"اسپاؤ گورو” گانے کے سماجی پہلو
شینا اور پشتو زبان میں حال ہی میں ریلیز ہونے والے اسپاؤ گورو نامی گانے پر مختلف حلقوں میں کھل کر بحث جاری ہے. طنز و مزاح اپنی جگہ، مگر خوشی کی بات یہ ہے اس پر سنجیدہ بحث مباحثہ بھی ہو رہی ہے. تخلیق ادب میں تنقید کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے. کہتے ہیں تنقید کا مرتبہ تخلیق سے افضل ہے کیونکہ تنقید پہلے ہے تخلیق بعد میں۔ تنقیدی شعور کے بغیر بلکہ تنقیدی تجربے سے گزرے بغیر تخلیق ممکن نہیں۔ اس حساب سے نظم ہو یا نثر یا پھر "اسپاؤ گورو” ہو یا حکیم جاوید اقبال کی کتاب "شینا سوینو مشٹی موری” سب پر سنجیدہ تنقید بہت ضروری ہے.
آپ کو شاید یاد ہو جسٹس رانا بھگوان داس نے گلوکار ابرار الحق کو ان کے ایک متنازعہ گانے پر عدالت طلب کیا تھا۔ متنازعہ گانے میں وہ ایک فرضی کردار پروین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’نی پروین! بڑی نمکین اے، اتّوں توں مسکین پر وچوں بڑی شوقین اے۔ اس گانے کے ریلیز ہونے کے بعد مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم پروین نام کی طالبات طنز و مزاح اور فقرہ بازی کے زیر عتاب رہی. بہت ساری شدید ذہنی اذیت سے گزری اور کئی طالبات نے تعلیم کو ہی خیر باد کہنے میں اپنی عافیت سمجھی.
اسپاؤ گورو گانے کے قافیہ، ردیف، انداز سمیت سلمان پارس اور پشتو گلوکارہ کے ڈانس پر بھی بات ہو چکی ہے. لہذا اس گانے کے کچھ سماجی پہلوؤں پر بھی غور لازمی ہے. گورو لفظ مذکر ہے اور کسی کے ظاہری جسمانی صورت کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے. اس گانے کے ریلیز ہونے کے بعد سوشل میڈیا میں ہی دیکھ لیں جسمانی لک میں گورو جیسے نظر آنے والے لوگوں کو ہر جگہ ٹیگ کر کے یا ان کی تصویروں کے ساتھ لفظ گورو کے ساتھ مختلف سابقے اور لاحقے جوڑ کر خوب شیر کئے گئے.
کیا آپ کو اندازہ ہے اس گانے کے بعد گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں گورو رنگت والے طلبہ و طالبات کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے گا. بولینگ (Bullying) بچوں کی ذہنی و تعلیمی ترقی کے لئے زہر قاتل ہے. گورو لفظ دو دھاری تلوار کا کردار ادا کرے گا. اس سے بولینگ (Bullying)میں بڑی حد تک اضافہ ہوگا اور بہت سارے بچے احساس کمتری کا شکار ہو سکتے ہیں. اور اس کا اثر ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر بھی ہو سکتا ہے. کسی بھی انسان کے جسمانی بناوٹ کو موضوع بحث بنانا میرے سامنے ایک غیر اخلاقی فعل ہے. شاعری کا بنیادی مقصد لوگوں کی اخلاقی، سماجی و تہذیبی تربیت ہونا چائے.
گلگت بلتستان میں آپ نے مموشو، بسکوٹ، انیلو، ہگار، کور جیسے الفاظ ضرور سنے ہوں گے یا پھر ضرور استعمال کئے ہوں گے. یہ گلگت بلتستان کے اس "خوبصورت” کلچر کا ایک اہم حصہ ہے جسے "بی کے کلچر” کا نام دیا گیا ہے. گلگت بلتستان کا ہر پہلا اگر نہیں تو دوسرا بچہ اس کلچر کا ضرور شکار رہا ہے. اسی کلچر کی ترویج کی وجہ سے ہی آئے روز معصوم بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے دلخراش واقعات سامنے آتے ہیں. ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان سے اسی فیصد ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے یا ان کو دبا دیا جاتا ہے. خیبر پختونخواہ کی طرح گلگت بلتستان میں بھی یہ واقعات لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کے ساتھ زیادہ پیش آتے ہیں. اسپاؤ گورو گانے میں بھی امرد پرستی کا تڑکا لگا دیا گیا ہے. اب ظفر صاحب کا خیال ایسا ہر گز نہ ہو لیکن اس سے اس کلچر سے وابسطہ لوگوں کے لئے ضرور آسانی پیدا کی گئی ہے.
شاعری میں امرد پرستی کی تاریخ بہت قدیم ہے. ابونواس کی شاعری ہو یا عباسی عہد کے شعرا، فارسی کے پہلے شاعر رودکی سے لے کر ہندوستانی شاعر امیر خسرو تک، مولانا روم اور ابومنصور سے لے کر فرید الدین عطار تک، صحفی، میر تقی میر، میرسودا، مومن، صہبائی، شیفتہ، میر سوز، اور رند وغیرہ کے کلام میں اکثر اپنے محبوب کو مذکر ہی باندھا گیا. مغرب اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی خود کفیل ہے. وہاں تو اب اب امرد پرستی سے متعلقہ قوانین بھی باقاعدہ نافذ کئے گئے ہیں.
ظفر وقار تاج صاحب کی میں دل سے قدر کرتا ہوں ان کی شینا زبان، موسیقی اور شاعری کی ترویج کے لئے خدمات شاندار اور ادب کے کئی اصناف پر عبور حاصل ہے. اور ان کی ایک اچھی بات بھی یہ ہے کہ وہ سنجیدہ تنقید کی قدر کرتے ہیں اور تخلیق اور تنقید کے تعلق کو بھی خوب جانتے ہیں. اس بنا پر امید کی جاتی ہے کہ اس ناقص رائے کو بھی مثبت پیرائے میں ہی لیں گے.