لینڈ ریفارم ایکٹ اور سٹیٹ سبجیکٹ رول
گزشتہ چند سالوں سے گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کمیشن کے نام پر عوام مخالف پالیسی عوام پر مسلط کرنے کیلئے کوششیں جاری ہے ۔ خبروں کے مطابق حکومت خطے کی کُل زمینوں کا 20 فیصد پاکستان کے ریاستی اداروں اور 10 فیصد گلگت بلتستان حکومت کے نام پر الاٹ کرکے باقی ماندہ تمام اراضی عوام میں تقیسم کرنے ارادہ رکھتے ہیں۔ اس خبر نے گزشتہ کئی سالوں سے عوام کو شش پنج میں مبتلا کر رکھا ہے اور تشویش پیدا ہوگیا ہے کہ عوامی نمائندوں نے عوام کو اپنی زمینوں،چراگاہوں سے بیدخل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ایک طرف ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کا نوحہ دوسری طرف گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کیلئے نیا گریٹ کا آغاز مسلہ کشمیر سے دستبرداری اور آئین کے آرٹیکل 257 اور مسلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے سال 2019 میں عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں وفاقی کے حکومت کے سامنے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کرکے متقفہ طور پر گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کمیشن کے نام پر سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کے نئے گریٹ گیم کو مسترد کردیا۔ عوامی ایکشن کا آج بھی یہی مطالبہ ہے حکومت خطے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا 1994 سے لیکر 2019 تک کے فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کی حل کیلئے رائے شماری ہونے تک خطے کی خدوخال میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں۔ یاد رہے ریاست پاکستان کا گلگت بلتستان متنازعہ ہونے اور ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہونے کے حوالے سے قومی بیانئے میں 1947 سے لیکر آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ریاست آج بھی خطےکو جموں کشمیرکا حصہ سمجھتی ہے اور سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے بھی یہی کہتا ہے کہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر سے منسلک متنازعہ خطہ ہے۔لیکن اُس بنیاد پر حقوق آج تک نہیں ملا اور سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی 1974 سے اب تک عروج پرہے۔اگرچہ لینڈ ریفارمز کے نام ہر متنازعہ خطے کے عوام کو اپنی چراگاہوں، زرعی زمینوں سے بے دخل کرنے کی سازشوں کا سلسلہ ماضی بعید سے چلی آرہی ہے جس میں مسلم لیگ ن کے دور میں جدت آئی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمنٰ کی بھرپور کوششوں کے باوجود عوامی مزاحمت کی وجہ سے کامیابی نہیں ملی۔ آج تحریک انصاف عوامی زمینوں کی بندر بانٹ کیلئے ن لیگ کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر چیف سیکرٹری گلگت بلتستان بھی اس حوالے سے بہت ذیادہ متحرک نظر آتا ہے حالانکہ یہ کام اسمبلی کے بھی اختیار میں نہیں کہ متنازعہ خطے کی زمینوں کی رائے شماری سے پہلے چھیڑ چھاڑ کریں۔ لیکن گلگت بلتستان کے اسمبلی ممبران متعدد بار اپنی نااہلی کا اعلان کرتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ خطے میں بیوروکریسی کے آگے عوامی نمائندوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ بے بسی کے عالم میں باختیار ہونے کا پرچم لہراتے ہوئے گزشتہ ماہ وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے بھی لینڈ ریفارمز کے حوالے سے منعقدہ کمشنرز،ڈپٹی کمشنرز، ایس ایم بی آراور فیلڈ سٹاف کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب میں اس مسلے کو خطے کا دیرینہ حل طلب مسئلہ قرار دیکر لینڈریفارمز کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایک ایسا ڈرافٹ لینڈ ریفارمز ایکٹ تیار کریں جو تمام اضلاع کیلئے موزوں اور قابل عمل ہو۔بدقسمتی کی بات ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے فیصلہ سازوں کو آج تک یہ ادارک نہیں ہوا کہ یہ خطہ چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع مسلہ کشمیر کی اصل کنجی ہے۔ عالمی طاقتوں کی نگاہیں گلگت بلتستان کے عوام کی ہر آواز پر گہری طور پر مرکوز ہیں یہی وجہ ہے کہ خطے میں بنیادی حقوق کیلئے احتجاج کرنے پر پاکستان دشمن طاقتیں ا یسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے گلگت بلتستان میں بغاوت شروع ہوگئی۔ انڈین میڈیا سوشل میڈیا سے ویڈیوز اٹھا کر گلگت بلتستان کو پرائم ٹائم میں کوریج دے رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا آج تک نہ ہی خطے کی آواز بنی اور نہ ہی یہاں پر جاری انسانی حقوق خاص طور پر مسلہ کشمیر کے تناظر میں آئین کے آرٹیکل 257 اور سلامتی کونسل کے قراردادوں کی خلاف ورزیوں پر عوامی آواز ارباب اختیار تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ خطے میں کبھی خالصہ سرکار کی ایک قدیم اصطلاح کی غلط تشریح کرکے کبھی لینڈ ریفارمز کے نام پر زمینوں کو عوامی مزاحمت مسلسل احتجاجات کے ہتھیانے کی کوشش جاری ہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصرنے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے اور مودی کے عزائم کی تکمیل کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ورنہ سیدھی سی بات ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت ایک جیسی ہے۔ وہاں آج بھی قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ رول 1927 نافذ ہیں اور غیر ریاستی باشندوں کیلئے زمینوں خریداری پر پابندی ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں جہاں غیر مقامیوں کو جاری کردہ ڈومیسائل مسلسل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے وہیں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف کھلے عام ہورہی ہے۔ ایسے میں کس طرح ہندوستان کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں کشمیر لداخ میں آرٹیکل 370 کے خاتمے پر احتجاج ممکن ہوگا۔؟ لہٰذا وقت کا نقاضا ہے کہ گلگت بلتستان میں سلامتی کونسل کے قرارداد 13 اگست 1948 پر عملدرآمد کرکے لوکل اتھارٹی گورنمنٹ کی قائم کریں اور مقامی اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ دیں۔ یا باقاعدہ طور مسلہ کشمیر سے الگ ہونے کا سرکاری سطح اعلان کرکے گلگت بلتستان کو قانونی طور پاکستان کا حصہ بنائیں یہی خطے کے عوام کی خواہش بھی ہے۔ ورنہ این ایف سی ایوراڈ شامل کرنے، سی پیک میں حصہ اور ووٹ کا حق مانگنےپر مسلہ کشمیر کا بہانہ بنا کر زمین وسائل ہتھیانے کیلئے بے اختیار اسمبلی کا کاندھا استعمال کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