کالمز

گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی عروج و زوال کی کہانی اور تاریخ کا المیہ

مورخہ 4 جولائی 2023 کو گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی منتخب حکومت کے چیف منسٹر خالد خورشید ایک جعلی ڈگری کیس میں  چیف کورٹ گلگت گلگت بلتستان نے نا اہل قرار دے دیا اور اس طرح پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا،  دلچسپ بات یہ ہے اس پہلے کئی بار جمہوری طریقہ سے عدم اعتماد کے زریعے حکومت گرانے میں اپوزیشن جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ناکام ہوچکی تھی مگر یہ کام آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی عدالتی فیصلہ کے زریعے سر انجام دیا گیا۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے چہیتے چیف منسٹر گلگت بلتستان خالد خورشید کی نااہلی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان میں تحریک انصاف پاکستان کے رہنماؤں نے پلک جھپکتے ہی اپنی راہیں جدا کی اور پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کیا  ہے، اس وقت گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے تین گروپ بن گئے ہیں،  ایک گروپ ہم خیال گروپ کہلایا ہے دوسرا فارورڈ بلاک اور تیسرا گروپ خالد خورشید کا ہے جس سے نہ صرف عدالت نے نا اہل قرار دیا ہے بکہ آئندہ ڈھائی سال کے لئے وہ الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کی حکومت تاش کے پتوں کی بکھر گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت گلگت بلتستان میں خالد خورشید واحد شخص ہیں جو آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، اس لئے عمران خان نے  عدالت سے نا اہلی کے باوجود خالد خورشید کو گلگت بلتستان تحریک انصاف کا صدر بدستور برقرار رکھا ہے لیکن بدقسمتی سے عمران خان کی جماعت کے دیگر رہنما اور وزیر مشیر پارٹی کو خیر آباد کہہ کر نئی حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔
آج تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد  فارورڈ بلاک کے رہنما حاجی گلبر خان PDM کی حمایت سے نئے قائد ایوان منتخب ہو چکے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے قائد ایوان کی دوڈ میں گلبر خان کے حریف امیدوار بھی تحریک انصاف حکومت کے ایک سابق  وزیر راجہ اعظم خان تھے جو اپنے آپ کو ہم خیال گروپ کا متفقہ امیدوار قرار دے رہے تھے،  انہوں نے ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک و دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ آج گلگت بلتستان میں قائد ایوان کی الیکشن کا متفقہ طور پر بائیکاٹ کیا اور اپوزیشن جماعتوں ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک اور بالخصوص پی ٹی آٸی سے ٹوٹ کر بننے والا  ہم خیال گروپ نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ان کے ممبران کو زبردستی فارورڈ بلاک میں شامل کرنے پر اسٹبلشمنٹ پر الزام لگایا ہے۔  اور اس طرح ایک سیاسی کرائسس کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
قائد ایوان کی اس الیکشن پر یوں تو بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود آج جب گلگت بلتستان اسمبلی کے قائد ایوان حاجی گلبر صاحب منتخب ہوئے تو اسی دوران اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قوم پرست رہنما  گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن و  بالاورستان نیشنل فرنٹ کے چیئرمین نواز خان ناجی نے کہا "جناب چیف منسٹر صاحب آپ کو مبارک ہو کیونکہ اپ بھی اس طرح ہی چیف منسٹر بنے ہیں جس طرح آپ سے پہلے لوگ گلگت بلتستان اسمبلی کے چیف منسٹر بننے تھے یہ پریکٹس  1947 سے چل رہی ہے چنانچہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
جناب سپیکر یہ ایک مظلوم اسمبلی ہے مقتدر ایوان کہہ کر اس اسمبلی میں جھوٹ بولا جاتا ہے،  میں چیف منسٹر کو مبارک دینے کے علاوہ اپنے تمام دوستوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں وہ شام کو آرام سے بیٹھ کر سوچے کہ  اس ماہ کے دوران ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اگر وہ ضمیر کے مطابق ہے تو آپ کو مبارک ہو بصورت دیگر یہ قابل مذمت العمل ہے اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے اور خود مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان میں اسلام آباد کی مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں”۔
