کالمز

بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت: مسئلہ  کشمیر    اور گلگت بلتستان کا مقدمہ

گزشتہ روز وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ہندوستان کے شہر گوا میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی۔  اُن کے کشمیر پر جارحانہ مسلسل بیانات سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کشمیر کا مقدمہ لیکر ہندوستان گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے وزیر خارجہ جے شنکر نے جس انداز میں سفارتی آداب کو خیال رکھے بغیر پاکستان کو دہشتگردی کی صنعت قرار  دیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کشمیر میں جی ٹونٹی اجلاس کے انعقاد پر خدشات کا اظہار کرنے پر ہندوستان کے وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا قانونی حصہ ہے اور کسی کو اس حوالے سے بیان بازی کی ضرورت نہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہوگیا کہ ہندوستان میں اس وقت سخت گیر ہندو انتہاء پسندوں کی حکومت ہے جنہیں سفارتی آداب سے کوئی لینا دینا نہیں۔

اس مختصر دورے میں اُنہوں نے بھارتی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں بھی  واضح طور پر کہا کہ جب تک بھارت کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کئے گئے اقدامات کا از سر نو جائزہ نہیں لیتا،  پاکستان دو  طرفہ طور پر بات چیت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

دورے سے واپسی پر کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا اصولی موقف، زوردار  طریقے سے، بھارت کی سرزمین پر، بھارتی میڈیا کے سامنے پیش کیا اور  مسئلہ کشمیر کی وکالت کی۔ اَن کے مختلف بیانات میں بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے مسلہ کشمیر میں ایک نئی جان پھونک دی ہے۔ ہندوستان کی بوکھلاہٹ میں شدید اضافہ ہوگیاہے اور عالمی میڈیا پر بھی مسلہ کشمیر کا خوب چرچہ ہورہا ہے۔

لیکن بدقسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ حال ہی میں سینئر صحافی حامد میر اور نسیم زہرہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ آگاہ تھے اور وہ مودی کو باقاعدہ پاکستان دعوت بھی دینا چاہتے تھے جس سے فارن آفس اور اَس وقت کے وزیر اعظم عمران خان آگاہ نہیں تھے۔ اُن کے مطابق جب وزیر خارجہ شاہ محمو  د قریشی کو اطلاع ملی تو انہوں نے عمران خان کو آگاہ کیا اور انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور یہی سے چپقلش شروع ہوگیا جس کے باعث پاکستان آج  بدترین سیاسی معاشی حالات سے دوچار ہوگیا ہے۔

قارئین کیلئے  اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آخر مسلہ کشمیر کیا ہے  اور کشمیر کے حدود اربعہ کہاں سے کہاں تک ہیں؟

ریاست جموں کشمیر(گلگت بلتستان،لداخ،آذاد کشمیر،لداخ، سری نگر، جموں)اس وقت چار حصوں میں تقسیم ہے جو 3 ممالک پاکستان، بھارت اور چین کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان کے پاس 28   ہزار مربع میل گلگت بلتستان اور تقریباً ساڑھے 4   ہزار مربع میل آزاد کشمیر، بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور کرگل لداخ جبکہ چین کے پاس 10   ہزار مربع میل اقصائے چن کا علاقہ ہے۔ البتہ چین کے زیر کنٹرول علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے لیکن تجارتی حوالے سے اہم حیثیت رکھتے ہیں اور یہ علاقہ چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سینگ کیانگ کا حصہ ہے۔ اسی طرح چین نے کچھ علاقہ 1963 کی جنگ میں بھارت سے چھینا جبکہ 1900مربع میل علاقہ پاکستان سے16مارچ1963 میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طور پر حاصل کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی چین مسلہ کشمیر کا ایک فریق ہونے کے باوجود  زیر بحث نہیں آتے۔تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان1947 سے 1948 تک، 1965 اور کارگل جنگ بھی ہو چکی ہیں۔  اگرچہ 1971 کی جنگ میں  ہندوستان نے بلتستان کے کئی گاوں پر قبضہ کرلیا اور آج تک مہاجرین کرگل لداخ پاکستان کے مختلف شہروں اور بلتستان میں مقیم ہیں اُنہیں اپنے عزیزوں سے ملنے کی اجازت نہیں ملی۔

