کالمز

اِسپاٶ گُورو وا مئ شَکر گُورو!

درج بالا فقرے کے رپِیٹر پر مشتمل شینا زبان کے ایک گانے کی آج کل وطن میں دھوم ہے۔ گانے کے بعض بند پشتو میں بھی ہیں لیکن شینا والے بول موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ ظفر وقار تاج صاحب اور سلمان پارس کے بے شمار گانے آتے ہیں ہٹ ہوجاتے ہیں، اتنے تبصرے نہیں پاتے۔ دراصل، شینا شاعری میں محبوب کو عموماً مونث کے صیغے میں مخاطب کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس گانے میں مذکر کے صیغے کے ایک شینا لفظ گُورو کو براہِ راست ایڈریس کیا گیا ہے سو آج تیسرا دن ہے ہمارے مذکر دانشور اس گانے کو  لے کر گتھم گتھا ہیں۔ کوئی اس سے تحقیر برآمد کر رہا، کوئی امرد پرستی تو کوئی کچھ۔

سو ایسی بات ہے تو بات کر کے دیکھتے ہیں!

پہلی بات یہ ہے کہ علمی اختلاف کا بہترین حل علم کے بنیادی ماخذ میں ڈھونڈا جاتا ہے۔ لفظ کا ماخذ زبان ہے اور زبان کا ماخذ اہل زبان۔  اگر اہل زبان میں کسی لفظ کے استعمال پر اختلاف ہوجائے تو اُس بنیادی لہجے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جس لہجے سے یہ لفظ آیا ہے۔ کہ اُس لہجے میں کن معنوں میں یہ لفظ اپنے روزمرہ اور محاورہ میں بولا برتا جاتا ہے۔ 

شینا لفظ گُورو کا لغوی مطلب بُھورا یعنی براٶن ہے۔ محاورتاً (کم از کم ہمارے مادری لہجے، گلگت کے مغربی مضافات کے لہجے میں) گُورو پیارے کے معنوں میں  بولا جاتا ہے یا ماضی قریب تک بولا جاتا رہا ہے اور یہ لفظ بچوں کو مخاطب کرنے کیلیے بولا جاتا۔ چونکہ گانے کے شاعر کا آبائی تعلق بھی اسی علاقے سے ہے سو اسی لہجے میں اس لفظ کا جو مطلب لیا جاتا ہے اس کیس میں وہی مطلب معتبر اور مستند ہوگا۔ باقی سب، اندیشئِہ "غزر” ہے زیبِ داستاں کے لئے!!

دوسری بات، کیا گُورو کی کنوٹیشن نیگیٹیو ہے؟ تو دیکھیں گُورو اس گانے میں اسم کے طور پر آیا ہے۔ اسم کے معنی اگر بظاہر کلئیر نہ بھی ہورہے ہو تو دنیا کی تمام زبانوں میں اسم کے معنی کلئیر کرنے کے لئے اسمِ صفت یعنی Adjective کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ اس رپیٹر میں گُرو کے ساتھ "اِسپاٶ” اور "شَکر” دو ایجیکٹیوز مستعمل ہیں دونوں کا مطلب میٹھا، عزیز اور پیارا وغیرہ ہے۔  میرا خیال ہے یہ دونوں اجیکیٹوز یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ گورو پازیٹیو کنوٹیشن میں استعمال ہوا۔ سو اس لفظ سے بھورے رنگت والوں کی بُلیینگ، کلر پروفائلنگ یا نوآبادیاتی رنگ و نسل والی عصبیت برآمد کرنا ایک خوامخواہ کی افلاطونیت ہے! 

