کالمز

ملا اور مسٹر کی کشمکش میں پھنسا داریل

داریل گلگت بلتستان کا ایک قدیم علاقہ ہے. ثقافتی، تہذیبی اور رسم و رواج کے اعتبار سے یہ وادی انتہائی مالا مال ہے. اللہ نے اس وادی میں محبت کرنے والے دلوں کی بہتات کردی ہے. بہت سارے اعتبارات سے داریل گلگت بلتستان میں ایک خاص مقام اور پہچان رکھتا ہے. مہمان نوازی اور اسلام پسندی کے حوالے سے بھی داریل اپنا مخصوص مقام اور پہچان رکھتا ہے.

بدقسمتی سے گزشتہ تین چار عشروں سے داریل کا انتہائی حسین چہرہ بھیانک بناکر پیش کیا جارہا ہے. اس میں کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں کچھ غیروں کی ریشہ دوانیاں. اب گزشتہ تین چار سال سے داریل مسٹر اور ملا کی کشمکش میں میں بری طرح پھنسا ہوا ہے.

ڈااکٹر محمد زمان صاحب نے باہر کی دنیا میں داریل کی مثبت پہچان کرانے اور داریل میں سیاحت کو فروغ دینے کی نیت سے "پیس ایکسپو” کے نام سے ایک ایونٹ گلگت بلتستان ضلع دیامر کی حسین وادی داریل کے سنٹر گماری بازار میں رکھا اور اس فیسٹیول میں شرکت کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی غرض سے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا اور ہزار کے لگ بھگ لوگ اس میں ایڈ کردیئے گئے تھے جس میں راقم بھی شامل تھا ۔کچھ جڑے رہنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مقاصد تو بڑے مناسب ہیں ۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرکے ان نیک خواہشات پر مبارک بھی دی اور ساتھ میں تین باتیں ازارہ ہمدردی وخیر خواہی عرض کر دی.

ایک: حکومت کے سنجیدہ لوگ آپ کا ساتھ دے رہے ہیں تو تب یہ ایونٹ رکھا جائے۔

دو: ڈھول باجوں ،ناچ گانے کے پروگرام نہ رکھے جائیں.

تین: مقامی چیدہ چیدہ علماء سے بھی مشاورت کی جائے۔ 

جس کے لیے میں بھی ان شاءاللہ تعالیٰ کوشش کروں گا.

پہلی دونوں باتوں کی یقین دہانی کے بعد آخری والی بات پہ ڈاکٹر صاحب کی جانب سے کوئی خاص سنجیدگی نظر نہیں آ رہی تھی (اور بعد میں گلے کی ہڈی بھی وہی بن گئی)

جب داریل کے علماء کرام کی جانب سے خدشات اور ساتھ مخالف سامنے آئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب کو تین تجاویز دیں.

ڈاکٹر صاحب خود جا کر علماء سے مل کر ان کو قائل کریں، یا پھر ان کا مان کر فیسٹیول کینسل کردیں ۔

دوسری بات داریل کے دونوں مضبوط امیدوار حاجی حیدر خان اور حاجی رحمت خالق صاحبان کے ہمراہ کچھ انتطامیہ کے عہدیداران کو ثالث بنا کر مذکرات کریں.

تیسری بات داریل کے چیدہ چیدہ سماجی عمائدین کی وساطت سے مذاکرات کریں

اور چوتھی اور آخری صورت میں نے ڈاکٹر صاحب کے پاس پرسنلی جا کر یہ بتائی تھی کہ ان علماء سے میں مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہوں اگر آپ میری کچھ شرائط مانیں اور وہ جو مہمان مولانا صاحب آ رہے ہیں ان کو میرے ساتھ ملا دیں.

