کالمز

ضلع کھرمنگ کے عوامی نمائندوں اور ڈپٹی کمشنر کے نام کھلا خط

ضلع کھرمنگ گلگت بلتستان کا دور افتادہ اور خوبصورت ضلع ہونے کے ساتھ لائن آف کنٹرول سے ملحق ہونے کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے  خاص اہمیت  رکھتے ہیں۔       اس ضلع میں جہاں زراعت ،سیاحت کےوسیع مواقع موجود ہیں ،وہیں یہاں کے نالہ جات  اپنی خوبصورتی کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ضلع کی قیام کے کئی سال گزرنے کے باوجود  یہاں زرعی ترقی، صحت ، تعلیم ، بلدیاتی نظام، آبپاشی کا نظام،لنک روڈ اورسیویج کی نکاسی کا  مسلہ جوں کے توں ہے۔ دیگر اضلاع کی طرح اس ضلع کے عوام بھی گندم کو حقوق سمجھ کر خوش ہیں اور اب چونکہ گندم سبسڈی میں کمی اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو عوام نے اپنی قدیم زرعی زمینوں کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے جو کہ مکمل طور پر بنجر ہوچکی ہے اور حکومتی تعاون کے بغیر بحالی ممکن نہیں۔ دوسری طرف عوامی نمائندوں کی بات کریں تو اُن کی پوری کارکردگی اپنے حواریوں کیلئے گریڈ ون کی نوکریاں دلانا نظر آتا ہے۔حالانکہ اگر نمائندے پانچ سالہ بجٹ کا صرف تیس فیصد حصہ بھی حلقے میں خرچ کریں تو عام آدمی کی زندگی میں بہتری آنے کے ساتھ علاقے میں معاشی انقلاب آسکتا ہے لیکن بدقسمتی آج تک ایسا ہو نہیں سکا جو کہ ایک المیہ ہے۔ ضلع کے عوامی نمائندے جنہیں عوام نے تبدیلی کیلئے ووٹ دی تھی اور دونوں اہم وزارت پر بھی فائز ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ان دونوں صاحبان کے پاس اقراء پروری سے ہٹ کر عوامی مسائل کیلئے وقت نہیں۔  وزیر تعمیرات وزیر محمد سلیم کا عوام سے وعدہ تھا کہ وہ میرٹ پر فیصلے اور فنڈز کی تقسیم کریں کے لیکن ایسا نہیں ہوا جس کی مثال غاسنگ نالہ روڈ کا توسیعی منصوبہ کھٹائی میں پڑنا اور پبلک اسکول اور کالج ، قدیم کوہل کی تعمیر کے نام پر عوام کو آپس میں لڑانے کی کوشش دیگر وعدوں سے انحراف ہے۔

معاشی حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے غاسنگ نالہ روڈ  توسیع کیلئے ایک کروڑ بیس لاکھ کا قلیل فنڈ تو مختص تو کردیا لیکن آج تک کام شروع نہیں ہوسکے اور اب  اُن کی اقتدار بھی آخری ہچکیاں لے رہا ہے ساتھ ہی اُن کی سیاست کا سورج بھی غروب ہوجائے گا۔اس روڈ کی تعمیر سے  غاسنگ میں معاشی انقلاب کی شروعات ہونا تھا کیونکہ غاسنگ نالہ نہ صرف زرعی حوالے سے وسیع عریض ہیں بلکہ اس نالے کو خوبانیوں کا شہر بھی کہتے ہیں اور اس نالے میں سیاحت کے بھی کثیر مواقع موجود ہونے کے ساتھ جنگلات سے بھی مالا مال ہیں۔نالے کا تقریبا ساڑھے تین کلومیٹر روڈ پہلے سے بنی ہوئی ہے جس کی تھوڑی بہت مرمت کی ضرورت ہے۔ سڑک کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگوں نے زرعی اراضیوں کو کاشت کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے سبب وسیع عریض غاسنگ نالہ کی زرعی ارضیاں بنجربن چُکی ہے، دریائے سندھ کے عقب میں واقع کئی ہزار کنال  پر مشتمل( پولی کنال) صرف پانی کی نہ ہونے کی وجہ سےسرکردگان علاقہ ،ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کے بے حسی کا ماتم کر رہا ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ دینے والا نہیں۔اگرچہ کھرمنگ ضلعی انتظامیہ کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ماتحت تمام ادارے پورے ضلع میں اس قسم کے مسائل کی نشاندہی کریں لیکن ڈپٹی کمشنر کھرمنگ فیس بُک کی دنیا سے نکلنے تیار نہیں۔ لہذا ضررورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے اہم مسائل جو سوشل میڈیا کے زریعے ہائی لائٹ ہورہی ہے،حل کیلئے عملی اقدام اُٹھائیں۔