اس رپیٹر کے معنی کی مذید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ جن معنوں میں علاقہ پونیال میں چھوٹے  بچوں کو مخاطب کرنے کیلئے "دُدو” اور "باٰبی”، بسین میں "باٰ” اور کوہستان میں "چَن” وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں انہیں معنوں میں ہمارے علاقے میں بچوں کیلئے اسپاٶ اور شکر کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ ہم سب کو پتہ ہے یہ الفاظ ان تمام لہجوں میں (عموماً خواتین اور بعض اوقات حضرات بھی) اپنے یا دوسروں کے چھوٹے بچوں کو مخاطب کرنے کے لئے بولتے ہیں۔ (مثلا کسی بچے کو پانی لانے کا کہنے کے لئے پونیال کی خاتون کہے گی۔ "دے لا دُدو وئیک دیت”، بسین والی کہے گی "دے لا باٰ وئیک دیت”، ہمارے علاقے والی کہے گی "دے لا اسپاٶ وئیک دیت”۔ کوئی خاتون کسی جوان مرد کو دُودو، باٰ یا اِسپاٶ کہہ کر نہیں مخاطب کرے گی سوائے اس کے کہ آپ کی بھابی مجھے مخاطب کرے 🙂 

اب یہی بچوں کو مخاطب کرنے والے ایڈجیکیٹیوز گُورو کے ساتھ اس گانے میں استعمال ہوئے ہیں اور چیخ چیخ کے بتارہے ہیں کہ یہاں مخاطب بچے ہیں نہ کہ بچوں کے باپ! کم آن یارو! 🙂 

آگے بڑھتے ہیں۔ بعض شریکوں نے اس گانے سے امرد پرستی برآمد کی ہے۔ آسان لفظوں میں  امرد پرستی کا مطلب مرد کا مرد میں رومانوی یا جنسی دلچسپی لینا ہے۔ اب سوال ہے کہ اس گانے میں کیا واقعی امرد پرستی ہے؟ 

یہ گانا گزشتہ دو برسوں سے میرے پاس ڈرافٹ میں موجود ہے۔ میں پڑھتا رہتا تھا۔ بلکہ پرسوں جب یہ گانا ریلیز ہوا تو اپنے ایک سالہ کزن بچے کو یہی گانا گا کے ہاتھوں پر تھوڑا نچایا بھی تھا۔ وہ تو فیسبک کھولی تو پتہ چلا ہر طرف امرد پرستی پھیل گئ ہے۔ ظاہر ہے گانا ہماری مدر ایکسینٹ میں ہے سو ہم نے کوئی ایسا ویسا مطلب نہیں لیا۔ گانے کو بچوں کے لئے لکھا گیا گانا سمجھ کر انجوائے کیا۔ لیکن پھر دوسرے لہجوں والے اہل زبان امرد پرستی برآمد کر ہی رہے ہیں تو اس کی تین وجوہات ہوسکتیں۔ 

پہلی وجہ رقابت اور حسد ہوسکتی ہے۔ ظفر وقار تاج صاحب کو گلگت بلتستان میں تاریخی مقبولیت ملی ہے سلمان پارس بھی بہت پاپولر ہیں۔ جہاں ان کے ہزاروں چاہنے والے ہیں وہاں کچھ لوگ رقابت اور حسد میں بھی آ سکتے۔ لیکن یہ میرا مین تھیسز نہیں ہے۔ آپ حسد والی بات کو یکسر مسترد کرسکتے ہیں!

امرد پرستی برآمد کئے جانے کی دوسری وجہ گانے کی ویڈیو میں پرفارمرز کی عجیب و غریب ڈریسنگ اور ایکٹنگ ہوسکتی ہے۔  گلوگار اور گٹارسٹ کی شرٹز کے رنگ بھی بلیوڈ پرائیڈ والوں سے ملتے جلتے ہیں۔ سلمان پارس بہت ہی اچھے گلوکار ہیں لیکن لگتا ہے ایکٹنگ ان کا کام نہیں۔ اس ویڈیو میں ان سے عجیب حرکتیں غالباً نہ چاہتے سرزد ہورہی ہیں۔ اور پھر ویڈیو میں کوئی چھوٹا بچہ بھی موجود نہیں۔ اس ساری صورت حال میں اگر رپیٹ کے ساتھ مذکر کا صیغہ ایڈرس ہورہا ہو تو ہوسکتا بعض دیکھنے سننے والے واقعی شک میں پڑگئے ہوں۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے اس میں شعر، شاعری اور شاعر کیا قصور؟ یہ تو پرفارمرز کی وجہ سے ہوا۔ مجھے تو پھر بھی یہ بات ہضم نہیں ہوری کہ ویڈیو میں اتنی حسین گلوکارہ موجود ہے یہ بد ذوق پھر بھی امرد پرستی گھسیٹ لائے!