مگر میں نے اپنی ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ ڈاکٹر زمان کے ہاں ہماری اتنی وقعت نہیں اور نہ ہی ان علماء نے ہماری بات سننا گوارا کیا ۔

کافی تناؤ کے بعد سماجی عمائدین نے مذاکرات کرائے اور اس فیسٹیول کو کینسل کردیا گیا۔ عید کے دن علماء نے ایک جم غفیر کو جمع کرکے اپنے خدشات اور پھر اپنے عزائم کا اظہار کیا اور دوسری جانب ڈاکٹر زمان صاحب نے بھی حسب معمول اپنا بیانیہ بدلتے ہوئے ایک غیر محتاط اور غیر ذمہ دار بیان انگلش میں ریکارڈ کرواکر سوشل میڈیا پر شیئر کردیا جس سے نہ صرف علاقے کا امیج مزید بری طرح برباد ہوگیا بلکہ اپنی سیاست کو بھی آخری نہج پر پہنچا دیا ۔

جب شروع میں فریقین کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آئے تو جو تجاویز میں نے فیس بک پوسٹ کے ذریعے جانبین اور عوام داریل کو پہنچانے کی کوشش کی تھی(جس کو کافی احباب نے سراہا بھی تھا)، ان تجاویز پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کچھ مزید گذارشات پیش کردیتا ہوں ۔ وہ تجاویز یہ تھیں:

ایک: علماء سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں ۔( اس میں مقصود یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب علماء کو کہہ دیتے کہ میں نے آپ کی رائے کو احترام دیتے ہوئے یہ چیز ختم کردی تو یہ قصہ ابتداء ہی سے ڈاکٹر صاحب کی ساکھ کو زیادہ متاثر کیے بغیر انجام کو پہنچ جاتا بلکہ عین ممکن تھاکہ ان کی ساکھ بہت اچھی ہوجاتی اور ہمیں بھی خواہ مخواہ لوگوں سے الجھنے کی نوبت نہ آتی)

2: رحمت خالق اور حیدر خان اور انتظامیہ کے کچھ اہم عہدیداروں کو بیچ میں رکھ کر مذکرات کیے جائیں ( اس سے مقصود یہ تھا کہ جیسا کہ اب ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی سازشیں ہیں تو ان کو بیچ میں ڈال دیے جانے سے اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو لوگوں کو ان کی منافقت سامنے آجاتی اور ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہوتی)

3: سماجی عمائدین کو بیچ میں رکھ کر مذکرات کیے جائیں ( اس آخری صورت پر ہی عمل ہوا ہے۔مگر یہ ایک تھرڈ کلاس تھکے ہارے بندے کا فیصلہ تھا ، اس کے رنگ میں بھنگ یوں ڈل گیا کہ کم ازکم پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی علماء کو ساتھ کھڑا کرنے میں ناکام ہوئے۔

اب اس تمام تر صورت حال کے بعد نتیجہ آپ کے سامنے ہے جو چیزیں کی جانی چاہیے تھیں وہ ختم کردی گئیں اور جو ختم ہونی چاہیے تھیں ان کو برقرار رکھا گیا ۔(یقینا علماء نے بھی اسی کو جائز وناجائز کے معیار پر پرکھ کر فیصلہ کیا ہوگا) مگر داریلی عوام کے حق میں یہ بالکل تھرڈ کلاس فیصلہ ہوا ہے اور مزید یہ کہ ڈاکٹر صاحب کا سیاسی گراف اوپر جانے کے بجائے مزید نیچے گر گیا۔ ان کی حسبِ معمول جلدبازی اور ٹھوس اقدامات کے فقدان اور علاقائی سیاست کو نہ سمجھنا اور یہاں کے انداز سیاست کو پرواہ میں نہ لینے کا نتیجہ سامنے آیا ہے اور دوسری جانب سے علماء کرام کو بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کی بےجا انا ،ہٹ دھرمی اور وہی محدود سوچ کی وجہ سے علاقے کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔اور وہ بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ واقعی داریل تانگیر ” نوگو ایریا ” تھا ،ہے اور رہے گا۔

چند باتیں مزید عرض کیے دیتا ہوں. تمام احباب ملاحظہ کیجیے.