واضح رہے چند دن قبل قائد ایوان کی الیکشن کو عدالتی حکم سے  روکنے کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی کو پولیس نے سیل کر دیا تھا اور اسمبلی ممبران اور سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا تھا جس پر پاکستان کے سنیٹر رضا ربانی نے پاکستان قومی سمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” پولیس نے جس طریقے سے گلگت بلتستان اسمبلی کو سیل کیا یہ پارلیمانی تاریخ میں سیاہ ترین دن تھا۔ یہ آپ کی جمہوریت کے لئے خطرہ کے علامات ہیں۔ 
گلگت بلتستان اسمبلی کی بے توقیری کی بنیادی وجہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 ہے جس کو بنانے میں گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کا کوئی اختیار اور کردار شامل نہیں ہے نہ ہی اس آرڈر کو سپریم اپیلیٹ کورٹ یا چیف کورٹ گلگت بلتستان میں چیلنج کیا جا سکتا ہے یہ درحقیقت ایک صدارتی حکم نامہ ہے جس کے تحت اختیارات کا مالک وزیراعظم پاکستان ہے ، جو اس خطے میں ایک بادشاہ سے زیادہ اختیارات رکھتا ہے اور اس خطہ بے آئین میں کوئی اس وفاقی جماعت کی ہوتی ہے جس کی وفاق پاکستان میں حکومت ہوتی ہے  چنانچہ گلگت بلتستان میں راتوں رات نہ صرف حکومت بنائی جاتی ہے بلکہ گرانے میں بھی دیر نہیں لگتی۔  اور لوگ بھی ان جماعتوں کے ارد گرد منڈلاتے ہیں جن کا وفاقی حکومت ہوتی ہے۔ اور حکومت ختم ہوتے ہی لوگوں کی وفا داری بھی یکسر بدل جاتی ہے  جس طرح اج کل گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے تمام رہنما اور وزیر مشیر پارٹی سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے  ماضی اس طرح کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
کچھ سال قبل گلگت بلتستان میں MQM کا بہت چرچا تھا ہمارے ایک پروفیسر نے مجھ سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے؟ گلگت بلتستان کے لوگ کراچی کی ایک لسانی جماعت کو کیوں سپورٹ کر رہے ہیں؟
میں نے کہا "سر ہمارے لوگ نوآبادیاتی نظام میں رہتے ہیں جہاں لوگ طاقت کا ساتھ دیتے ہیں اور یہی ہماری تلخ تاریخ ہے”۔ جب ہوا کا رخ بدلتا ہے تو وہ بدلتے ہیں، اور ہوا بھی ایسا چند سالوں میں MQM جی بی میں ماضی کی مزار بن گئی اور آج گلگت بلتستان میں ایم کیو ایم کے کارکن ڈھونڈنے سے بھی دیکھائی نہیں دیتے ہیں۔ بلکل  اسی طرح چند ماہ قبل تک یہاں عمران خان کا بول بالا تھا لیکن آجکل PTI کی حالت بھی MQM  جیسی بن چکی ہے ،  گذشتہ دنوں گلگت بلتستان چیف کورٹ سے ہمارے دوست خالد خورشید سابق چیف منسٹر گلگت بلتستان کی نااہلی کے بعد اس کی جماعت کے تمام  رہنما وزیر مشیر وغیرہ ہم خیال اور فارورڈ بلاک بنا کر اپنے اپنے راستے بدل چکے ہیں اور عین ممکن ہے اپنے عبوری رہنماؤں کی دیکھا دیکھی  آنے والے دنوں میں جدباتی کارکن بھی نظر نہیں آئیں گے۔
 گلگت بلتستان کی تاریخ کا المیہ دیکھیں کہ جب 745  صدی عیسوی میں  تبت اور چین کی افواج نے گلگت کی وادیوں میں ان اہم سٹریٹیجک راستوں پر کنٹرول کے لئے جنگ لڑی اور اس خونی جنگ میں جب چینی افواج جیت گئے اور تبت کی فوج کو شکست ہوئی اور اس جنگ کے نتیجے میں بلور ریاست ٹوٹ گئی اور اس کے بعد ہمارے لوگوں نے فاتح فوج کا ساتھ دیا۔ اس طرح کی ایک اور اہم مثال موجود ہے جب 1840 کے بعد پنجاب کے سکھوں نے حملے کئے تو شکست کے بعد ان کا ساتھ دیا ، پھر جموں وکشمیر کے ڈوگروں اور برٹش انڈیا نے شکست دیا تو ان کے ساتھ دیا بعدازاں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے فورا بعد سردار محمد عالم کا ساتھ دیا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے درحقیقت یہ ایک طویل المدتی نوآبادیاتی نظام کے زیر تسلط نفسیات ہے۔ 
بقول زعغم عباس جیسے ہی پی ٹی آٸی کی حکومت گٸی۔ سب نے ہوا کا رکھ دیکھ کر شرافت سے راستہ بدل لیا۔ اسے کہتے اصل نوآبادیاتی نفسیات جہاں باہر سے آنے والوں کو افتادگان خاک پر ہمہ وقت جبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اسکے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ خود اسکا اہتمام کر لیتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی تحریک  ایم ڈبلیو ایم اور گلگت بلتستان ہم خیال گروپ کا  گلگت بلتستان قائد ایوان کے لیے ہونے والے ایکشن سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد گلگت بلتستان کی اجتماعی قومی مفادات کے لئے گلگت بلتستان کے نوجوان کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ کیا وہ فرقہ واریت ،علاقہ پرستی اور رنگ نسل  سے بالاتر ہوکر ایک قوم بن کر اپنی دھرتی میں امن ، ترقی و تبدیلی کے لئے سیاسی جدوجہد کرتے ہیں یا پھر لا لا موسی، راؤنڈ،  زمان پارک یا پھر بدستور بڑے بھائی کے پیچھے پیچھے نعرے لگاتے پھرتے ہیں ؟ اس سوال کا فیصلہ وقت ہی کرے گا ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button