کالمز

گلگت بلتستان ۔۔۔۔۔۔ وفاق کی چراگاہ

آفاق بالاور 
گلگت بلتستان وفاق کی تجربہ گاہ ہے۔  وفاقی افراد و ادارے 1947 سے آج تک اس پر مختلف تجربے کرتے آ رہے ہیں۔ ایک نائب تحصیلدار کی سرپرستی سے لے کر آج کے رنگساز رنگیلے چیف سیکرٹری کی حکمرانی تک اس مظلوم خطے پر کیا کیا تجربے نہیں کیئے گئے۔ خالصہ سرکار کے نام پر صرف گلگت اور سکردو میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیرمقامی افراد اور اداروں کو بخش دی گئی اور عوام کو  دانستہ فرقہ ورانہ جنگ کی وباء میں الجھایا گیا تا کہ اِدھر اُدھر کی سوچ ہی نہ پائیں۔ کچھ سال قبل سجاد سلیم ہوتیانہ نام کا ایک کریکٹر چیف سیکرٹری بنا کر بھیجا گیا تھا جس کا کام تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر دینا اور خود کو عوام کا سب سے بڑا خیرخواہ ثابت کرنا تھا۔۔۔۔ مگر عوام اس مسخرہ پن کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔۔جن کو کام سے مطلب ہو وہ فیس بک پر شوشا نہیں کرتے۔۔۔اور جو سوشل میڈیا پر شوشا کے حامی ہیں ان میں ضرور خامیاں ہوتی ہیں جن کے سبب وہ insecure ہو کر یہ سب ڈرامہ بازیاں کرتے ہیں۔  بہر حال پھر بھی موجودہ رنگیلے چیف سیکرٹری جتنا ناکام کوئی نہیں آیا تھا۔۔۔ صرف سوشل میڈیا پر ہی صاحب کی آنیاں جانیاں ہیں۔۔۔ آج تک کسی چیف سیکرٹری کے زمانے میں بیوروکریسی کے آپس کے اختلافات اخبار یا سوشل میڈیا میں نہیں آئے تھے۔۔۔یہ صاحب بہادر کا یکطرفہ التفات و محبت ہے کہ وفاقی اور مقامی افسران میں ٹھن گئی ہے۔۔۔۔۔ صاحب وفاق سے تھوک کے حساب سے چوچے ہانک کر ادھر لاتے ہیں جن کو سرکاری خرچ پر دو تین ماہ چیف سیکرٹری کے ذاتی مہمانوں کی طرح نوازا جاتا ہے پھر سال چھ مہینے کے لیئے من پسند سٹیشن پر اے سی لگانے کے بعد 17 سکیل میں ہی ڈی سی بنا کر مقامی سروس کے بی ایس 18 والے افسران کے اوپر impose  کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان ٹٹ پونجیوں کے آرام و سہولت کی خاطر مقامی سینئیر افسروں کی گاڑیاں چھینی جاتی ہیں۔۔۔دفتر خالی کروائے جاتے ہیں۔۔۔  حالانکہ جی بی سول سروس بھی FPSC کے ذریعے مقابلے کا امتحان پاس کر کے آتی ہے۔۔۔۔ ان کی ٹریننگ بھی اسی اکیڈمی میں ہوتی ہے جہاں سے سانولے صاحبان مستفید ہوتے ہیں۔  آج تک آنے والے چیف سیکرٹریز نے گلگت بلتستان سول سروس کے کام اور معیار کو ہمیشہ سراہا اور ان افسروں کو PAS سے زیادہ اہل قرار دیا ہے۔ مگر وانی صاحب کی بدقسمتی دیکھیئے کہ انہوں نے بعض ناعاقبت اندیشوں کی ایماء پر یہ محاذ کھول دیا۔ وفاق پاکستان کو بلوچستان، فاٹا اور سندھ کی تحریکیں کم پڑ رہی تھیں سو یہاں نیا محاذ کھول دیا گیا۔ 
آج سوشل میڈیا پر دو اہم خبریں گردش میں ہیں۔۔۔ ایک تو یہی سول سروس کوٹہ والی اور دوسری کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کی پریس کانفرنس جہاں ہمارے دوست بشیراحمد خان نے صاف الفاظ میں بتایا ہے کہ اگر ٹھیکیداروں کےواجبات ادا نہ ہوئے تو بلوچستان جیسے حالات بھی ہو سکتے ہیں۔ بشیر صاحب نے انڈیا کا بھی حوالہ دیا ہے۔۔۔ اب سوچیئے۔۔۔ یہی دو خبریں اگر ہندوستانی میڈیا کے ہاتھ لگ جائیں تو کیا تماشہ ہو؟ مسئلہ کشمیر اور حق خود ارادیت کے کیسے کیسے پرزے نہ اڑیں گے۔۔۔خاص طور پر ان حالات میں جب مودی کا بیان سامنے آیا ہے جس میں اس نے بلوچستان ، سندھ، کے پی اور گلگت بلتستان میں ریاستِ پاکستان کی ناکامیوں کا ذکر کیا ہے۔۔۔اور ان کے وزیر دفاع نے گلگت بلتستان پر قبضے کی بات بھی کی ہے۔۔۔۔ گلگت بلتستان والے پاکستان مخالف ہرگز نہیں ہیں مگر جب ناانصافیاں حد سے تجاوز کریں تو تابعداری کی امید نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔ ہم نے جب مقامی سول سروس کے کچھ سینیئر اور کچھ جونیئر دوستوں سے احوال لیا تو معلوم ہوا کہ اس سب کی ذمہ داری وانی صاحب اور ان کی کچن کیبنٹ کے مرکزی کردار سیکرٹری فنانس فرخ عتیق پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے سازشیں رچا رچا کر لوکل سروس کو بالکل دیوار سے لگا دیا ہے۔۔۔سو اب ان کے پاس اپنے  جائزحقوق کے حصول کے لیئے  مناسب چارہ جوئی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ ویسے سنا ہے کہ فرخ صاحب کچھ عرصہ کے پی کے چیف سیکرٹری کے سٹاف افسر رہے ہیں جہاں ان کے اسی متعصبانہ روئیے سبب کے پی سول سروس کے افسران نے انہیں کمرے میں بند کر کے پیٹا تھا جس کے بعد ان کی خدمات جو باعزت طور پر وفاق کو واپس کر دیا گیا تھا۔۔۔ جی بی سول سروس والے شرفاء ہیں۔۔۔۔ انشاءاللہ  نوبت پٹائی، مار کٹائی تک نہیں جانے دیں گے۔
ایمان شاہ صاحب نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک تجزیئے کے ذریعے اربابِ اقتدار کو اس صورتحال سے خبردار کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے ؟  (23) سب ڈویژنز میں سے   %18  اور %82 کوٹہ کے حساب  صرف (19) میں مقامی سروس کے اے سی ہونے چاہیئں مگر وفاق سے 11 افسران کو لا کر فیلڈ میں اے سی بٹھایا گیا ہے جن کے کچن بھی سرکاری بجٹ سے چلائے جاتے ہیں۔۔۔ اگر مذکورہ زائد افسران اگر بی ایس 17 کی تمام پوزیشنز (سیکشن افس، سٹیلمنٹ افسر وغیرہ ) کے کھاتے میں لائے گئے ہیں تو ان کو SO ہی بنایا جائے اور فیلڈ کی 19 پوزیشنز مقامی افسران کے لیئے خالی کی جائیں۔۔۔ 10 اضلاع میں سے  3 میں PAS کے ڈی سی ہونے چاہیئں مگر اس وقت 8 ڈی سی وفاقی افسروں سے اور صرف دو لوکل سروس سے ہیں۔۔۔۔ جو 5 وفاقی  افسرکوٹے سے زائد ہیں انہیں فی الفور  DS بنا کر فیلڈ میں مقامی افسر تعینات کیئے جائیں ۔۔اسی طرح تمام اہم سیکرٹریز کی پوزیشنز بھی وفاق سے آنے والی اشرافیہ کے لیئے مخصوص ہیں۔۔۔۔۔ اس امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے۔۔۔ سیلف رول اور سیلف گورننس کے دعوے کہاں گئے ؟ صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ان کے آگے بے بس ہے۔۔۔۔۔ نہ اپنی مرضی سے پوسٹنگ ٹرانسفر کر سکتا ہے نہ ہی کوئی ترقیاتی منصوبہ دے سکتا ہے۔۔۔۔۔بس ڈاکٹرز کی مدت ملازمت میں توسیع کر سکتا۔۔۔۔وہ بھی صرف اور صرف اس لیئے کہ سگے سالے کا روزگار لگا رہے۔
چیف ایگزیکٹیو کی بے بسی اور بیوروکریسی کی متعصبانہ من مانیوں کی ایسی نظیر کسی اور صوبے میں نہیں ملتی۔۔۔۔ حتیٰ کہ اس معاملے میں آزاد جموں کشمیر بھی گلگت بلتستان سے بہت بہتر ہے جہاں صرف آئی جی پی اور چیف سیکرٹری وفاق سے آتے ہیں باقی تمام امور کو لوکل سروس دیکھتی ہے۔۔۔ مگر گلگت بلتستان وفاق کی وہ چراگاہ ہے جہاں میمنے آکر بکرے کا رول پلے کرتے ہیں۔ وفاق وفا کرے ؛ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے۔ کوٹے کی violation کسی صورت قابل قبول نہیں۔  بی ایس 17  سے بی ایس 20 تک اشرافیہ کے لیئے مختص پوزیشنز ختم کی جائیں۔ ایک پوزیشن پر اگر ایک tenure کے لیئے وفاقی افسر ہے تو اگلی بار اتنا ہی عرصہ لوکل افسر رہے۔۔۔۔۔ پوزیشنز چاہے سیکرٹریٹ کی ہوں یا فیلڈ کی ؛ پالیسی بنائی جائے کہ ایک بار اس پر اگر وفاق کا افسر ہے تو اگلی بار ادھر جی بی سول سروس کا افسر ہو۔ جہاں ڈی سی وفاق کا ہے وہاں اے سی لوکل ہو۔۔۔ جہاں سیکرٹری لوکل سروس افسر ہے وہاں ایڈیشنل سیکرٹری یا ڈپٹی سیکرٹری وفاق سے ہو۔۔ورنہ یہ چنگاری کسی دن الاٶ بن کر دہک اٹھی تو وانی اور فرخ جیسوں کو چھپنے کو جگہ نہ ملے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button