مسلہ کشمیر کیا ہے؟

قیام پاکستان کے بعد برصغیر کے دیگر ریاستوں کی طرح مہاراجہ کشمیر نے بھی یہ  فیصلہ کرنا باقی تھا کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہوگا یا انڈیا میں۔ مسلمان اکثریتی ملک ہونے کیوجہ  سےعوامی جھکاو پاکستان کی طرف تھے  اور مہاراجہ کی خواہش تھی کہ ریاست کا  وجود  باقی رہے اور پاکستان کے ساتھ ڈائلاگ کے زریعے ایک مضبوط رشتہ قائم کرے گا۔ اگرچہ اس حوالے سے چہ میگوئیاں ذیادہ ہے لیکن مہاراجہ کشمیر کا بیٹا ڈاکٹر کرن سنگھ جو بھارتی لوک سبھا کے رکن بھی رہے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اُن کے والد نے یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ پاکستان کے قبائیلوں نے 24 اکتوبر 1947ء کشمیر  کے ایک حصےپر حملہ کردیا۔ یوں 26 اکتوبر 1947 کو اُن کے والد مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر نے ہندوستان  سے فوجی امداد طلب کی لیکن پنڈت جواہر لال نہرو نے الحاق کی شرح رکھی ۔ یوں 27 اکتوبر 1947 کو  مہاراجہ نے انڈیا کے ساتھ عبوری طور پر الحاق کی  اور بھارتی افواج آج تک کشمیر پر قابض ہیں۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کی بات کریں اُس وقت شمالی صوبہ گلگت بلتستان ہوا کرتے تھے جہاں برگیڈر گھنسارا سنگھ گورنر کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔جنگ آذادی  گلگت بلتستان کے ہیرو کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب شمشیر سے زنجیر تک میں لکھتے ہیں کہ1946 کے اوائل میں چند فوجی افسرحالات کا رُخ دیکھتے ہی یہ بھانپ گئے تھے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی غفلت اور سوشلسٹوں کی غداری بالآخررنگ لاکر رہے گی۔ اس کے  تدارک اور حالات کو لگام دینے کیلئے اُنہوں نے خفیہ سر جوڑ لیا جس کی فوج میں سخت ممانعت تھی۔وہ لکھتے ہیں جموں اور کشمیر میں اُس وقت ڈوگرہ فوج کا گڑھ تھا،شروع میں راقم  نے کئی مسلمان فوجی افسران کو اعتماد میں لیا او ر  اس تمام معاملے میں سینئروں سے اپنے آپکو دور رکھا۔ وہ  مزید لکھتے ہیں کہ بڑے غور خوض کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ فوجی بغاوت کے زریعے مہاراجہ کا تختہ اُلٹا دیا جائے گا۔اور ارادہ تھا کہ جب تاج برطانیہ کی ذمہ داریاں تقسیم ملک کے بعد ختم ہوگی تو کشمیر کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر فورا پاکستان ساتھ الحاق کا اعلان کریں گے۔ پس حالات ایسا پیدا ہوگیا اورگلگت  لداخ کا گورنر گرفتار ہوگیا اور گلگت سے لیکر لداخ تک کے علاقے سے بھی مہاراجہ کی حکومت ختم ہوگئی۔ دوسری طرف گلگت بلتستان آذاد ریاست کا باقاعدہ اعلان ہوگیا جو 16 دونوں تک قائم رہے لیکن سیاسی شعور کی کمی اور سازشوں کا شکار ہوگیا اور ایک پشتون تحصلیدار جنہیں رابطہ افیسر کے طور پر مدعو کی تھی خطے کا پولٹیکل ایجنٹ بن گیا اور اُنہوں نے پاکستان کے قوانین نافذ کرنے کے بجائے ایف سی آر نافذ کردیا۔ یوں ریاست جموں کئی ٹکروں میں تقسیم ہوگیا  اور ہندستان کے پاس چونکہ مہاراجہ کا الحا ق نامہ تھا اس وجہ سے یکم جنوری 1948 کوہندوستان  مسلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا جس پر 17 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کی اور 20 جنوری کو پاکستان بھارت کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات کی روشنی میں 5 اگست 1948 اور یکم جنوری 1949 کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی پوری ریاست جموں و کشمیر متنازع ہے، اس میں وہ تمام حصے شامل ہیں جو پاکستان، بھارت اور چین کے پاس ہیں۔ اقوام متحدہ نے 17 اپریل 1948، 13 اگست 1948، 5 جنوری 1949 اور 23 دسمبر1952 کو کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی قراردادیں پاس کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائیگا ۔آج آزاد کشمیر کے پاس جو بھی ریاستی نظام ہے وہ قوام متحدہ کے قرارداد 13 اگست 1948 کی بنیاد پر ہے اور ہندوسان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی مہاراجہ کے الحاق کی بنیاد پر ریاستی حکومت کو قانونی تسلیم کیا گیا لیکن گلگت بلتستان میں لوکل اتھارٹی  حکومت قائم کرنے کے بجائےریاست پاکستان کے درمیان 28 اپریل 1949 کو ایک معاہدہ کراچی طے پایاجس کے تحت گلگت لداخ (آج کا  بلتستان) کو ریاست کی ایک اکائی کے طور پر رائے شماری تک کیلئے تمام انتظامات وفاق پاکستان کو تفویض کردی گئی  ۔

