جو گھروں میں کام کرتی ہیں اس کا نہ تو ان کو کوئی معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی اس کی پذیرائی ملتی ہے۔ جبکہ اپنے اہل خانہ اور بچوں کا پیٹ پالنا کے لئے گھروں سے نکلنے والی خواتین جگہ جگہ ذہنی کوفت اور طرح طرح کے ناروا سلوک کا سامنا بھی کرتی ہیں۔
خواتین آبادی کا نصف حصہ ہونے کے باوجود تعلیم ، صحت، روزگار، سیاست اور فیصلہ سازی کے عمل میں شراکت داری کے عمل سے بھی محروم ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی تفریق سے متعلق ٢٠٢٢ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معاشرہ صنفی عدم مساوات کے حوالے سے١۵٦ ویں نمبر پر ہے ۔ ہم سے پیچھے افغانستان، صومالیہ اور عراق ہیں جو طویل عرصے تک جنگ زدہ رہے ہیں جبکہ ایران، سعودی عرب، سمیت دیگر تمام اسلامی ممالک ہم سے آگے ہیں۔ دنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صنفی عدم مساوات کا یہ حال رہا تو ہمارا معاشرہ اگلے دو سو سال تک ترقی یافتہ معاشروں کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا ہے۔
اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کے لئے مثبت اور درست پالیسی سازی کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے لئے ایک محفوظ ، صحت مند، باوقار، مہذب اور انسان دوست ماحول میں جینے اور اپنے خاندانوں اور معاشرے کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا موقع مل سکے۔
خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین کا معاشرے کی ترقی میں کردار کو اجاگر کرنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ ان مسائل کی نشاندہی کی جائے جو خواتین کو درہیش ہیں۔ نصف آبادی پر مشتمل خواتین کو ان گنت مسائل درپیش ہیں لیکن سب سے بڑا مسلہ خواتین سے متعلق معاشرے کے منفی رویوں کا ہے۔ جن کی وجہ سے خواتین ہر لمحہ ذہنی کوفت کا شکار رہتی ہیں۔
ہمیں خواتین سے متعلق اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر ماوں ، بہنوں ، بیٹیوں اور بیویوں کے علاوہ معاشرے کی ہر خاتون کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ ان کے ساتھ نرمی اور عزت اور احترام سے پیش آنا ہوگا۔
ہمیں خواتین کے ساتھ انسانی رویوں کی ترویج کے لئے اپنے بیٹوں اور گھر کے مردوں کی تربیت کرنی ہوگی۔ ان کو بتانا ہوگا کہ ان کی ذمہ داری نہ صرف گھر کی خواتین کو عزت دینا ہے بلکہ وہ راہ چلتی، بس پر سفر کرتی، کام کے لئے گھر سے نکلنے والی، سکول ، کالج، مدرسہ، یا یونیورسٹی جانے والی اور ہسپتال سمیت دیگر پبلک مقامات پر موجود خواتین کو مکمل عزت اور احترام کی نظر سے دیکھیں ، ہر خاتون کو ہوس بری نظروں سے دیکھنے سے اجتناب کریں، اپنی نظریں نچی رکھیں، خواتین کو جگہ دیں، ان کے کپڑوں، چلنے اور بات کرنے کے انداز کو موضع گفتگو نہ بنائیں، موبائل اور سوشل میڈیا میں نازیبا کمنٹس ، فرینڈ ریکوسٹ اور خواتین مخالف پوسٹس سے اجتناب کرنے سمیت گلی محلوں اور مارکیٹوں میں خواتین کا پیچھا نہ کریں، معاشرے کی ہر خاتون کو انسان سمجھا جائے اور ان کی انسانی عظمت کو قبول کرتے ہوئے ان کو معاشرے میں محفوظ ، پرامن، خوشگوار اور خوشحال زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حیاء کا درس بچیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کو بھی دیا جائے جو معاشرتی اخلاقی اقدار کو جگہ جگہ روندنے اور خواتین کو بے توقیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