امرد پرستی برآمد کئے جانے کی تیسری اور بنیادی وجہ ہمارے علاقے کی عجیب و غریب سماجی مزہبی پابندیاں اور ان کے ردعمل میں پیدا ہوا  Dark Queer Culture ہے۔ میرا خیال ہے اس پر ضرور ڈیبیٹ ہونی چاہئیے۔ 

قدیم قبائلی روایات اور جدید شدت پسندانہ مزہبی فکر کے گھٹ جوڑ نے ہمارے علاقے میں عجیب و غریب سماجیات پیدا کر دی ہیں۔ غیرت برگیڈ اور مولوی کے الائنس نے ہمارے معاشرے کے مرد کو عورت سے بہت دور کردیا ہے۔ نتیجتاً ہمارا معاشرہ مدر پدر آزاد تو نہیں ہوا لیکن "پدر پدر آزاد” ضرور ہوگیا ہے۔ہمارے علاقے میں لڑکیوں کا لڑکیوں میں دلچسپی لینے کا تو میرے پاس ڈیٹا نہیں نہ میں اس پہ کوئی کمنٹ کرنا چاہتا۔ لیکن یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ گلگت بلتستان کے اکثر اضلاع میں لڑکے نہ صرف لڑکوں میں رومانوی و جنسی دلچسپی لیتے ہیں بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ اس کا برملا اظہار بھی کرتے اور لڑکوں کا ایک ڈیپ ڈارک کلچر اس بات کو انڈورس بھی کرتا۔ لونڈوں کے اس مخصوص ڈارک کلچر میں رشتے باقائدہ اسٹیبلیشڈ ہوتے ہیں کہ فلاں، فلاں کا لڑکا (بال) ہے اور فلاں فلاں کا۔ اس کلچر کی مخصوص رقابتیں، پرم پرا اور شاہ خرچیاں ہیں! غیرت برگیڈ اور مولوی کی ناک کے نیچے لونڈوں نے ایک اپنی دنیا بسائی ہوئی ہے۔ یہ سب معاشرتی اور مزہبی پابندیوں کا ردعمل اور خاص طرح کی بغاوت میں ہورہا ہے۔ 

مجھے اس ڈارک کلچر میں نہیں بلکہ اس کے زبان پر پڑنے والے اثرات میں دلچسپی ہے۔ ظاہر ہے یہ لونڈے بھی اہل زبان ہیں اور اس ڈارک کوئیر کلچر کا اظہار زبان کی سطح پر بھی کرتے ہیں۔ اور اس اظہار نے شینا کے اکثر مذکر صیغے والے اسماء اور اجیکٹیوز کی مٹی پلید کر دی ہے۔ مثلا شینا لفظ "اوݨیلو” منہ بولے بھائی کے لئے بولا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ اوݨیلو ایک قابلِ احترام رشتہ تھا جو مختلف خاندانوں میں نسل در نسل چلتا تھا۔ اب اس ڈارک کلچر میں یہی اُݨیلو لفظ Gay Bottoms کے لئے بولا جاتا ہے۔ اسی طرح باٹو شینا میں پہیے کو کہتے۔ محاورتاً پونیال والے نشے میں دھت شخص کو باٹو کہتے ہیں لیکن لونڈوں کے ڈاک کلچر میں بہت پیارے لڑکے کو باٹو کہا جاتا ہے۔ لو کر لو بات! اور بھی بے شمار مذکر صیغے کے اچھے لفظ ہیں جو اس کلچر کے سلینگ بن گئے ہیں۔ مثلاً، سوݨو، سُدَڇو، شُٹُکو اور ݜئیلو وغیرہ۔

واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔  مجھے لگتا ہے تنقید کرنے والے شاید اس ڈارک کلچر کےتناظر میں گُورو لفظ کو رکھ کر امرد پرستی برآمد کر رہے اور گانے اور شاعر پر تنقید کر رہے۔۔شاید بعض ناقدین کو لگتا ہو کہ گورو کا لفظ بھی کسی مخصوص کونوٹیشن میں استعمال کیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

  اللہ کے بندو! اتنے سارے لفظ بگاڑنے کے باوجود ڈارک کلچر والوں نے بھی چھوٹے بچوں کو مخاطب کرنے والے کسی لفظ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی، معاف کئے رکھا۔ اس گندے کلچر کے بھی سلینگ میں گُورو کا کوئی ایسا ویسا مطلب نہیں ہے۔ تو آپ لوگ کیوں زبردستی کے مطلب نکال رہے؟

یاد رہے لفظ کو اس کے بنیادی لہجے کے تناظر میں دیکھنا اور قبول کرنا علم ہے اور خوامخواہ کی افلاطونیت تکبر ہے اور تکبر جہل۔ باقی، جتنے منہ اتنی باتیں!

بات لمبی ہورہی ہے ۔ آخر میں اس گانے کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں جو بنیادی طور ایک منظوم نصیحت ہے ۔ جن دوستوں کو شینا نہیں بھی آتی وہ دیکھ لیں! کُل تین بند ہیں۔ ہر شینا بند کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ گُورو بمعنی پیارے کے عرض ہے۔

 "دنیاتے پَھتُو نے بو کَکر گُورو

ہمیش مچوک نُش جیک گہ ہتیۡر گُورو

انے چُھرے بیوک ہن متیۡر گُورو

اِسپاؤ گُورو وا مئی شکر گُورو”

 دنیا کے پیچھے مت پھرا کر، پیارے!

 کچھ بھی ہمیشہ ہاتھ نہیں رہنے والا!

بس یہ زہن نشین رکھ لے، پیارے!

عزیز پیارے، ارے میرے میٹھے پیارے! 

"نی دیزی جیک گہ تھگات تریجوک ہن

نہ حیثیت نہ جوانی مچوک ہن

کرے گہ جیکچ تھوک نُس فخر گُورو

اِسپاؤ گُورو وا مئی شکر گُورو”

                                      

یہ دن بہرحال گزرنے والے ہیں

حیثیت نہ جوانی ابدی ہے! 

کبھی کسی چیز کا غرور نہیں کرنا، پیارے!

عزیز پیارے، ارے میرے میٹھے پیارے! 

” کَھچونٹ نے گا تو تُو جوکیۡٹ بجے

اَڇھیئے جپ تھے یاتوت ڈوکیٹ بجے

الا تُو بودو نے بو پھپھر گُورو

اِسپاؤ گُورو وا مئی شکر گُورو”

(روایتی کھیل کے) انعام کے نہیں تو جرمانے کی نذر ہو جائےگا

تُو آنکھیں بند کر کے چلے گا تو (اسی کھیل کے) گڑھے میں گِرجائےگا۔ 

سُن، تو اس چکر میں زیادہ نہ پھرا کر، پیارے! 

عزیز پیارے، ارے میرے میٹھے پیارے! 

لائٹر نوٹ: میرا خیال ہے بات سمجھ آگئ ۔ اب اتنی آرگیومنٹیشن اور پھر ترجمہ کرنے کے بعد بھی کسی کو امرد پرستی ہی نظر آرہی تو اس کا اپنا مسئلہ ہے۔ وہ اپنے لئے کوئی اُݨیلو ڈھونڈ لے۔ لڑکیوں کے رشتے مانگ کر دوسروں کی مارکیٹ خراب نہ کرے۔ ہم پہلے ہی تپے کنوارے بیٹھے ہیں۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button