مداری، بندر اور تماشائی
یہ بات سچ ہے کہ بھوک مداری کو لگی ہوتی ہے تو ناچنا بندر کو پڑتا ہے۔گلگت بلتستان میں جب سے سردار عالم نامی پاکستانی نے قدم رکھا تب سے وفاق پرست گلگت بلتستان کے (مذہبی و سیاسی)سیاست دان بندر کا کردار نبھا رہے ہیں اور بہت خوبی کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔ جبکہ اسلام آباد اور گلگت میں بیٹھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی پارٹیوں کے رہنما مداری کا کردار نبھا رہے ہیں۔ اور سیاسی شعور سے نابلد ، فرقوں اور ذات پات میں تقسیم گلگت بلتستان کے سادہ عوام تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مداری کی بھوک کم ہی نہیں ہورہی، تو بندر کب تک ناچے؟ اور پھر مداری کی بھوک کی خاطر کیوں ناچ رہیں ہیں؟اور تماشائی بھی کب تک یہ گھسا پٹا ایک ہی سین بار بار دیکھے۔کیا کبھی تماشائی کو اکتاہٹ ہوگی ؟ اس مجبوری کے واہیات ناچ سے کیا کبھی تماشائی اس تماشے سے ہٹ کر کچھ نیا دیکھنے کی خواہش کرئے گا ؟اگر ہاں تو پھر کب کرئے گا ؟
ہوتا یوں ہے کہ جب تماشہ ایک دن کے لیے اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ تو مداری بندر کو دور ایک کونے میں باندھ دیتا ہے اور بہت منت لگا کر ایک سوکھی روٹی کا ٹکڑا بندر کے سامنے ڈال کر ،گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر اپنی فیاضی کا اعلان کرتا ہے اور بندر کے ناچ سے کمائے ہوئے پیسوں سے پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سکون کی نیند سوتا ہے ۔مداری کو معلوم ہے کہ تماشائی موجود ہے اور بندر کل بھی تماشہ دکھائے گا لہذا اس کے بھوکے رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگلا دن ایک بار پھر بندر کی تابعداری اور سمجھداری کے سبب مداری کا اچھا گذرجاتا ہے اور اسی طرح مداری کا ہر دن ماضی کی طرح اطمینان سے گذر رہا ہے۔جب تک بندر زندہ ہے اور تماشائی لطف اندوز ہورہے ہیں مداری کا کاروبار تا حیات چلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ مداری کو کوئی اور کام آتا ہی نہیں اس لیے نہ مداری نے اس کھیل سے باز آنا ہے اور نہ ہی وفاقی بندر نے کھیل چھوڑنا ہے اور اگر مر بھی گیا تو اس کے بچے اتنے ہیں کہ اس کا پچھلا رکارڈ توڈ کر نیا کرتب دیکھائیں گے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اس کھیل سے اگر تماشائیوں کو نکالنا ہے تو کیسے نکال لیں ؟