1.ڈاکٹر صاحب سے گزارش ہے کہ اگر سیاست پھر بھی کرنی ہے تو دوبارہ الف سے شروع کیجیے اور داریل کے لوگوں کو اسی انداز میں ڈیل کریں جس طرح دوسرے دو امیدوار کرتے ہیں کہ اللہ کے نام پر قسمیں اٹھا کر دھوکہ دہی کریں،چند غنڈے پال کر اے ڈی پیز انہی پر صرف کریں ، قومیت ڈٹ کر کریں ، خوشی غموں میں شریک ہوکر باقی اوقات لوگوں کو الو بناتے رہیں ، اپنی محنت کا محور سوشل میڈیا پر بنانے کی بجائے زمینی حقائق پر بنائیں ، سنجیدہ اور ذی رائے لوگوں کی باتوں اور مشوروں کو بائی پاس کرنے کی بجائے ان کی رائے کو بھی سنیں اور اچھے ،ذی شعور افراد کو اپنے قریب رکھیں۔ وگرنہ یہ وہ معاشرہ نہیں جس کا آپ سوچ رہے ہیں ۔

2: علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اب نہیں تو چند ہی عرصے تک محسوس ہوجائے گا کہ اب لوگ سوشل میڈیا پر آپ سے درجنوں گنا اچھے علماء کو سنتے ہیں۔ اب بھول جائیں کہ لوگ ماضی کی طرح آپ کی ہر بات کو امام اخفش کی بکری بن کر سر ہلاتے رہیں گے اور قبول کرتے جائیں گے ۔اب زمانہ بدل چکا ہے ،ابھی کچھ لوگ ڈاکٹر صاحب کے مؤقف کے حامی نظر آئے ہیں،آئندہ یہ تعداد غیر یقینی حد تک بڑھ سکتی ہے ۔ آپ لوگ داریل کے دو پہاڑوں سے باہر نکل کر سوچیں، اپنے کردار اور رویوں پر نظرِ ثانی فرمائیں ، ہر چیز پر ناجائز اور کفر کے فتاویٰ تھونپنے کے بجائے معتدل ،حق اور اصوب راستے کو تلاش کریں ۔نسل نو کو اپنے سے متنفر کرنے کے بجائے اپنے آغوش میں لے کر مناسب تربیت فرمائیں، اور اپنی باہمی چپقلش ، سیاسی عناد ۔مفروضوں پر مبنی عامیانہ گفتگو کرنے کے بجائے حقائق اور دلائل پر مبنی باتیں لوگوں سے کریں ۔اور معاشرے کی حقیقی ضروریات سمجھ کر ان کو حل کرنے میں اپنی استعداد خرچ کریں۔

3۔عوامی تحریک اور داریل کے دیگر نوجوانان بالخصوص پڑھے لکھے باشعور لڑکوں سے گزارش ہے کہ آپ بھی ان پرانی باتوں اور پرانی قیادتوں کو لینے کے بجائے اپنے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا انداز بدلیں ۔اپنی بقاء کے لیے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آپ نئے انداز میں ان تعصب،قومیت پرستی کے بتوں کو توڑ کر اپنے دین اور علاقائی جائز روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے ٹارگٹس بنا کر ابتداء سے ایک منظم جدوجہد کا آغاز کریں ۔یہ بڑے پکے اور مستحکم بت ہیں جو آسانی سے ٹوٹنے والے نہیں ہیں ۔

اس لیے آئیے! سبھی لوگ اپنی اپنی ذمہ داری اور حیثیت کے مطابق معاشرے کے مسائل کو سمجھیں ، ان کو حل کرنے کے لیے باہمی اتحاد و اتفاق اور رواداری کو فروغ دے کر مثبت سوچ کو رواج دیں اور اسلام کو رواجی بنانے کے بجائے حقیقی معنوں پر عمل کی کوشش کریں اور دعوتی اصول کو مدنظر رکھتے ہوۓ ایک دوسرے کو امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہیں۔ ورنہ اگر ہماری حالت یہی رہی اور ہم نے اپنی سوچ اور انداز کو نہ بدلا تو بقول حاجی مشرف علیہ ما علیہ

” داریل کا اللہ حافظ ہے”

اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button