اسی طرح  غاسنگ اخونپہ گاوں دریا کی کٹائی کے باعث یہ گاوں ختم ہونے کے قریب ہے اور یہاں عرصہ دراز تک بغیر کسی منصوبہ بندی کے پیسے دریا برد کرتے رہے جس سے ناشاد کے منظور نظر ٹھیکدار کے دن بدل گئے ۔لیکن گاوں کے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری ٹھوس اقدام نہیں اُٹھایا گیااور پہلی بار دریا کے اُس طرف کھدائی کرکے دریاسندھ کا رُخ موڑنے کی کوشش کی لیکن کہ اچھا اقدام ہے۔ لیکن مکمل حل نہیں اس حوالے سے مزید کام کرنا باقی ہے۔سیاحتی گاوں منٹھوکھا کی بات کریں یہاں بھی حالات کچھ مختلف نہیں منٹھو نالے کا طغیانی پانی ہر سال علاقے کے عوام کیلئے قہر بن کر آتا ہے لوگوں کے سال بھر کی محنت ایک ہی دن میں ندی پر مناسب واٹر شیڈ نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے بہاو کا شکار ہوجاتے ہیں، گزشتہ دہائیوں سے اس ندی کے نام پر کچھ لوگ نجی فلاحی اداروں اورحکومت سے نمائندے کی ملی بھگت سے لاکھوں کا فنڈز ہڑپ کرچُکے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔حالانکہ بہت ہی کم بجٹ کے ساتھ اس ندی کے بہاو کو ایک ڈائرکیشن دیکر ندی کے اطراف کو مقامی کاشت کاروں کیلئے قابل استعمال بناکر عوامی معیشت اور سیاحت کے   مواقع کو چار چاند لگایا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے آج تک ایسا ممکن نہیں ہوسکاجو کہ نام نہاد سرکردگان اور نمائندے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔اسی طرح ندی سے متصل   منٹھوکھا    ا       ٓبشار جو کہ اس وقت سیاحتی حوالے سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں منفرد مقام رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس ندے کے اطراف ہوٹلوں کی تعمیر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کہ سنگین ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننےکا ساتھ سیاحوں کی آمد میں مسلسل اضا فہ ہونے کے ساتھ مناسب سوریج کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ندی کا صاف شفاف پانی  ناقابل استعمال اور مضر صحت بنتی جارہی ہے جو کہ آنے والے وقتوں میں خطرناک وبائی بیماری کی صورت میں پورے علاقے میں پھوٹ سکتا ہے۔اس سنگین اس صورت حال پر محکمہ صحت ،ماحولیات اور سیاحت کے ذمہ داران کی لاعلمی یا اس حوالے سے آنکھ بند رکھنے کی وجہ سے خدشہ کیا جارہا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں نالے کا قدرتی طور پر صاف شفاف پانی گٹر نالے کی شکل اختیارکرلے گا۔ جسکا ذمہ دار یقینا ہوٹل مالکان کے ساتھ عوامی نمائندے اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ خاموش صاحب منبر ان اور عوام ہوگا۔لہذاتیزی سے بدلتی ہوئی موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی تقاضا کرتی ہے کہ پورے ضلع میں ندیوں کے اطراف ہوٹلوں کی تعمیرات پر مکمل پابندی لگایا جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں ممکنہ  سیلاب  کی صورت میں تباہی سے بچ سکے۔  اسی طرح مصدقہ معلومات کے مطابق کے یہاں منشیات کا استعمال اور فحاشیت بھی عام ہوچکی ہے لیکن متعلقہ تھانہ اس حوالے سے بے خبر نظرآتا ہے ۔تعلیم اور صحت کے حوالے سے اگر بات کریں تو اس حوالے سے کام کرنے والے افراد کے مطابق ضلع کے تمام سرکاری اسکولوں کی کارکردگی اور سہولیات بھی قابل رشک ہے۔ حکومت کی اولین ترحیج ہونی کی چاہئے کہ ضلع کے تمام بوائز اینڈ گرلز ہائی سکولز کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں جدید طبی سہولیات  اور ایمبولینس کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔ ضلع کھرمنگ میں متاثرین کرگل جنگ کی آبادی کاری بھی ایک سنگین مسلہ ہے جو سال (اُنیس سو ننانوے)  سے لیکر آج تک اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہوکر سکردو،پنڈی اور دیگر شہروں میں مہاجر کی حیثیت سے کسمپری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گلگت بلتستان کے کسی بھی لائن آف کنٹرول پر آج تک حالات خراب نہیں رہے۔ایسے    میں یہاں کے عوام کو آبائی علاقوں کی میں واپسی سے روکنا اور واپسی کیلئے حکومت سطح پر انتظام نہ کرنا اور حوالے کوشش نہ کرنا عوامی نمائندوں، ضلع کھرمنگ انتظامیہ کی سب سے بڑی ناکامی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ چند سال قبل سابق فورس کمانڈر گلگت بلتستان جنرل احسان محمود نے دورہ کھرمنگ کے موقع پر عوام کو خوشی کی نوید سُنانے کا وعدہ کیا تھا جو کہ مسلسل عوامی مطالبات کی روشنی میں سکردو کرگل روڈ کی بحالی اور متاثرین کرگل جنگ کی واپسی تھا جس پر عملدرآمد کیلئے کوشش کرنا ارباب اختیارکو مسلسل یاد لاناعوامی نمائندوں   اور  ڈپٹی کمشنر کھرمنگ کی ذمہ داری ہے۔  یاد رہے مارچ  سال دو ہزار ایکس میں   رکن  گلگت  بلتستان اسمبلی شیخ اکبر رجائی کی جانب سے سکردو کرگل روڈ راہداری تجارت،سیاحت اور منقسم خاندانوں کی سہولت کیلئے کھولنے کا قرارداد اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور بھی ہوچکی ہے۔ اُمید کرتے ہیں عوامی نمائندے اور ضلعی انتظامیہ اس قسم کے عوامی مسائل کی حل کیلئے عمل کوشش کرے گا۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button