کالمز

گلگت ۔ بلتستان اسمبلی میں ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی مخصوص سیٹیں اور اہلیت و قابلیت کا معیار

 گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 33 نشستیں ہیں جن میں سے 24 پر براہ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 6 نشستیں خواتین اور3 نشستیں ٹیکنوکریٹ کے لیے مخصوص ہیں۔
      ٹیکنوکریٹس کے لئے سیٹوں کو مختص کرنے کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ اسمبلی میں ایسے افراد بھی پہنچ جائیں جو مختلف شعبوں میں حد درجہ مہارت اور وسیع تجربہ رکھتے ہوں، جیسے ماہرین تعلیم و تعلم، ماہرین آئین و قانون، ماہرین معاشیات و اقتصادیات، ماہرین طب و انجینئرنگ اور دینی و سماجی علوم کے ماہرین وغیرہ۔ در اصل یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کا ووٹ بینک نہیں ہوتا اور نہ وہ پیشہ ور سیاست دان ہوتے ہیں اور نہ وہ کسی سیاسی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں کہ وہ عام انتخابات جیت کر اسمبلی پہنچ سکیں اور قانون سازی میں حصہ لے سکیں۔ تاہم، ریاست اور اسمبلی کے لئے ان کی مہارتوں کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے۔اس لئے ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے لئے جمہوری حکومتیں ان کے لئے اسمبلیوں میں چند سیٹیں مختص کرتی ہیں جن کا چناو اسمبلی کے منتخب ممبران کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اسمبلی ممبران بہت سنجیدگی اور ذمے داری کے ساتھ مختلف شعبوں کے چوٹی کے ماہر افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ان ٹیکنوکریٹس کو مختلف محکموں میں وزارتوں اور مشاورتوں کے مناصب پر فائز کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی مہارتوں اور تجربوں کو بروئے کار لا سکیں۔ اس طرح حکومت اور ریاست کا کام بہت خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے اور ترقی و عروج ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
       یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست و مملکت ہونے کے ناطے پاکستان کے انتظام و انصرام کے لئے دیگر انتظامی و دفاعی، آئینی و قانونی، معاشی و اقتصادی اور سماجی و سائنسی شعبوں اور محکموں کے ساتھ ساتھ دینی و تہذیبی امور کی انجام دہی کے لیے دینی و تہذیبی علوم کے ماہرین کی خدمات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اس بات کا تذکرہ بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے بھی پہلے جب علماء کے دینی اختیار کا مسئلہ پیدا ہوا تو علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (1877ء – 1938ء) نے اپنی عالمانہ اور مجتہدانہ رائے دیتے ہوئے اسلام میں دین کی تشریح و تعبیر کا اختیار علمائے کرام سے اٹھا کر پارلیمنٹ کو سونپنے کا مشورہ دیا۔ علامہ موصوف کے نزدیک اس اختیار کے پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کا مقصد کسی طور علماء کو نقصان پہنچانا نہ تھا بلکہ ان کے پیش نظر  یہ تصور تھا کہ پارلیمنٹ ایک خود مختارقانون ساز ادارہ ہے جس میں آئندہ ایسے افراد، جنرل الیکشن میں یا ٹیکنوکریٹ سیٹوں پر ، بھی منتخب ہوکر آئیں گے جنہیں جدید و قدیم علوم پر کامل دستگاہ حاصل ہوگا اور وہ جمہوری اور آئینی طریقے سے دینی، سماجی، معاشی اور ثقافتی معاملات میں قوم کی توقعات کے عین مطابق صحتمند طریقے سے قانون سازی کرسکیں گے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی بلکہ یہاں آئین بنتے بنتے عشرے لگ گئے۔
       بات ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی سیٹوں کے متعلق ہو رہی تھی تو ہمارے ملک پاکستان کی سینیٹ،  قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں، خاص طور پر، گلگت ۔ بلتستان اسمبلی اور کونسل دونوں میں ٹیکنوکریٹس کے انتخاب میں میریٹ کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ اکثر حکومتیں اور پارٹیاں اپنے من پسند افراد کا انتخاب کرتی ہیں۔ شنید ہے کہ اس میں پیسے کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انتخاب کے یہ ممکنہ اوچھے ہتھکنڈے نہ صرف حکومت و ریاست کے کاموں اور خاص طور پر دینی، سماجی، معاشی اور ثقافتی معاملات میں قانون سازی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ وہ بدعنوانیوں اور ریشہ دوانیوں کے چور دروازے بھی کھول دیتے ہیں۔
       اسی طرح خواتین کی مخصوص سیٹوں پر  بھی پسند و ناپسند کی بنیادوں پر  انتخاب عمل میں آتا ہے۔ جبکہ اصولی طور پر خواتین کی ان مخصوص سیٹوں پر ایسی خواتین کا انتخاب ہونا چاہئے جو اعلٰی تعلیم یافتہ ہوں، خواتین کے مسائل کا درست ادراک کرتی ہوں، انہیں جائز حقوق دلانے اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرنے کا عزم صمیم رکھتی ہوں۔
     اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی سیٹوں پر اہلیت و قابلیت، خاص طور پر تعلیمی قابلیت، مہارت و حذاقت اور امانت و دیانت کے حامل افراد کا انتخاب عمل میں لایا جائے تاکہ ریاست اور جمہوری حکومتوں کا کام صحتمند طریقے سے انجام پا سکے۔ نیز حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے اور بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق سیاست و حکومت کے امور بھی انجام پذیر ہو سکیں۔ 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button