گلگت  بلتستان کا مقدمہ کیا ہے؟

تین ایٹمی ممالک کے سنگم پرواقع ہونے ،قدرتی وسائل اور حسن ، آبی ذخائر مالا مال اور سی پیک کی مرکزی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے یہ خطہ عالمی طاقتوں کا مرکز نگاہ اور مسئلہ کشمیر کی اہم کنجی ہے۔لیکن اس خطےمیں آج تک بیوروکریسی ہی کی حاکمیت ہےاور بیوروکریسی ہی پورے  نظام پر حاوی ہے ۔لوکل اسمبلی کی تاریخ ہے کہ یہاں سے مسئلہ کشمیر اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی  قراردادوں اور ریاستی موقف  آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 اور آرٹیکل 1  کے تناظر میں گلگت بلتستان کیلئے حقوق مانگنے کے بجائے ذاتی خواہشات کی بنیاد پر آج تک قرارداد پاس کرتے رہے ہیں جسکا نتیجہ آج تک صفر ہے۔ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچُکی ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا عوامی خواہشات کے باوجو د  اس قدر آسان نہیں، جس طرح سے مقامی سطح  پر سمجھا یاجاتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے کئی اہم فیصلے موجود ہیں جس  میں خطے میں ٹیکس کے  نفاذ کے خلاف 1994ء میں ایک آئینی درخواست جو الجہاد ٹرسٹ فیصلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس آئینی پٹیشن پہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ نے سال 1999ء اور 2019 میں لاجر بنچ نے گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیکر خطے کے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے اوپر خود حکومت کرنے کا اختیار دینے اور یہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کے  تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے آئینی گارنٹی کے ساتھ ایک آزاد خودمختار عدلیہ قائم کرنے  کی حکم دی ہوئی ہے۔لیکن آج گلگت بلتستان میں جہاں سیاسی آذادی نہیں وہیں سلامی کونسل کے  قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے زمینوں پر قبضے عروج پر ہے جو کہ قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی ہے اور یہ قانون آذاد کشمیر میں آج بھی نافذ ہیں 5 اگست 2019 تک ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی لاگو تھے۔  متنازعہ حیثیت کے باوجود  گلگت بلتستان میں آج بھی کئی درجن سیاسی کارکن فورتھ شیڈول میں شامل ہیں جنکا  جرم کسی قسم کی دہشت گردی نہیں بلکہ سیاسی جدوجد ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے کسی بھی لائن آف کنٹرول پر آج تک حالات خراب نہیں رہے۔ لیکن گلگت بلتستان کے کشمیر اور لداخ سے ملانے والی قدیم تجارتی راہداریاں کھولنے کیلئے مسلسل عوامی مطالبات کے باوجود کوئی سُننے والا نہیں۔ سکردو کرگل روڈ، استور گریز روڈ، خپلو تورتک روڈ کی بحالی سیاست اور تجارت کی فروغ کے ساتھ منقسم خاندانوں کی سہولت کیلئے کرتارپور کوریڈر کی طرز پر کھلنا چاہئے۔گلگت بلتستان کے عوام کا بنیادی مطالبہ ہی یہی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی موقف ،آئین کے آرٹیکل 257 ،سلامتی کونسل کے متفقہ قراردادوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معتدد فیصلوں کی  پاسداری کرتے ہوئے28  مربع میل اور30 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس خطے میں معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کوبحال کریں ،نام نہاد معاہدہ کراچی کو ختم کریں سلامتی کونسل کی قرارداد 13 اگست 1948 پر عمل درآمد کرکےآئین ساز اسمبلی کے  قیام کو عمل میں لاکر مسئلہ کشمیر کے  حل تک کیلئے اس خطے کے ساتھ عمرانی معاہدہ کریں تاکہ اس خطے کے وسائل،معدنیات ،  ڈرائی پورٹ کی آمدنی ،دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی اور سی پیک اور گلگت بلتستان کو برابری کے حقوق مل سکیں اور خطے میں بیورو کریسی راج کے بجائے عوامی نمائندوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ملنے کے ساتھ انسانی  حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں  کا تدارک، قوانین کا غیر قانونی استعمال اور عوامی زمینوں چراگاہوں کی بندر بانٹ اور غیر مقامی لوگوں کو ڈومیسائل جاری کرنے اورخطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی ڈیموگرافی رُک سکے۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button